دوحہ : قطر ایئر ویز اور امریکی طیارہ ساز کمپنی بوئنگ کے درمیان 160 جدید مسافر طیاروں کی خریداری کا ایک بڑا معاہدہ طے پایا، جسے امریکی ہوا بازی کے شعبے کے لیے غیر معمولی پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے۔
اس معاہدے میں 130 بوئنگ 787 ڈریم لائنر اور 30 بوئنگ 777-9 جیٹ شامل ہیں، جبکہ مزید 50 طیارے خریدنے کا آپشن بھی رکھا گیا ہے۔ یہ بوئنگ کے لیے نہ صرف ایک ریکارڈ ساز آرڈر ہے بلکہ 787 سیریز کا بھی سب سے بڑا سودا مانا جا رہا ہے۔
بوئنگ کے لیے امید کی نئی کرن
اس معاہدے کو بوئنگ کے نئے چیف ایگزیکٹو کیلی آرٹبرگ کی حکمت عملی کی کامیابی تصور کیا جا رہا ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب کمپنی حفاظتی خدشات اور پیداواری مشکلات کے باعث دباؤ کا شکار رہی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پیداوار میں موجودہ سست روی کے باعث ان طیاروں کی ڈیلیوری میں تقریباً پانچ سال لگ سکتے ہیں۔
بوئنگ کے کمرشل ایوی ایشن شعبے کی سربراہ سٹیفنی پوپ نے اس موقع پر قطر ایئر ویز کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا، "یہ آرڈر ہماری کمپنی کے لیے ایک اہم سنگ میل ہے اور قطر ایئر ویز کے فضائی بیڑے کو مزید مستحکم کرے گا۔"
قطر-امریکہ تعلقات میں نئی جان
یہ معاہدہ امریکہ اور قطر کے درمیان اقتصادی اور تجارتی تعلقات کو مزید فروغ دینے کا باعث بنے گا۔ اس میں جی ای ایروسپیس کے تیار کردہ انجنز کی فراہمی بھی شامل ہے، جو دونوں ملکوں کے درمیان صنعتی تعاون کو وسعت دے گی۔
صدر ٹرمپ کے اس دورے کے دوران دفاعی تعاون پر بھی پیش رفت ہوئی، جن میں امریکی ایم کیو-نائن بی ڈرونز کی فروخت نمایاں ہے۔ صدر ٹرمپ نے قطر کو ایک قابل اعتماد شراکت دار قرار دیا اور کسی بھی سیاسی دباؤ کے تاثر کو رد کیا۔
ماحولیاتی پہلو اور تجزیاتی آراء
قطر ایئر ویز کی یہ سرمایہ کاری اس کے مستقبل کے ماحول دوست فضائی بیڑے کی تعمیر کا حصہ ہے۔ 777-9 جیٹ طیاروں کی خاص بات یہ ہے کہ یہ اپنے پرانے ماڈلز کی نسبت 25 فیصد کم ایندھن استعمال کرتے ہیں، حالانکہ ابھی ان کی پرواز کے لیے فیڈرل ایوی ایشن ایڈمنسٹریشن کی منظوری درکار ہے۔مارکیٹ تجزیہ کار نکولس اوونز کا کہنا ہے، "آج اگر کوئی نیا طیارہ آرڈر کیا جائے تو اس کے مکمل تیار ہو کر استعمال کے قابل ہونے میں پانچ سال لگ سکتے ہیں۔"
صدر ٹرمپ نے معاہدے کی تعریف کرتے ہوئے اسے "شاندار" قرار دیا اور اس کے اقتصادی اثرات کو امریکی معیشت کے لیے اہم قرار دیا۔یہ معاہدہ نہ صرف بوئنگ کی ساکھ کی بحالی کی ایک بڑی کوشش ہے بلکہ بین الاقوامی فضائی صنعت میں امریکہ کے کردار کو بھی مزید مضبوط کرتا ہے۔