کابل:طالبان کے ہاتھوں افغان ریڈیواسٹیشن کے مینیجر کا قتل

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 09-08-2021
مقتول مینیجر
مقتول مینیجر

 

 

کابل: طالبان کی خونریزی میں ہر پل اضافہ ہورہا ہے۔ اب تک کابل سے دور نظر آرہے طالبان نے اب ملک کی راجدھانی پر دھاوا بول دیا ہے۔ تازہ واقعہ میں طالبان نےکابل میں افغان ریڈیو اسٹیشن کے ایک مینیجر کو ہلاک اور جنوبی صوبے ہلمند میں ایک صحافی کو اغوا کر لیا ہے۔

 مسلح افراد نے اتوارکو کابل میں پکتیا غگ ریڈیو کے مینیجر طوفان عمر کو ہدف بنا کر ان پر فائرنگ کی جس میں وہ ہلاک ہو گئے۔وہ انسانی حقوق کے ایک گروپ (این اے آئی) ’نی‘ کے افسر تھے جو افغانستان میں ذرائع ابلاغ کی آزادی کے لیے کام کرتا ہے۔

 سربراہ مجیب خلوت گرکے مطابق: طوفان عمر کو نامعلوم مسلح افراد نے ہلاک کر دیا۔ وہ آزاد خیال شخص تھے۔ ہمیں آزادنہ طور پر کام کرنے کی وجہ سے ہدف بنایا جا رہا ہے۔

 دوسری جانب کابل میں حکام نے شبہ ظاہر کیا کہ طالبان نے ان پر حملہ کیا۔

 گذشتہ ماہ ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ اس سال عسکریت پسند گروپ نے کم از کم 30 صحافیوں اور میڈیا کارکنوں کو ہلاک یا زخمی کیا یا اغوا کر لیا۔

 ادھر جنوبی صوبہ ہلمند میں حکام نے کہا ہے کہ طالبان جنگجوؤں نے اتوار مقامی صحافی نعمت اللہ ہمت کو صوبائی دارالحکومت لشکر گاہ میں واقع ان کے گھر سے اغوا کر لیا ہے۔

 نجی ٹیلی ویژن چینل غرغشت ٹی وی کے سربراہ رضوان میاخیل نے کہا ہے کہ ’قطعی طور پر ایسا کوئی سراغ نہیں ہے کہ طالبان ہمت کو کہاں لے گئے ہیں۔ ہم واقعی خوف کے عالم میں ہیں۔

 مغوی صحافی ہمت اسی چینل میں کام کرتے تھے۔ دوسری جانب طالبان ترجمان نے بتایا ہے کہ ان کے پاس کابل میں صحافی کے قتل یا ہلمند میں اغوا کے بارے میں کوئی معلومات نہیں ہیں۔

افغانستان میں ذرائع ابلاغ کے اداروں کی تنظیم نے نے امریکہ کے صدر جوبائیڈن اور ایوان نمائندگان کے قائدین کو خط لکھ کر ان پر زور دیا ہے کہ افغان صحافیوں اور معاون عملے کو امریکہ کے خصوصی امیگریشن ویزے جاری کیے جائیں۔  یاد رہے کہ طالبان نے گذشتہ ہفتے کے اختتام پر تین شمالی شہروں پر قبضہ کر لیا تھا۔ وہ مزید شہروں پر قبضے کی دھمکی دے رہے ہیں۔

 طالبان نے سرکاری فورسز پر حملوں میں اضافہ کر دیا ہے۔ اس سے پہلے واشنگٹن نے اعلان کیا تھا کہ وہ اس ماہ کے آخر تک افغانستان میں فوجی مشن ختم کر دے گا۔ کابل سے صحافی بلال سروری: افغانستان میں حکومتی فورسز اور طالبان کے درمیان لڑائی شدید مرحلے میں داخل ہو گئی ہے۔ طالبان نے گذشتہ 48 گھنٹوں میں حیران کن طور پر چار صوبائی مراکز پر قبضہ کر کے اس غلط فہمی کو ختم کر دیا کہ وہ امریکی فورسز کے جاری رواں ماہ کے اواخر میں اعلان شدہ انخلا تک صوبائی مراکز اور بڑے شہروں پر قبضہ نہیں کریں گے۔

 طالبان نے سب سے پہلے ایران سے متصل افغانستان کے جنوبی صوبہ نمروز کے مرکزی شہر زرنج پر بغیر کسی خاص مزاحمت کا سامنا کیے قبضہ کر لیا۔

 اطلاعات کے مطابق سو سے زائد افغان فورسز فوجی گاڑیوں میں سرحد پار ایران طالبان کے ہاتھوں گرفتاری سے بچنے کے لیے منتقل ہو گئے۔

 نمروز کے مرکز پر طالبان کے یوں بغیر کسی مزاحمت کے قبضہ نے افغانستان کے اندر اس صوبہ کی قیادت کے متعلق کئی سوالوں اور شکوک و شبہات کو جنم دیا ہے۔

 زرنج پر طالبان کے قبضہ کے بعد ہفتہ کی شب اس صوبہ کے لیے طالبان کے نامزد گورنر اور یہاں پر طالبان کی جنگی قیادت کرنے والے کمانڈر مولوی عبدالخالق عرف مولوی عابد کو بھی امریکی ڈرون نے نشانہ بنا کر اس سے قتل کیا جو یہاں پر طالبان کے لئے ایک اہم نقصان ہے۔ 

نمروز سے بھی زیادہ حیران کن خبر اس وقت سامنے آئی جب طالبان نے شمال میں افغان فیلڈ مارشل جنرل عبدالرشید دوستم کے مرکز صوبہ جوزجان کے مرکز شبرغان پر قبضہ کیا۔ طالبان نے یہاں جنرل دوستم کی رہائش اور مراکز پر قبضہ کر کے وسیع مقدار میں اسلحہ اور دیگر وسائل پر قبضہ کر لیا ہے۔ جنرل دوستم اسی روز ترکی میں ایک طویل عرصہ گزرنے کے بعد کابل وآپس پہنچے تھے جبکہ ان کے فرزند باتور دوستم شبرغان میں طالبان کے خلاف لڑائی کی قیادت کر رہے ہیں۔ مگر طالبان کی پیش قدمی کے بعد وہ بھی اپنے جنگجوں سمیت وہاں سے نکل آئے ہے۔