مقبوضہ کشمیر- بدامنی شدت اختیار کر گئی، جھڑپوں اور پرتشدد واقعات میں متعدد شہری ہلاک

Story by  اے این آئی | Posted by  [email protected] | Date 02-10-2025
مقبوضہ کشمیر- بدامنی شدت اختیار کر گئی، جھڑپوں اور پرتشدد واقعات میں متعدد شہری ہلاک
مقبوضہ کشمیر- بدامنی شدت اختیار کر گئی، جھڑپوں اور پرتشدد واقعات میں متعدد شہری ہلاک

 



:مظفرآباد (اے این آئی): پاکستان کے زیر قبضہ جموں و کشمیر (پی او جے کے) میں منگل کے روز صورتِ حال اس وقت کشیدہ ہوگئی جب مقامی ذرائع اور خطے سے سوشل میڈیا پوسٹس کے مطابق عوامی مظاہروں اور سکیورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپوں میں متعدد شہریوں کی ہلاکت کی خبریں سامنے آئیں۔

پی او جے کے کے دارالحکومت مظفرآباد میں جموں و کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی (جے کے جے اے اے سی) کی قیادت میں بڑے پیمانے پر مظاہرے جاری ہیں۔ ذرائع کے مطابق گزشتہ تین دنوں میں ان احتجاجات کے نتیجے میں آدھے درجن سے زائد ہلاکتیں اور کئی شدید زخمی سامنے آئے ہیں۔

مظاہرے عوامی حمایت حاصل کرتے ہوئے جے کے جے اے اے سی کی 38 نکاتی چارٹر آف ڈیمانڈ پر مرکوز ہیں۔ ان مطالبات میں پی او جے کے اسمبلی میں مخصوص نشستوں کا خاتمہ شامل ہے، جن میں سے 12 نشستیں پاکستان میں آباد کشمیری مہاجرین کے لیے مختص تھیں، جو اب ختم کر دی گئی ہیں۔

احتجاجی مظاہرین اقتصادی ریلیف کا بھی مطالبہ کر رہے ہیں، جن میں بجلی کے نرخ کم کرنا، گندم کا آٹا سبسڈی پر فراہم کرنا اور سرکاری افسران کی مراعات ختم کرنا شامل ہے۔ اس کے علاوہ وہ عوام کے لیے مفت تعلیم اور صحت کی سہولتیں بھی چاہتے ہیں۔

جیسے جیسے بحران شدت اختیار کرتا گیا، پی او جے کے کے شہریوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم "ایکس" پر اپنی آواز بلند کی۔ایک صارف ندیم نے لکھا: "مظفرآباد: فورسز کی فائرنگ کے نتیجے میں تین نوجوان شہید ہوگئے ہیں۔"

ذوبیہ مغل نے اطلاع دی کہ "بریکنگ نیوز: مظفرآباد میں ایک اور نوجوان شہید ہوگیا۔ دھیرکوٹ کے علاقے چمیاتی میں عوام براہ راست فائرنگ اور شیلنگ کا نشانہ بن رہے ہیں۔ دادو کی صورت حال بھی نہایت سنگین ہے۔ احتجاجیوں پر شیلنگ تیز ہوگئی ہے۔احتجاج کے سیاسی پہلو پر روشنی ڈالتے ہوئے "احتساب ٹی وی" نے اطلاع دی کہ جے کے جے اے اے سی نے حکومت کے مذاکراتی پیشکش کا خیرمقدم کیا ہے مگر اس پر مشروط رضامندی ظاہر کی ہے۔

مرکزی رہنما عمر نذیر کشمیری نے ایک پیغام میں کہا: "گزشتہ رات دو افراد بجلی کاٹنے کے بعد ہمارے علاقے میں داخل ہوئے۔ عوام نے جب انہیں پکڑا تو وہ خود کو مزدور ظاہر کر رہے تھے۔ تاہم تفتیش پر معلوم ہوا کہ وہ انٹیلی جنس کے اہلکار ہیں۔ ان کی پوری واٹس ایپ چیٹ ہم نے ویڈیو میں ریکارڈ کر لی ہے اور انہیں ایک دکان میں بند کر دیا ہے۔ بعد میں رہا کریں گے۔ ہم سب اداروں سے کہنا چاہتے ہیں کہ ہمارا کسی سے کوئی تصادم نہیں۔ ہم اپنے حقوق کے لیے پرامن اسمبلی کے ذریعے آواز بلند کر رہے ہیں۔ اب ہم اپنے بنیادی حقوق پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔"

جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نے ایک بیان میں کہا: "لاک ڈاؤن کے بارے میں جھوٹی پروپیگنڈا کی جا رہی ہے۔ عوام ایسی افواہوں پر کان نہ دھریں۔ لاک ڈاؤن اس وقت تک جاری رہے گا جب تک مطالبات تسلیم نہیں کیے جاتے۔"

سہیب خان نے مظفرآباد سے لکھا: "ایک اور نوجوان کی شہادت کی خبر موصول ہوئی ہے۔ کشمیری اپنے بنیادی حقوق کے لیے پُرامن احتجاج کا حق استعمال کر رہے ہیں مگر بدلے میں انہیں گولیاں اور لاشیں دی جا رہی ہیں۔ حکمرانوں کو اس کی قیمت چکانی پڑے گی۔"انہوں نے آزاد پتن سے ویڈیوز بھی شیئر کیں، جہاں ہزاروں کشمیری اپنے حقوق کے لیے سڑکوں پر موجود تھے۔

شفیق احمد ایڈووکیٹ نے اطلاع دی کہ پولیس اور مظاہرین میں جھڑپیں ہوئیں، اسلام آباد پولیس کو عوام نے لاٹھیوں سے مار بھگا دیا جبکہ کچھ ایجنسی اہلکاروں کو بھی پکڑ کر سبق سکھایا گیا جو ہنگامہ آرائی کے لیے بھیجے گئے تھے۔انہوں نے کہا کہ کشمیری جاگ اٹھے ہیں۔ یہ جدوجہد اسی طرح ہوتی ہے اور حقوق اسی طرح لیے جاتے ہیں، ورنہ خاموش رہنے سے ہمیشہ غلامی نصیب ہوتی ہے۔ مزاحمت زندہ باد۔"

پختون خان نے کہا: "کسی نے توقع نہیں کی تھی کہ اتنی بڑی بغاوت ہوگی، خاص طور پر اس وقت جب یہ چھوٹا سا خطہ بجلی کے بلوں میں کئی رعایتیں لے رہا ہے۔ لیکن اسٹیبلشمنٹ ابھی تک سرد جنگ کی ذہنیت سے نہیں نکل سکی اور نئی دنیا کو تسلیم کرنے سے انکاری ہے۔فیصل سلیم نے "ایکس" پر لکھا: "نیلم کا قافلہ تمام رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے تیزی سے مظفرآباد کی طرف بڑھ رہا ہے۔" انہوں نے ایک اور پوسٹ میں کہا: "میرپور ڈویژن سے لانگ مارچ شروع ہوگیا ہے۔ منزل: مظفرآباد۔"

اسی دوران سیاسی رہنماؤں کی گرفتاریوں کی خبریں بھی سامنے آئیں۔ اظہر احمد نے اطلاع دی کہ جے کے جے اے اے سی کے کور کمیٹی رکن راجہ امجد علی خان ایڈووکیٹ کو اسلام آباد ایئرپورٹ پر بدھ کی صبح حراست میں لے لیا گیا۔ ان کا پاسپورٹ ضبط کرلیا گیا اور کہا گیا کہ ان کے خلاف اداروں کے پاس رپورٹس موجود ہیں۔ ان کے اہل خانہ کے مطابق دوپہر تک وہ کسی پولیس اسٹیشن منتقل نہیں کیے گئے اور ان کا کوئی پتا نہیں چل رہا۔