نیپال:ہنگامے کے باوجود پارلیمنٹ میں امریکی پروجیکٹس کی منظوری

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 28-02-2022
نیپال:ہنگامے کے باوجود  پارلیمنٹ میں امریکی پروجیکٹس کی منظوری
نیپال:ہنگامے کے باوجود پارلیمنٹ میں امریکی پروجیکٹس کی منظوری

 


کاٹھمنڈو: نیپال میں چین کا دباو اور زور ٹوٹ رہا ہے،نیپال نے اب چین کو نظر انداز کرنا شروع کردیا ہے۔اس کا پہلا ثبوت پیر کو ملا جب تمام تر مخالفت اور ہنگامہ آرائی کے باوجود نیپال کے پارلیمنٹ نے سڑکوں اور بجلی کے ان متنازعہ پروجیکٹوں کو منظوری دے دی ہے جو امریکا کی مدد سے تیار ہونے ہیں۔ تاہم اس کے مخالفین کا کہنا ہے کہ امریکی اقدام سے نیپال کی خود مختاری کو نقصان پہنچے گا۔اس کو چین کی ایک بڑی ذلت اور ناکامی مانا جارہا ہے۔جس نے اس کو رکوانے کے لیے زبردست سیاسی کھیل کور سازشیں رچی تھیں۔

اس بڑے فیصلے نے چین کو بے بس کردیا ہے ،جس کے حامی سڑکوں پر ہنگامہ آرائی کرنے میں مصروف ہیں جنہیں پولیس سختی کے ساتھ نپٹ رہی ہے۔ پیر کونیپال میں ارکان پارلیمنٹ نے سڑکوں اور بجلی کے ان متنازعہ منصوبوں کو منظور کر لیا ہے جو امریکا کے تقریباً پچاس کروڑ ڈالر کی امداد سے تعمیر کیا جانا ہے۔ لیکن اس مجوزہ منصوبے کے مخالفین کا کہنا ہے کہ ان امریکی اقدام سے نیپال کی خود مختاری کے متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔

پارلیمنٹ کے اسپیکر اگنی سپکوٹا کا کہنا ہے کہ مختصر بحث کے بعد حکومت بیشتر قانون سازوں کو اس تجویز کی منظوری کے لیے قائل کرنے میں کامیاب رہی۔ تاہم جب اس پر اجلاس جاری تھا، تو اس وقت اس اقدام کے خلاف پارلیمنٹ کی عمارت کے باہر مظاہرین کا احتجاج بھی جاری تھا جس میں پولیس کے ساتھ جھڑپیں بھی ہوئیں۔

- بجلی اور سڑک کے منصوبوں پر اب عمل ہو سکتا ہے

سن 2017 میں ایک امریکی امدادی ایجنسی 'ملینیم چیلنج کارپوریشن' (ایم سی سی) نے بجلی فراہمی کی ایک نئی لائن اور سڑک کو بہتر بنانے کے ایک منصوبے کے لیے فنڈز فراہم کرنے پر اتفاق کیا تھا۔ 

نیپالی حکومت، جس نے اصل میں اس گرانٹ کا مطالبہ کیا تھا، کا کہنا ہے کہ یہ امداد ملک کی سماجی و اقتصادی ترقی کے لیے اہم ہے اور اس سے نیپال کی تین کروڑ کی آبادی میں سے سوا دو کروڑ سے زیادہ کو فائدہ پہنچے گا۔

امریکا کا کہنا ہے کہ اس امداد کو واپس کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور اس کے ساتھ کسی طرح کی کوئی شرائط بھی منسلک نہیں ہیں۔

چین سے وابستہ سیاسی جماعتیں اس کی مخالف

 اس امریکی امدادی پیکج کی مخالفت بنیادی طور پر کمیونسٹ پارٹیوں کی جانب سے ہوئی، جن میں سے دو جماعتیں اتحادی حکومت کا بھی حصہ ہیں۔ ان جماعتوں کے بیجنگ سے بھی گہرے روابط ہیں۔ امریکا کا کہنا ہے کہ اس منصوبے کے خلاف مہم چلانے کے پیچھے بیجنگ کا ہاتھ ہے۔

منصوبوں کے مخالفین کا کہنا ہے کہ ان کے خیال سے یہ امداد نیپال کے قوانین اور اس کی خود مختاری کو نقصان پہنچا سکتی، کیونکہ ان منصوبوں پر ملک کا خود کا مکمل کنٹرول نہیں ہو گا۔ان کا کہنا ہے کہ یہ واشنگٹن کی انڈو پیسیفک حکمت عملی کا ہی ایک حصہ ہے، جس میں ایسے عسکری اجزا بھی شامل ہیں جو امریکی فوجیوں کو نیپال میں لا سکتے ہیں۔ حزب اختلاف نیپال کمیونسٹ پارٹی کے ایک رکن بھیم راول نے پارلیمنٹ میں اس موضوع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ، ''معاہدہ نیپال کو امریکا کی حفاظتی چھتری کے نیچے لے آئے گا اس لیے اسے مسترد کر دیا جانا چاہیے۔''

مظاہرین کے خلاف پولیس کی سخت کارروائی

 نیپال کے وزیر خزانہ جناردن شرما نے پارلیمان کو یقین دلایا تھا کہ یہ امداد ملک کے آئین اور قوانین کو مجروح نہیں کرے گی۔ لوک تانترک سماج وادی پارٹی کے نائب سربراہ مہنت ٹھاکر نے بحث کے دوران کہا، '' یہ ملک کے مفاد اور اس کی بہبود کو فروغ دے گا اور اسے تسلیم کیا جانا چاہیے۔'

 اس امریکی امداد کے خلاف کئی دنوں سے ملک گیر مظاہرے جاری ہیں، جس میں پولیس کے ساتھ پرتشدد جھڑپیں بھی ہوئی ہیں۔ اتوار کو، مظاہرین نے نعرے بازی کی اور پولیس پر پتھراؤ بھی کیا۔ انہوں نے ان خاردار تاروں اور دھاتی رکاوٹوں کو راستے ہٹا دیا جو پارلیمنٹ کی طرف جانے والی سڑکوں کو بلاک کرنے کے لیے رکھی ہوئی تھیں۔ پولیس نے اس کے جواب میں آنسو گیس اور تیز دھار پانی کا استعمال کیا اور مظاہرین پر لاٹھیاں برسائیں۔