ایران: بےحجاب کوہ پیما الناز رکابی کا وطن واپسی پر شاندار استقبال

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 19-10-2022
ایران: بےحجاب کوہ پیما الناز رکابی کا  وطن واپسی پر شاندار استقبال
ایران: بےحجاب کوہ پیما الناز رکابی کا وطن واپسی پر شاندار استقبال

 

 

تہران : حجاب کے بغیر ایک بین الاقوامی ٹورنامنٹ میں حصہ لینے والی ایرانی کوہ پیما الناز رکابی کا وطن واپسی پر تہران میں پرجوش استقبال کیا گیا۔ عوام بڑی تعداد میں خمینی ایئر پورٹ پر الناز رکابی کا استقبال کرنے کے لیے موجود تھے۔ نعرے لگاتے ہوئے انہوں نے 33 سالہ کوہ پیما کو حجاب نہ پہننے کے عمل پر ہیرو قرار دیا۔

تہران ایئرپورٹ پر اترنے کے بعد ریکابی نے ایران کے سخت گیر سرکاری ٹیلی ویژن کو ایک محتاط اور غیرجذباتی انٹرویو دیتے ہوئے بتایا کہ حجاب کے بغیر جانا ان کی طرف سے ایک ’غیر ارادی‘ فعل تھا۔

تاہم اس دوران سینکڑوں افراد امام خمینی انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے باہر جمع ہوئے، جن میں خواتین بھی شامل تھیں جنہوں نے حجاب نہیں پہنا ہوا تھا۔ استقبال کرنے والے ’الناز چیمپیئن‘ کے نعرے لگاتے ہوئے خوشی کا اظہار کر رہے تھے۔ یہ مظاہرین الناز ریکابی کے حجاب نہ پہننے کو حکومت مخالف تحریک سے اظہار یکجہتی کے طور پر دیکھ رہے تھے۔

قبل ازیں خدشات ظاہر کیے جا رہے تھے کہ ایران پہنچنے پر انہیں گرفتار کیا جا سکتا ہے۔ کئی میڈلز جیتنے والی الناز ریکابی کی جانب سے مقابلے کے موقع پر حجاب نہ پہننے کا اقدام مہسا امینی کے قتل کے بعد سامنے آیا جن کی موت کے بعد ایران میں زبردستی حجاب پہنانے کا مسئلہ پوری دنیا میں زیربحث ہے

سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی ویڈیوز میں الناز کے سینکڑوں حامیوں کو ٹرمینل کے باہر تالیاں بجاتے اور ’الناز ایک ہیرو ہیں‘ کے نعرے لگاتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔

الناز کا ان کے اہل خانہ نے خیرمقدم کیا اور اس دوران لوگوں نے انہیں پھولوں کے گلدستے پیش کیے۔ رواں ہفتے کے آغاز پر الناز نے جنوبی کوریا میں ہونے والی ایشین چیمپیئن شپ میں اسکارف کے بغیر حصہ لیا تھا۔

ایران میں نافذ سخت قانون کے تحت خواتین سر ڈھانپنے کی پابند ہیں چاہے وہ بیرون ملک مقابلوں میں حصہ ہی کیوں نہ لے رہی ہوں۔

لیکن الناز کی جانب سے حجاب پہننے کا انتخاب اس وقت سامنے آیا جب ایران 22 سالہ مہسا امینی کی پولیس حراست میں موت کے بعد شروع ہونے والے مظاہروں کی لپیٹ میں ہے جہاں احتجاج پانچویں ہفتے میں داخل ہو گیا ہے۔

مہسا امینی کو ملک کی اخلاقی پولیس نے سکارف درست طریقے سے نہ پہننے پر حراست میں لیا تھا جن کی پراسرار موت کے بعد کئی خواتین کو احتجاج میں اپنے حجاب اتارتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔

یہ مظاہرے سو سے زیادہ شہروں میں حکومت مخالف احتجاج میں بدل چکے ہیں اور یہ برسوں میں ایران کی نظریاتی حکومت کے لیے سب سے سنگین چیلنج بن چکا ہے۔ الناز کے حجاب کے بغیر مقابلے میں حصہ لینے کے اقدام کو ان کی جانب سے ملک میں جاری احتجاج کی حمایت کے طور پر دیکھا گیا۔

تاہم انہوں نے کہا کہ یہ جان بوجھ کر کیا گیا اقدام نہیں تھا بلکہ اس کی وجہ ’ناقص شیڈولنگ‘ تھی۔ اپنے انسٹاگرام اکاؤنٹ پر پوسٹ کیے گئے ایک بیان میں الناز نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ مقابلے کے دوران ہیڈ سکارف نہ پہننا غیر ارادی تھا۔

انہوں نے منگل کو اپنے انسٹاگرام پر پوسٹ کیے گئے ایک بیان میں لکھا: ’میں سب سے پہلے ان تمام خدشات کے لیے معذرت خواہ ہوں جو میری وجہ سے پیدا ہوئے ہیں۔

انہوں نے ایران کے سرکاری میڈیا کے ساتھ ایک انٹرویو میں بھی یہ بات دہرائی۔ ان کے حوالے سے سرکاری میڈیا پر کہا گیاکہ  ’میں اپنے جوتے پہننے اور اپنے کوہ پیمائی کے سامان کو ٹھیک کرنے میں مصروف تھی اور اس دوران اپنا حجاب پہننا بھول گئی جو مجھے پہننا چاہیے تھاکہ تاہم ان حالات کے بارے میں خدشات موجود ہیں جن کے تحت الناز نے ممکنہ طور پر یہ معافی نامہ جاری کیا ہے۔

کچھ رپورٹس کے مطابق ان پر جنوبی کوریا میں ایرانی حکام نے دباؤ ڈالا تھا اور وہ انہیں اپنے ساتھ سفارت خانے لے گئے تھے۔ اسی دوران ایرانی سفارت خانے نے الناز کی ایک حجاب میں تصویر ٹویٹ کی جس میں کہا گیا کہ وہ وطن کے لیے روانہ ہو چکی ہیں

سفارت خانے نے ان کے لاپتہ ہونے کی خبروں کو بھی ’جھوٹی خبریں اور غلط معلومات‘ قرار دے کر مسترد کر دیا۔ الناز نے ایران واپسی پر حجاب کے بجائے بیس بال کی ٹوپی سے اپنا سر ڈھانپ رکھا تھا۔ ہوائی اڈے کے باہر صحافیوں سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان کی (حجاب کے بغیر) ویڈیو پر ’شدید ردعمل‘ آیا ہے۔

ان کے بقول میں ذہنی سکون کے ساتھ ایران واپس لوٹی ہوں حالانکہ مجھے بہت زیادہ تناؤ اور پریشانی کا سامنا تھا۔ لیکن ابھی تک خدا کا شکر ہے کچھ غلط نہیں ہوا ہے۔‘ انہوں نے مزید کہا: ’ہم شیڈول کے مطابق ایران واپس آئے ہیں۔‘ ہوائی اڈے سے باہر نکلنے کے بعد وہ بظاہر ایک وین میں ان کے استقبال کے لیے موجود ہجوم کے درمیان سے گزرتے ہوئے وہاں سے روانہ ہو گئیں۔ یہ واضح نہیں ہے کہ اس کے بعد وہ کہاں گئیں