کراچی: عمر شریف کی تدفین

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 06-10-2021
جنازے کا منظر
جنازے کا منظر

 

 

کراچی: پاکستان کے نامور فنکار اور کامیڈین عمر شریف کی عبداللّٰہ شاہ غازی کے مزار کے احاطے میں تدفین کردی گئی۔

عمر شریف کی نمازِ جنازہ مولانا بشیر فاروقی نے پڑھائی، نمازجنازہ میں گورنر سندھ عمران اسماعیل، صوبائی وزیر سعید غنی، ایڈمنسٹریٹر کراچی مرتضیٰ وہاب، مولانا تنویر الحق تھانوی، فیصل ایدھی، چیئرمین پی ایس پی مصطفیٰ کمال، پی ٹی آئی رہنما خرم شیر زمان، پی ایس پی رہنما انیس قائم خانی، ایم کیو ایم بحالی کمیٹی کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار، آرٹس کونسل کے صدر احمد شاہ کے علاوہ سیاسی، سماجی تنظیموں کے رہنماؤں، شوبز سے تعلق رکھنے والی شخصیات اور مداحوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔

عمر شریف کی میت کو نمازِ جنازہ کے لیے ان کی گلشنِ اقبال میں واقع رہائش گاہ سے عمر شریف پارک کلفٹن منتقل کیے جانے کے موقع پر عمر شریف کے مداح، عزیر و اقارب بڑی تعداد میں ان کی رہائش گاہ پر موجود تھے جو میت کے ہمراہ جنازہ گاہ آئے۔

نمازِ جنازہ کے بعد عمر شریف کی میت کو سپردِ خاک کرنے کے لیے صوفی بزرگ حضرت عبداللّٰہ شاہ غازی ؒ کے مزار لایا گیا، میت کی منتقلی کے موقع پر بلاول چورنگی سے ضیاء الدین اسپتال جانے والی سڑک کو ٹریفک کے لیے بند کیا گیا تھا۔ اُدھر اداکارہ شیبا بٹ، گلوکارہ شازیہ کوثر اور دیگر شوبز سے تعلق رکھنے والی شخصیات کراچی میں واقع عمر شریف کی رہائش گاہ پہنچیں، جہاں انہوں نے مرحوم اداکار کے اہلِ خانہ سے اظہارِ تعزیت کیا۔

عمر شریف کی علالت اور انتقال خیال رہے کہ اگست کے اواخر میں عمر شریف کی ایک تصویر وائرل ہونے کے بعد مداحوں میں ان کی صحت سے متعلق تشویش پیدا ہوئی اور لگ بھگ ایک ماہ بعد 2 اکتوبر کی دو پہر کو جرمنی کے شہر نیورمبرگ کے ہسپتال میں دوران علاج زندگی کی بازی ہار گئے تھے۔ عمر شریف کو دل کا عارضہ لاحق تھا، انہیں ذیابطیس سمیت دیگر بیماریاں بھی تھیں اور انہوں نے ڈاکٹروں کے مشورے کے مطابق بیرون ملک علاج اور ویزا کے انتظامات کے لیے وزیراعظم سے مدد کی اپیل کی تھی۔

وہ ایک ماہ تک کراچی کے آغا خان کے ہسپتال میں داخل رہے، انہیں 28 ستمبر کو کراچی سے ایئر ایمبولینس کے ذریعے امریکا منتقل کیا جا رہا تھا کہ ان کی طبیعت جرمنی میں بگڑ گئی، جس کے بعد انہیں وہاں ہسپتال میں داخل کرایا گیا تھا اور 4 روز تک نیورمبرگ میں زیرعلاج رہنے کے کے بعد وہ انتقال کرگئے۔

وہ ایک ماہ تک کراچی کے ہسپتال میں زیر علاج رہے—فائل فوٹو: فیس بک عمر شریف کا جسد خاکی دو دن تک نیورمبرگ کے ہسپتال میں تھا اور 4 اکتوبر کو وہاں کی مقامی انتظامیہ نے ان کا ڈیتھ سرٹیفکیٹ جاری کیا تھا، جس کے بعد ان کی میت کو پاکستانی سفارت خانے کے عملے اور ورثا کے حوالے کیا گیا تھا۔

 عمر شریف کی نماز جنازہ بھی ادا کی گئی تھی جس کے بعد ان کی میت کو ورثا کے حوالے کرنے کے بعد ترکش ایئرلائن سے کراچی لایا گیا۔ عمر شریف نے 1970 کی دہائی سے اپنے کیریئر کی ابتدا کی تھی، ان کا اصل نام محمد عمر تھا، وہ پاکستانی مزاحیہ اداکار منور ظریف سے بہت متاثر تھے اور ان کو اپنا روحانی استاد بھی مانتے تھے لہٰذا انہی کے نقشِ قدم پر چل کر اپنی کامیڈی کے خدوخال تشکیل دیے۔ عمر شریف نے 70کی دہائی سے اپنے کیریئر کی ابتدا کی’

— انہوں نے انتہائی کم عمری میں کیریئر کا آغاز کیا اور محض 14 برس کی عمر میں پہلے ڈرامے میں جلوہ گر ہوئے اور پھر انہوں نے پوری زندگی اسکرین، پردے اور تھیٹر پر گزاری۔

 انہوں نے متعدد لازوال اسٹیج ڈرامے لکھے، جن میں سے 'بکرا قسطوں پہ' بھی تھا، عمر شریف کا مذکورہ تھیٹر وہ ڈراما تھا جس کی وجہ سے انہیں عالمی سطح پر شہرت ملی۔ عمر شریف نے فلمی صنعت کا رُخ بھی کیا اور فلمیں بنانے کے ساتھ ساتھ ان میں کام بھی کیا۔

اس تناظر میں ان کی مقبول فلم 'مسٹر 420' ہے، انہوں نے مسٹر 420 (1992)، مسٹر چارلی (1993) اور مس ٹربل سم (1993) جیسی فلموں کی نہ صرف ہدایت کاری کی بلکہ ان کی کہانی بھی لکھی۔ عمر شریف نے 3 شادیاں کیں، ان کی بیگمات کے نام دیبا عمر، شکیلہ قریشی اور زرین غزل ہیں، صرف پہلی بیگم سے ان کے 2 بیٹے ہیں، انہی سے ایک بیٹی تھی جن کا انتقال ہوچکا ہے۔

ان کے ایک قریبی دوست اور ساتھی اداکار شرافت علی شاہ کے خیال میں 'عمر شریف کی بیماری کے پیچھے اصل وجہ ذہنی دباؤ تھی، انہوں نے پیشہ ورانہ کام کو بھی اپنے اوپر حاوی رکھا اور پھر نجی زندگی کے مسائل نے بھی ان کو اپنی گرفت میں لیے رکھا'۔