بلوچستان میں ’حق دو تحریک‘ نے پھر پکڑا زور

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 19-03-2022
بلوچستان میں ’حق دو تحریک‘ نے پھر پکڑا زور
بلوچستان میں ’حق دو تحریک‘ نے پھر پکڑا زور

 


گوادر ،بلوچستان(پاکستان)

پاکستان کے بلوچستان میں ایک بار پھر عوامی بغاوت بھڑک رہی ہے۔ حکومت کے جھوٹے وعدوں اور دھوکہ بازی کے خلاف  حق دو تحریک نے ایک بار پھر زور پکڑ لیا ہے۔ بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر میں اپنے مطالبات کی حق میں “بلوچستان حق دو تحریک” کا دھرنا آج تیسرے روز گوادر پورٹ کے سامنے جاری ہے۔ دھرنے کے باعث گذشتہ تین روز سے پورٹ میں کام معطل جبکہ آمد و رفت متاثر ہونے کی وجہ سے پورٹ انتظامیہ اور سیکورٹی اداروں کو مشکلات کا سامنا ہے ۔

ہفتے کے روز مقامی مردوں کے ہمراہ خواتین کی بڑی تعداد جی ٹی کے سامنے جمع تھی کہ وہاں تعینات میرین سیکورٹی کے اہلکاروں نے انہیں منتشر کرنے کی کوشش کی ۔ دھرنے میں شریک خواتین کے مطابق سیکورٹی فورسز نے انہیں تشدد کا نشانہ بنایا اور گالم گلوچ کی۔ بعد ازاں حق دو تحریک کے سربراہ مولانا ہدایت الرحمٰن بلوچ وہاں پہنچ گئے اور شہر سے مزید لوگوں نے دھرنا مقام کا رخ کیا – اس موقع پر میرین سیکورٹی فورسز کے افسران نے انہیں اس مقام سے دھرنا ختم کرنا کا کہا، تاہم حق دو تحریک کے رہنماؤں نے کہا کہ دھرنا یہاں جاری رہے گا اور سیکورٹی ادارے اپنے رویہ میں تبدیلی لائیں، باہر سے آئے ہوئے لوگ ہمارے خواتین کو گالیاں دیں یہ برداشت نہیں کریں گے ۔

دھرنا منتظمین نے کہا کہ ہماری کوئی نئی مطالبات نہیں ہیں۔ پچھلے سال دھرنے میں حکومت نے جو مطالبات تسلیم کیے تھے ان پر عملدرآمد کیا جائے – گوادر سے تعلق رکھنے والے ایک مقامی صحافی نے دی بلوچستان پوسٹ نیوز ڈیسک کو بتایا کہ اس مرتبہ گوادر پورٹ پر دھرنے سے اداروں کو پریشانی کا سامنا ہے۔

اگر دھرنا طویل رہا تو طاقت کا استعمال بھی ہوسکتا ہے۔ یاد رہے کہ پچھلے سال حق دو تحریک میں شامل مظاہرین نے حکومت کو انیس مطالبات پیش کئے۔ ان مطالبات میں بلوچستان کی بلوچ آبادی پر مشتمل مکران ڈویژن میں غیر ضروری سکیورٹی چیک پوسٹوں کا خاتمہ، گوادر کی سمندری حدود میں غیر ملکی ٹرالرز کے داخلے اور شکار پر پابندی، ایران سے اشیائے خورونوش کی درآمد کی اجازت، شراب خانوں کے لئے جاری کیے گئے لائسنسوں کی منسوخی، لاپتہ بلوچ سیاسی کارکنوں کی بازیابی کے اور غیر ضروری چیک پوسٹوں کا خاتمہ سمیت دیگر مطالبات میں شامل تھے۔

 گوادر بندرگاہ کو جانے والے راستے کو جمعے (18 مارچ) سے بند کر رکھا ہے جس کی وجہ سے آمد و رفت معطل ہے۔ دھرنے کی سربراہی ایک بار پھر مولانا ہدایت الرحمٰن کر رہے ہیں، جس کے شرکا کا کہنا ہے کہ حکومت سے معاہدے کے باوجود ساحل پر ٹرالروں کی آمد دوبارہ شروع ہوگئی ہے، تاہم صوبائی حکومت کا کہنا ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ یاد رہے کہ حق دو تحریک نے گذشتہ سال ایک ماہ تک گوادر میں دھرنا دیا تھا، جو 16 دسمبر کو وزیراعلیٰ بلوچستان قدوس بزنجو کے ساتھ ہونے والے معاہدے کے بعد ختم ہوا تھا۔

تحریک کے ترجمان حفیظ اللہ نے کہا کہ بلوچستان حکومت کے ساتھ معاہدے میں طے پانے والے مطالبات پر 100 فیصد عمل درآمد نہیں ہوا۔

مولانا ہدایت الرحمٰن نے حکومت کو ایک پریس کانفرنس میں بھی یاد دہانی کروائی لیکن اس سے بھی کچھ حاصل نہیں ہوا۔ ان کا کہنا تھا کہ گذشتہ سال کے دھرنے اور حکومت سے مذاکرات میں بھی ٹرالرز کا مسئلہ سرفہرست تھا۔ اب بھی ہمارے مطالبات وہی ہیں جو پرانے تھے اور کچھ نئے مطالبات بھی شامل کیے گئے ہیں۔‘ ان کا کہنا تھا کہ جب دھرنا جاری تھا تو ٹرالر ساحل سے دور رہے اور ماہی گیروں کا فائدہ ہوا، لیکن اب پھر دوبارہ وہی صورت حال پیدا ہوگئی ہے۔

حق دو تحریک کے مطالبات کیا ہیں؟

حکومت اور دھرنے کے منتظمین کے درمیان طے پانے والے معاہدے میں ٹرالر مافیا کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ ’اسسٹنٹ ڈائریکٹر فشریز کا تبادلہ ہوچکا ہے۔ (پسنی اورماڑہ/ لسبیلہ) میں آئندہ اگر کوئی ٹرالر اسسٹنٹ ڈائریکٹر کی حدود میں پایا گیا تو ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔‘ معاہدے کے مطابق مانیٹرنگ اور ٹرالنگ کی روک تھام کے لیے جوائنٹ پیٹرولنگ کی جائے گی، جس میں انتظامیہ اور ماہی گیر شامل ہوں گے اور ماہی گیر نمائندگان کو فشریز کے آفس میں باقاعدہ ڈیسک دیا جائےگا۔

معاہدے میں لکھا گیا تھا کہ ماہی گیری کے لیے 12 ناٹیکل میل کو 30 ناٹیکل میل میں تبدیل کرنے کی تجویز متعلقہ فورم کو بھیجی جائے گی۔ ماہی گیروں کو سمندر میں جانے کی آزادی ہوگی اور وی آئی پی موومنٹ کے دوران بلا ضرورت عوام الناس کی نقل و حرکت کو محدود نہیں کیا جائے گا۔