پاکستان میں شیعوں کے لئے زمین تنگ،آسماں دور

Story by  غوث سیوانی | Posted by  [email protected] | Date 02-07-2021
تعصب کے شکارپاکستانی شیعہ
تعصب کے شکارپاکستانی شیعہ

 

 

غوث سیوانی،نئی دہلی

مسلمان کے نام پربننے والے پاکستان میں صرف اقلیتی ہندووں کوہی مظالم کا شکارنہیں بنناپڑتاہے بلکہ کلمہ گو شیعہ برادری کے لئے آسماں دور،زمیں تنگ ہے۔ شیعوں کو اکثر دہشت گردانہ حملوں کا نشانہ بنناپڑتاہے۔ علاوہ ازیں عام مسلمان بھی ،ان کے ساتھ متعصبانہ برتائو کرتے ہیں۔وہ خودکو توہین رسالت کے الزامات میں گھرا ہوا پاتے ہیں۔حالانکہ ایک مسلمان کی حیثیت سے وہ بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ویساہی احترام کرتے ہیں،جیسے سنی مسلمان کرتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق شیعہ مسلمان پاکستان کی آبادی کا 20 فیصد ہیں۔ظاہرہے کہ یہ تناسب کم نہیں ہے مگر پھربھی ان پرحملے عام ہیں۔ خاصٓ طور پرہزارہ شیعہ مسلمانوں پرحملے ہوتے رہے ہیں۔ علاوہ ازیں ایران جانے والی بسوں پربھی کئی بارحملے ہوئے ہیں۔ ان بسوں میں بیشترشیعہ ہوتے ہیں۔ محرم کے جلوسوں پربھی حملے ہوچکے ہیں۔

رواں سال اور سالہائے گذشتہ میں ایسے بہت سے واقعات ہوئے ہیں جن میں کالعدم دہشت گرد تنظیموں سے تعلق رکھنے والے افراد نے شیعہ مسلک کے لوگوں کے خلاف کھل کر دہشت گردانہ مظاہرے کئے ہیں۔ ایسے مظاہرے زیادہ تر کراچی ، کوئٹہ اور پنجاب کے کچھ علاقوں میں دیکھنے کو ملے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کے ایک اندازے کے مطابق ، 2001سے اب تک پاکستان میں مختلف حملوں اور ٹارگٹ کلنگ میں 2،600 شیعہ مارے جا چکے ہیں۔

انسانی حقوق کی تنظیموں کا یہ بھی کہنا ہے کہ حملوں کی ایک بڑی وجہ معاشرے کے ایک حصے میں اس برادری کے خلاف نفرت انگیز مواد اور دقیانوسی رجحانات ہیں۔ ہیومن رائٹس واچ کے مطابق ، نفرت انگیز مواد ان حملوں کا جواز پیش کرتا ہے جو کالعدم تنظیموں یا دہشت گرد تنظیموں کے ذریعہ مساجد اور اس برادری کے لوگوں پر کئے جاتے ہیں۔ حال ہی میں بی بی سی نے اس سلسلے میں ایک رپورٹ شائع کی ہے جس سے اندازہ ہوتاہے کہ پاکستانی شیعہ کن حالات میں جینے پر مجبور ہیں۔اس رپورٹ میں شیعوں کے خلاف تعصب کی کئی مثالیں پیش کی گئی ہیں۔

ہیرا زینب کا بچپن کراچی، لاہور اور گوجرانوالہ میں گزرا۔ انھوں نے بتایا کہ جب وہ دوسری جماعت میں تھیں تو ان سے اپنے عقیدے سے متعلق سوالات ہونے لگے۔ وہ یاد کرتی ہیں ، "بچپن میں میرے ایک دوست نے مجھ سے پوچھا کہ کیا تم لوگ گھوڑوں کی پوجا کرتے ہو؟ اس وقت میرے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ لیکن پہلی بار مجھے یہ احساس ہوا کہ میں شاید باقی سے مختلف ہوں۔

بینش عباس زیدی

بنیش عباس زیدی ایک صحافی ہیں اور کراچی میں رہتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں ، میں بچپن میں اس فرق سے آگاہ نہیں تھی۔ 1990 کی دہائی میں ، سنی لوگ ہمارے پڑوس کے گھر میں رہتے تھے۔ وہ بھی اس وجہ سے معلوم ہوا جب انہوں نے نذرو نیاز نہیں کھایا لیکن جب میری والدہ بہت بیمار ہوئیں تو سب سے پہلے اسی گھر سے کھانا آیا اور مدد دی گئی۔ بینش کا کہنا ہے کہ ، "بڑے ہونے کے بعد ، میں نے اپنی مرضی سے اور بغیرمسلک پوچھے شادی کرلی۔ مجھے اپنے کنبہ کے افراد کو سمجھانے کی ضرورت بھی نہیں تھی لیکن اب میرے کنبہ کے افراد مجھ سے بات نہیں کرتے ہیں کیونکہ میں نےسنی لڑکے سے شادی کی ہے۔حالانکہ میرے شوہرکے گھروالوں نے میرابہت خیال رکھا۔

کوئٹہ کی رہائشی 18 سالہ مرزیہ صالحی نے بتایا کہ 2011 کے حملوں کے بعد ان کے دوستوں نے ان سے ملنا چھوڑ دیا۔وہ کہتی ہیں مجھے کہا گیا تھا کہ تم ہمارے ساتھ نہ بیٹھو کیونکہ ہم بھی آپ کی وجہ سے نشانہ بنیں گے۔

مصنفہ عروج علی

لاہورکی مصنفہ عروج علی نے بتایا کہ ہم نے اپنے بڑوں سے سنا تھا کہ پہلے کے زمانے میں صورتحال بہت اچھی تھی۔ لوگ موچی دروازہ اور لاہور کے دیگر مقامات پر عاشورہ اور محرم کے لئے اکٹھے تیاری کرتے تھے۔

پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز کے ڈائریکٹر ، محمد عامر رانا نے کہا کہ اگرچہ ماضی میں پاکستان میں معاشرتی ہم آہنگی رہی ہے ، لیکن کچھ بڑے واقعات بھی ہوئے ہیں جن کا سبب فرقہ واریت اور نفرت انگیز تقاریر ہیں۔

صحافی اور محقق خالد احمد نے 2007 میں امریکہ کے ولسن سنٹر میں ایشیاء اور مشرق وسطی کے ایک پروگرام میں لیکچر کے دوران فرقہ واریت اور اس سے متعلق پاکستان کی صورتحال کو اس طرح بیان کرتے ہوئے کہا تھا:

پاکستان بنیادی طور پر ایک فرقہ وارانہ ملک نہیں ہے۔ شیعہ اور سنی پاکستان میں ایک دوسرے سے نفرت نہیں کرتے اور اب تک ہونے والے تمام فسادات کچھ شہروں ، جیسے کراچی ، کوئٹہ اور پنجاب اور خیبر پختون خواہ کے کچھ حصوں تک محدود ہیں۔

کلثوم بانو

کراچی کی ، بلاگر کلثوم بانو نے کہا ، "بعض اوقات دوستوں کے ساتھ مذاق میں ، میں بھی 'کافر ، کافر ، شیعہ کافر' کہ دیتی ہوں ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ سننااچھا نہیں لگتا۔ کلثوم نے کہا ، "ہم ایک دن میں یا بلاگ لکھ کرپرانےنظریات کوختم نہیں کرسکتے۔