اسلام آباد [پاکستان]، 27 اگست (اے این آئی):بلوچستان کے جبری طور پر لاپتہ رہنماؤں کے اہلِ خانہ اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے اسلام آباد میں گزشتہ 42 دنوں سے دھرنا دیے بیٹھے ہیں، تاہم اب تک ان کے مطالبات پورے نہیں ہو سکے۔ یہ احتجاج بلوچ یکجہتی کمیٹی(BYC)کی قیادت میں جاری ہے۔
بی وائی سی کے مطابق، مظاہرین نے اس دوران شدید گرمی، بارشوں اور حکومتی رکاوٹوں کے باوجود جدوجہد جاری رکھی ہے، اور انہیں مسلسل ہراسانی اور دباؤ کا سامنا ہے۔تنظیم نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر جاری بیان میں کہا کہ آج اسلام آباد دھرنے کا 42واں دن ہے۔ چھ ہفتوں سے جبری طور پر لاپتہ اور نظر بند رہنماؤں کے اہلِ خانہ، جن میں مائیں، بہنیں، بچے اور بزرگ شامل ہیں، کڑی دھوپ، بارش، حکومتی ہراسانی اور پابندیوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ اس سب کے باوجود وہ اپنے پیاروں کی رہائی اور بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے خاتمے کے مطالبے پر ڈٹے ہوئے ہیں۔"
بی وائی سی نے مزید کہا کہ پانچ ماہ گزرنے کے باوجود اس کی رہنما ڈاکٹر مہرنگ بلوچ اور دیگر رہنماؤں کو رہا نہیں کیا گیا۔ تنظیم نے ریاست پر الزام لگایا کہ وہ اغوا، گرفتاریوں اور تشدد کے ذریعے بلوچستان میں اختلافی آوازوں کو دبانے کی کوشش کر رہی ہے، جبکہ عدلیہ پر جانبداری کا الزام لگاتے ہوئے کہا گیا کہ نہ تو قیدیوں کو رہا کیا جا رہا ہے اور نہ ہی ان پر کوئی الزام ثابت کیا گیا ہے۔
بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ قید کے باوجود ڈاکٹر مہرنگ بلوچ اور ان کے ساتھی "مزاحمت اور استقامت کی علامت" بنے ہوئے ہیں۔تنظیم نے عالمی برادری اور انسانی حقوق کے اداروں سے مداخلت کی اپیل کرتے ہوئے خبردار کیا کہ دنیا کی خاموشی ان زیادتیوں کو مزید تقویت دے گی۔واضح رہے کہ بلوچستان میں جبری گمشدگیاں کئی دہائیوں سے ایک سنگین انسانی حقوق کا مسئلہ بنی ہوئی ہیں۔ بلوچ طلبہ، قوم پرست رہنما، کارکنان اور دانشور طویل عرصے سے مبینہ طور پر ریاستی اداروں کے ہاتھوں لاپتہ کیے جا رہے ہیں، جو صوبے میں زیادہ خودمختاری اور حقوق کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔