پاکستان:سکھوں کو کرپان کے ساتھ سرکاری دفاترمیں داخلے کی اجازت

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 23-12-2021
پاکستان:سکھوں کو کرپان کے ساتھ سرکاری دفاترمیں داخلے کی اجازت
پاکستان:سکھوں کو کرپان کے ساتھ سرکاری دفاترمیں داخلے کی اجازت

 

 

اسلام آباد: ’’آج میری زندگی کا سب سے زیادہ خوشی کا دن ہے کیوں کہ اب سیکیورٹی کے نام پر مجھ سے کسی بھی سرکاری دفتر میں داخلے کے وقت کرپان نہیں لیا جائے گا۔" یہ کہنا ہے پشاور میں سکھ برادری کے حقوق کے لیے کام کرنے والے سماجی کارکن گورپال سنگھ کا، جو پشاور ہائی کورٹ کے حکم نامے سے قبل سیکیورٹی وجوہات پر کرپان لیے جانے سے انتہائی پریشان ہوا کرتے تھے۔

اس حوالے سے انہوں نے پشاور ہائی کورٹ کے رجسٹرارکے نام درخواست ارسال کی تھی۔ کرپان ایک چھوٹا سا خنجر ہوتا ہے جو سکھ مذہب کے ماننے والوں کے لیے پانچ اہم مذہبی نشانیوں میں سے ایک ہے۔ 15 برس کی عمر کے بعد ہر سکھ کو یہ اپنے پاس رکھنا ہوتا ہے۔

گورپال سنگھ نے بتایا کہ ان کی برادری کے افراد سے کسی بھی سرکاری دفتر، اہم مجلس، بی آر ٹی میں سفر کرنے یا ایئر پورٹ جانے سے قبل ان کی مذہبی نشانی کرپان کو زبردستی اتر کر رکھ لیا جاتا تھا۔

اس عمل کے خلاف انھوں نے گزشتہ سال پہلے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس گلزار احمد کے سامنے اپنی برادری کا مسئلہ بیان کیا اور بعد میں پشاور ہائی کورٹ کے نام ایک درخواست لکھی جس میں اپنی برادری کو پیش آنے والے سب سے اہم مسئلے کی نشاندہی کرائی۔ گورپال سنگھ کا کہنا ہے کہ سکھ مذہب کے عقائد کے مطابق پانچ اہم کام ہیں جن میں کیش یعنی لمبے بال رکھنا، کڑا پہننا، کچھا پہننا، پگڑی باندھنا، کنگھی اور کرپان رکھنا شامل ہیں۔

پشاور ہائی کورٹ نے بدھ کو ایک حکم نامہ جاری کیا ہے جس کے مطابق خیبر پختونخوا کی اسلحہ پالیسی 2012 کے تحت کرپان کو بطور لائسنس ہتھیار ساتھ رکھا جا سکتا ہے۔ گورپال سنگھ کے مطابق پاکستان میں سکھ برادری باشندوں کی تعداد لگ بھگ 55 ہزار ہے جن میں سے 35 ہزار خیبر پختونخوا میں مقیم ہیں۔

پشاور میں سکھ برادری کی زیادہ تعداد محلہ جوگن شاہ میں ہے اور زیادہ تر حکمت کے پیشے سے وابستہ ہے۔ گورپال سنگھ پشاور ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو ناکافی سمجھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کرپان ایک مذہبی نشانی ہے اور وہ اس حوالے سے تمام اداروں سے بات کر کے انھیں اعتماد میں لینے کی کوشش کریں گے کہ اسے لائسنس فیس سے مستثنیٰ قرار دیا جائے کیوں کہ اس قسم کی مذہبی نشانیوں پر ٹیکس یا پیسے نہیں لیے جاتے۔

ان کے مطابق اس کے ساتھ ساتھ اس کے لائسنس کی تجدید بھی نہ ہو بلکہ لائف ٹائم کے لیے لائسنس ہو۔ گورپال سنگھ کو خدشہ ہے کہ جیسے ہی دہشت گردی کے کوئی واقعات ہوتے ہیں ان کی برادری کے لیے مسائل پھر سے شروع ہو جاتے ہیں جس کے بعد ان کا کرپان سب سے پہلے اس کی زد میں آتا ہے۔

انھوں نے مزید بتایا کہ سکھ مذہب کے دسویں گرو سردار گوبن سنگھ نے 1699 میں کرپان کو سکھوں پر لازمی قرار دیا تھا اس لیے وہ اسے ہمیشہ اپنے پاس رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ سکھ برادری نے کبھی بھی اپنی مذہبی نشانی کا غلط استعمال نہیں کیا۔

پشاور ہائی کورٹ کے حکم کے حوالے سے انسانی حقوق کے کارکن اور وکیل قمر نسیم ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ پوری دنیا میں سکھ برادری کو کرپان کو ساتھ رکھنے اور موٹر سائیکل پر ہیلمٹ پہننے سے استثنیٰ حاصل ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ پاکستان میں بھی سکھ برادری کو وہی سہولیات فراہم کی جائیں جو انھیں عالمی سطح پر حاصل ہیں۔

قمر نسیم ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ سکھ برادری نے اس اہم معاملے کو ہر سطح پر اٹھایا ہے اور وہ ایسی کسی بھی محفل اور میٹنگ میں جانے سے گریز کرتے ہیں جہاں انھیں کرپان اتارنے کا کہا جائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ کرپان سکھوں کے لیے مذہبی طور پر بہت اہم ہے اور وہ کسی بھی صورت اسے اپنے بدن سے جدا نہیں کرنا چاہتے۔

دوسرا سکھ برادری نے پاکستان میں اسے کہیں بھی شدت پسندی کے لیے استعمال نہیں کیا ہے۔ وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انھوں نے مزید بتایا کہ اس حوالے سے سکھ کمیونٹی کے پاس سپریم کورٹ میں اپیل کا حق ہے تاہم وہ سمجھتے ہیں کہ اس مسئلے کو پارلیمنٹ میں زیرِ بحث لایا جائے تاکہ اس حوالے سے مثبت قانون سازی کی جائے اور سکھ برادری کے اہم مذہبی مسئلے کو حل کیا جا سکے۔