پاکستان : مندر پر حملہ روکا جاسکتا تھا ۔پارلیمانی اسٹینڈنگ کمیٹی

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 13-08-2021
 رحیم یار خان  کا مندر
رحیم یار خان کا مندر

 

 

اسلام آباد : پاکستان میں مندر پر حملہ کے معاملہ میں  پاکستان کی پارلیمانی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے انسانی حقوق کو بتایا گیا ہے کہ صوبہ پنجاب کے ضلع رحیم یار خان میں ہندوؤں کی عبادت گاہ پر حملہ وقوع پذیر ہونے سے پہلے روکا جا سکتا تھا۔

مزید کہا گیا کہ پولیس کے غیر ذمہ دارانہ اور غیر پیشہ ورانہ رویے کے باعث بعض شر پسندوں نے مندر کو نشانہ بنا کر مذہبی رواداری کو ٹھیس پہنچائی۔

 جمعرات کو پاکستان پارلیمنٹ ہاؤس میں ہونے والے قائمہ کمیٹی کے اجلاس کی صدارت کمیٹی چئیرمین بلاول بھٹو زرداری کی غیر موجودگی میں، پیپلز پارٹی کی رکن قومی اسمبلی شازیہ عطا مری نے کی۔

 اجلاس میں چار اگست کو ضلع رحیم یار خان کے شہر بھونگ میں ہندوؤں کے مندر پر حملے اور اس سے قبل ایک آٹھ سالہ بچے پر مقدمے کا اندراج زیر بحث آیا۔ 

یاد رہے کہ بھونگ میں ایک بچے کے مبینہ طور پر مذہبی مدرسے میں پیشاب کرنے کے بعد ہندوؤں کے مندر پر حملہ کیا گیا، جبکہ اس شہر میں آباد کئی ہندو خاندانوں کو اپنی حفاظت کی خاطر وہاں سے محفوظ مقامات کی طرف منتقل ہونا پڑا۔

پاکستانی  سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس لینے کے بعد مذکورہ مندر کی بحالی کا کام تقریباً مکمل کرلیا گیا ہے جبکہ علاقے میں مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد پر مشتمل امن کمیٹی بھی بنا دی گئی ہے۔

 قائمہ کمیٹی میں بحث کا آغاز کرتے ہوئے رکن قومی اسمبلی لعل چند نے کہا کہ پولیس کے بروقت اقدام سے مندر پر حملے کو روکا جا سکتا تھا، اس سلسلے میں انہوں نے رحیم یار خان پولیس، خصوصاً ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر (ڈی پی او) کو تنقید کا نشانہ بنایا۔

انہوں نے کہا کہ حملے سے قبل بعض عناصر سوشل میڈیا پر ہندوؤں اور ان کی عبادت گاہوں کے خلاف مواد پوسٹ کر رہے تھے، لیکن پولیس نے اس سلسلے میں کوئی قدم نہیں اٹھایا۔

 اجلاس میں موجود پنجاب پولیس کے اہلکار اراکین کے سوالات کے تسلی بخش جوابات دینے میں ناکام رہے اور مندر پر حملے کے مسئلے کو پولیس کے وسائل اور اتھارٹی کی کمی کی وجہ بتاتے رہے۔ پنجاب کے ڈی آئی جی آپریشنز سہیل سکھیرا کا اس موقع پر کہنا تھا کہ پولیس کے پاس وسائل موجود ہوں تو رینجرز کو بلانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ ’ہمیں آپ (اراکین اسمبلی) نے مضبوط بنانا اور طاقت دینا ہے، جس طرح دوسروں کو تحفظ حاصل ہے ہمیں بھی دیں۔‘

 اس موقع پر کرسی صدارت پر موجود شازیہ عطا مری نے ان سے دریافت کیا: ’آپ حملے کو کنٹرول نہیں کر سکے، لیکن سب کچھ شروع ہونے سے پہلے سوشل میڈیا پر جو کچھ ہو رہا تھا، اس پر ایکشن کیوں نہیں لیا گیا؟

 انہوں نے مزید کہا کہ آج کل پاکستان میں سوشل میڈیا پر بے ضرر سی پوسٹ لگانے پر تو لوگوں کو گرفتار کر لیا جاتا ہے، لیکن رحیم یار خان پولیس نے اس سوشل میڈیا پروپیگنڈے کا کوئی نوٹس نہیں لیا جو ایک مذہبی اقلیت کے خلاف کیا جا رہا تھا۔

 قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں موجود وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا: دراصل پولیس کرنا ہی نہیں چاہتی تھی۔ اگر وہ چاہتے تو جو کچھ ہوا کبھی بھی نہ ہوتا

انہوں نے سوال اٹھایا کہ جب ہندوؤں کے خلاف سوشل میڈیا پر مواد آنا شروع ہوا تو پولیس اور ضلعی انتظامیہ نے مندر اور ہندو آبادی کو تحفظ کیوں نہیں مہیا کیا؟ 

قائمہ کمیٹی کو واقعے سے متعلق بریفنگ دیتے ہوئے سہیل سکھیرا نے مذہبی مدرسے میں مبینہ طور پر پیشاب کرنے والے بچے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس کی عمر آٹھ، دس یا 11 سال ہے۔

 اس پر اراکین کمیٹی کی جانب سے بچے کی صحیح عمر سے متعلق اٹھائے گئے سوال پر انہوں نے اپنی لا علمی کا اظہار کیا۔

اس موقع پر وفاقی وزیر شیریں مزاری نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا: ’حیرت ہے کہ یہ لوگ (پولیس) بچے کی عمر کے ساتھ کیوں کھیل رہے ہیں؟

وفاقی وزیر نے پولیس اہلکاروں سے دریافت کیا کہ انہوں نے ایک کم عمر بچے کے خلاف مقدمہ کیوں درج کیا؟ تاہم وہاں موجود پولیس افسران میں سے کوئی اس کا تسلی بخش جواب نہ دے سکا۔  شیریں مزاری نے کمیٹی کو بتایا کہ تعزیرات پاکستان کے مطابق 12 سال سے کم عمر کے افراد بچے کی تعریف میں آتے ہیں اور ان پر مقدہ دائر نہیں کیا جا سکتا۔

 یاد رہے کہ بھونگ شہر میں واقع مدرسے کی انتظامیہ کی شکایت پر رحیم یار خان پولیس نے آٹھ سالہ بچے کے خلاف مدرسے میں پیشاب کرنے کے جرم کا مقدمہ تعزیرات پاکستان کے سیکشن295 اے کے تحت درج کیا تھا، تاہم بعد ازاں ایک مقامی عدالت نے بچے کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دے دیا تھا۔

 وفاقی وزیر شیریں مزاری نے اجلاس کو بتایا کہ ان کی وزارت نے متعلقہ حکام سے اس متعلق دریافت کیا تو بتایا گیا کہ سیکشن295 اے کے تحت سزائے موت نہیں ہوسکتی۔  اجلاس کے دوران ویڈیو لنک پر پنجاب کے سیکریٹری داخلہ کا اس سلسلے میں موقف حاصل کرنے کی کوشش کی گئی، لیکن دوسری طرف ایک ایڈیشنل سیکریٹری موجود پائے گئے، جس پر اراکین کمیٹی نے احتجاج کیا

 تاہم بعد میں سیکریٹری داخلہ پنجاب ڈاکٹر ظفر نصراللہ خان ویڈیو لنک کے ذریعے اجلاس میں شریک ہوئے اور بتایا کہ تقریباً 60 افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے، جبکہ ابتدائی تحقیقات جاری ہیں جن کے مکمل ہونے پر تفصیلی تحقیقات کی جائیں گی اور دیکھا جائے گا کہ کس کی غفلت کے باعث حالات اتنے خراب ہوئے۔

 تاہم سیکریٹری داخلہ پنجاب بھی اراکین کمیٹی کے سوالات کے جواب دینے میں ناکام رہے، جس پر شازیہ عطا مری نے انہیں ہدایت کی کہ وہ پوری معلومات کے ساتھ کیٹی کے آئندہ اجلاس میں آئیں۔

 انہوں نے کہا: ’ہمیں آپ کی جانب سے تسلی بخش جوبات نہیں ملے، برائے مہربانی اپنا ہوم ورک کریں اور آئندہ اجلاس میں ہمیں تفصیلات سے آگاہ کریں۔‘  نور مقدم قتل کیس  اسلام آباد میں قتل ہونے والی سابق سفیر کی بیٹی نور مقدم کے کیس پر بحث شروع ہوتے ہی وفاقی وزیر شیریں مزاری نے اطلاع دی کہ مرکزی ملزم کے والدین کے نام ای سی ایل میں شامل کر دئیے گئے ہیں اور اب وہ پاکستان سے باہر نہیں جا سکیں گے۔

 اجلاس میں موجود اسلام آباد پولیس کے افسران نے بتایا کہ نور مقدم قتل کیس میں فنگر پرنٹس اور آڈیو ویژوول کی رپورٹس موصول ہو چکی ہیں، تاہم ابھی سائنس لیب سے تین مزید رپورٹس آنا باقی ہیں۔

 اجلاس میں نور مقدم قتل کیس سے متعلق تفصیلات کو خفیہ رکھنے کی غرض سے اس پر مزید بحث نہیں کی گئی۔

 فرحت اللہ بابر اور افراسیاب خٹک کو دھمکیاں

 اجلاس میں افراسیاب خٹک اور پیپلز پارٹی کے فرحت اللہ بابر کو موصول ہونے والی دھمکیوں پر بھی بحث ہوئی، جس کے دوران فرحت اللہ بابر نے کمیٹی کو بتایا کہ تحریک طالبان پاکستان کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان نے کل ایک لسٹ کا ذکر کیا، جس میں دوسروں کے علاوہ ان دونوں کے نام بھی شامل ہیں۔

 اس موقع پر وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے کہا کہ حکومت جبری گمشدگی سے متعلق قانون لا رہی ہے، جس پر ماضی کی سویلین حکومتوں نے آنکھیں بند رکھیں۔

ایم این اے محسن داوڑ نے اس موقع پر احسان اللہ احسان کے اس انٹرویو کا حوالہ دیا جس میں انہوں نے لسٹ کا ذکر کیا تھا۔