امریکی فوج واپس بلانے پر کوئی افسوس نہیں۔بائیڈن

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 11-08-2021
امریکی صدر بائیڈن
امریکی صدر بائیڈن

 

 

واشنگٹن :امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے منگل کو افغان رہنماؤں پر زور دیا ہے کہ وہ طالبان کے خلاف متحد ہو کر اپنی قوم کے لیے لڑیں۔

 امریکی صدر کا کہنا تھا کہ انہیں افغانستان سے امریکی فوج واپس بلانے پر کوئی افسوس نہیں۔وائٹ ہاؤس میں صحافیوں سے بات چیت میں جو بائیڈن نے کہا: ’افغان رہنماؤں کو متحد ہونا ہوگا۔ انہیں اپنی جنگ خود لڑنی ہو گی۔

 انہوں نے مزید کہا کہ امریکہ افغان حکومت کی مدد کرتا رہے گا لیکن انہیں دو دہائیوں کی جنگ کے بعد 31 اگست تک افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے فیصلے پر کوئی افسوس نہیں۔

 صدر بائیڈن نے کہا کہ افغان فوج کی تعداد طالبان سے زیادہ ہے اور اسے لڑنا ہو گا۔

 ان کا کہنا تھا کہ 20 سال کے دوران واشنگٹن نے ایک کھرب ڈالرز سے زیادہ رقم خرچ کی۔

 انہوں نے مزید کہا کہ امریکہ افغانستان کو اہم فضائی معاونت، خوراک، سامان اور افغان فورسز کو تنخواہیں دیتا رہے گا۔

دوسری جانب افغان صدر اشرف غنی نے کہا ہے کہ وہ علاقائی میلیشاؤں سے مدد لینے کے لیے کی کوشش کر رہے ہیں، جن سے برسوں سے لڑتے آئے ہیں۔ انہوں نے افغان شہریوں سے اپیل کی کہ ملک کے جمہوری نظام کا دفاع کریں۔

 طالبان افغانستان کے 65 فیصد حصے پر قابض: یورپی یونین یورپی یونین کے ایک عہدے دار نے کہا ہے کہ طالبان نے مسلسل کامیابیوں اور غیرملکی فوج کے انخلا کے بعد اب افغانستان کے 65 فیصد حصے کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔ 

طالبان نے منگل کی شام صوبہ بغلان کے دارالحکومت پل خمری پر قبضہ کر لیا۔ علاقے کے لوگوں کا کہنا ہے کہ افغان سکیورٹی فورسز صحرائے کلاگی کی جانب پسپائی اختیار کر رہی ہیں جو جہاں افغان فوج کا بڑا اڈہ واقع ہے۔

پل خمری ساتواں صوبائی دارالحکومت ہے جس پر طالبان نے ایک ہفتے میں قبضہ کیا۔ یورپی یونین کے سینیئر عہدے دار نے منگل کو کہا کہ طالبان نے 65 فیصد افغان علاقے کا انتظام سنبھال لیا ہے اور قبضے کے حوالے سے 11 صوبائی دارالحکومتوں کے لیے خطرہ بن چکے ہیں۔

مزید برآں طالبان کابل حکومت کو شمال میں قومی فورسز سے حاصل روایتی مدد سے محروم کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ یورپی یونین کے عہدے دار کا مزید کہنا ہے کہ حالیہ مہینوں میں تقریباً چار لاکھ افغان شہری نقل مکانی کر چکے ہیں جبکہ گذشتہ 10 روز میں ایران فرار ہونے والے افغان شہریوں کی تعداد بڑھ گئی ہے۔

ادھر یورپی یونین کے چھ رکن ممالک نے یورپ پہنچنے والے ان افغان پناہ گزینوں کی ملک بدری روکنے کے خلاف خبردار کیا ہے جن کی پناہ کی درخواستیں مسترد کی جا چکی ہیں۔ یورپی یونین کو خطرہ ہے کہ 10 لاکھ سے زیادہ پناہ گزینوں، جن میں زیادہ تعداد مشرق وسطیٰ سے آنے والوں کی ہے، کی آمد سے 16-2015 والا بحران دوبارہ پیدا ہو سکتا ہے۔