روسی فوج یوکرین کے دوسرے بڑے شہر خارکیف میں داخل

Story by  غوث سیوانی | Posted by  [email protected] | Date 27-02-2022
روسی فوج یوکرین کے دوسرے بڑے شہر خارکیف میں داخل
روسی فوج یوکرین کے دوسرے بڑے شہر خارکیف میں داخل

 

 

ماسکو: روس نے دعویٰ کیا ہے کہ اس کی فوج نے یوکرین کے جنوبی شہر خیرسن اور جنوب مشرقی شہر برڈیانسک کا مکمل محاصرہ کر لیا ہے۔ ایک خبر رساں ادارے کے مطابق روسی وزیر دفاع کے ترجمان نے کہا کہ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران خیرسن اور برڈیانسک کو روسی فوج نے مکمل بلاک کر دیا ہے۔

دوسری جانب خارکیف کی علاقائی انتظامیہ کے چیئرمین نے کہا کہ روسی فوج ملک کے دوسرے بڑے شہر خارکیف میں داخل ہو گئی ہے اور لڑائی جا رہی ہے۔

چیئرمین اولے سائنی گوبوف نے فیس بک پوسٹ میں کہا کہ یوکرین کی افواج دشمن کو ختم کر رہی ہیں۔ روس نے کہا ہے کہ یوکرین کے ساتھ بیلا روس میں بات چیت کے لیے تیار ہے۔

دوسری جانب یوکرین کے صدر نے کہا ہے کہ بات چیت کے لیے تیار لیکن بیلا روس میں نہیں۔ اس سے قبل یوکرین کے صدر ولودومیر زیلینسکی کے دفتر نے کہا کہ روسی افواج نے خارکیف میں ایک گیس پائپ لائن کو دھماکے سے اڑا دیا ہے جبکہ دارالحکومت کیئف کے ایک ایئرپورٹ کو بھی نشانہ بنایا ہے۔

یوکرین کی سرکاری مواصلاتی سروس نے کہا ہے کہ دارالحکومت سے 40 کلومیٹر کے فاصلے پر تیل کے ایک ڈپو کو نشانہ بنایا گیا ہے۔

حکام نے خبردار کیا ہے کہ تیل ڈپو سے اٹھنے والے دھوئیں سے ماحولیاتی تباہی پیدا ہو سکتی ہے اور شہریوں کو زہریلی دھوئیں سے بچنے کی ہدایت کی ہے۔

ابتدائی معلومات سے واضح نہیں کہ یہ پائپ لائن کس قدر اہم ہے اور کیا اس دھماکے سے ملک کے کسی بھی حصے میں گیس کی ترسیل متاثر ہو سکتی ہے۔

یوکرین میں بگڑتی ہوئی صورتحال کے پیش نظر شہری قریبی ممالک میں پناہ لینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ شہری پولینڈ، مالدوفا اور دیگر ہمسایہ ممالک کو بھاگ گئے ہیں جبکہ اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ صورتحال مزید خراب ہونے پر یہ تعداد چار لاکھ تک بھی بڑھ سکتی ہے۔

جبکہ حکومت نے 39 گھنٹوں سے کرفیو نافذ کر رکھا ہے تاکہ شہریوں کو گھروں سے باہر نہ نکلنے دیا جائے۔ اس سے قبل امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون نے کہا تھا کہ یوکرین کی فوج کی جانب سے سخت مزاحمت ملنے پر روس کی حملہ آور فوج کو مایوسی کا سامنا ہے جبکہ پیش قدمی سست ہونے کے باعث فوج دارالحکومت کیئف میں داخل نہیں ہو سکی۔

پینٹاگون کے ایک عہدیدار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر صحافیوں کو بتایا کہ امریکہ اور مغربی اتحادی ممالک یوکرین کی فوج کو ہتھیار بھجوا رہے ہیں جبکہ امریکہ کا آئندہ دنوں میں مزید اسلحے کی ترسیل کا ارادہ ہے تاکہ روس کے زمینی اور فضائی حملوں کا مقابلہ کیا جا سکے۔ پینٹاگون کے مطابق روس کی حملہ آور فوج کا 50 فیصد اس وقت یوکرین میں موجود ہے تاہم غیر متوقع طور پر مزاحمت کا سامنا کرنے کے باعث پیش رفت آہستہ ہے۔

عہدیدار نے کہا کہ بالخصوص یوکرین کے شمالی حصوں میں گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران کوئی خاطر خواہ پیش قدمی نہ ہونے پر روسی فوج کی مایوسی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ پینٹاگون کے مطابق روسی افواج دارالحکومت کیئف سے تقریباً 30 کلو میٹر کے فاصلے پر موجود ہیں تاہم انہوں نے واضح کیا کہ صورتحال تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے۔

سنیچر کو یوکرین کی جانب سے بیلا روس میں مذاکرات کی پیش کش رد کیے جانے کے بعد روس کی وزارت دفاع نے فوج کو یوکرین پر ہر طرف سے حملہ کرنے اور اس کا دائرہ بڑھانے حکم دیا تھا۔ علاوہ ازیں اتحادی ممالک نے روس کے بینکنگ شعبے کو نقصان پہنچانے کی غرض سے غیر معمولی اقدامات لیتے ہوئے چند بینکوں کا رابطہ سوئفٹ سسٹم سے ختم کر دیا ہے۔

ان اقدامات کے ذریعے روسی مرکزی بینک کی اپنے ذخائر استعمال کرنے کی صلاحیت متاثر ہوئی ہے جس سے وہ روسی روبل کی گرتی ہوئی قدر کو سہارا نہیں دے سکے گا۔ امریکہ، کینیڈا، یورپی کمیشن، برطانیہ، فرانس، جرمنی اور اٹلی نے ان قدامات کی حمایت کرتے ہوئے ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ روس پر ایسی پابندیاں عائد کرنے میں پرعزم ہیں جو اسے عالمی مالیاتی نظام میں تنہا کر دیں گے۔

روس کے خلاف دنیا بھر میں مظاہرے دووسری جانب روس کے یوکرین پر حملے کے خلاف دنیا بھر کے مختلف ممالک میں مظاہرے ہوئے ہیں جن میں شہریوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ امریکہ اور لندن سے لے کر دیگر یورپی ممالک میں مظاہرین نے حملے کی مذمت کرتے ہوئے روس سے خون خرابہ ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔

سوئٹزر لینڈ میں ہزاروں کی تعداد میں شہریوں نے مظاہرے کیے جبکہ جینیوا میں اقوام متحدہ کے یورپی ہیڈ کوارٹر کے باہر بھی تقریباً ایک ہزار شہریوں نے احتجاج کیا۔

فرانس کے دارلحکومت پیرس میں بھی مظاہرے ہوئے جبکہ روس کے ہمسایہ ملک فن لینڈ میں ہزاروں کی تعداد میں مظاہرین نے احتجاج کیا اور روسی افواج اور صدر ولادیمیر پوتن کے خلاف نعرے بازی کی۔ اٹلی کے دارالحکومت روم میں ٹریڈ یونینز اور غیر سرکاری تنظیموں کے اعلان پر ہزاروں افراد نے روس کے خلاف مظاہرے میں شرکت کی۔