بی اے' پاس بن گیا کابل یونیورسٹی کا وائس چانسلر '

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 24-09-2021
 یہ ہیں اشرف غیرت
یہ ہیں اشرف غیرت

 

 

کابل : لیجئے ! طالبان نے ایک اور چمتکار کردیا ہے، ملک کوتباہ کرنے کی ایک نئی کڑی اور سامنے آئی ہے۔ جسے دیکھ اور سن کر دنیا ششدر رہ گئی ہے۔ جس سے اندازہ ہورہا ہے کہ افغانستان کا مستقبل کیا ہو سکتا ہے۔

در اصل افغانستان کے سب سے بڑے اور اہم تعلیمی ادارے کابل یونیورسٹی کے سربراہ یا وائس چانسلر کے طور پر ایک بیچلرز ڈگری یافتہ محمد اشرف غیرت کی تقرری نے افغان سوشل میڈیا پر ہلچل مچا دی ہے۔ جی ہاں !ایک گریجوٹ جو ایک عام نوکری حاصل نہیں کر سکتا ،وہ کابل یونیورسٹی کا وائس چانسلر ہوگا۔

کابل یونیورسٹی نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے اعلان کیا کہ اشرف غیرت نےافغانستان کے نائب وزیر اعلیٰ تعلیم روح اللہ روحانی کی موجودگی میں نئی ذمہ داری سنبھالی۔

اب کیا ہوگا تعلیم اور طلبا کا مستقبل اس کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل محمد اشرف غیرت نے جس شخص کی جگہ لی ہے وہ ڈاکٹریٹ کی ڈگری رکھتے تھے اور انہوں نے کئی کتابیں بھی لکھی ہیں۔

کابل یونیورسٹی کے سربراہ کے طور پر تقرری کے بارے میں اپنے پہلے ردعمل میں اشرف غیرت نے ٹوئٹر پر لکھا: ’میں سب سے پہلے کابل یونیورسٹی کو مغربی اور کافر سوچ، جسم فروشی اور اخلاقی بدعنوانی سے نجات دلانے کی کوشش کروں گا اور اس سائنسی مقام کو اسلامی اقدار کا گہوارا بناؤں گا۔

 متعدد سوشل میڈیا صارفین نے اس تقرری پر شدید ردعمل ظاہر کیا ہے۔

ایک فیس بک صارف رامین انوری نے لکھا: ’کچھ خبریں اور واقعات واقعی آپ کو پریشان کرتے ہیں۔کابل یونیورسٹی کے صدر کی حیثیت سے اس شریف آدمی کی تعیناتی ان خبروں میں سے ایک ہے۔ ’ایک شخص جس کا کوئی علمی پس منظر نہیں وہ ملک کے اہم تعلیمی اداروں میں سے ایک کا سربراہ بن جاتا ہے۔

ایک ایسا ادارہ جو خیالات پیدا کرے اور معاشرے میں کام کرنے کے لیے ماہر قوت فراہم کرے۔

awaz

کابل یونیورسٹی کے وائس چانسلر آفس کا منظر۔نئے وائس چانسلر کا خیر مقدم 

کابل یونیورسٹی پہلے ہی ایک نازک صورت حال سے گزر رہی تھی، لیکن اب یہ ان لوگوں کے ہاتھوں میں آچکی ہے جو یقینی طور پر جدید سائنس اور عصری تعلیم کی قدر نہیں کرتے۔‘ ملیئشیا اور سوئٹزرلینڈ کی یونیورسٹی میں ڈاکٹریٹ کی تعلیم حاصل کرنے والے پرویز مسام نے کہا، ’میں صرف اپنے ملک کے یونیورسٹی اداروں کے لیے رو سکتا ہوں اور بس۔

کون منطقی طور پر یہ مانتا ہے کہ بیچلرز کی ڈگری جس کے پاس نہ تو کافی کام کا تجربہ ہے اور نہ ہی کوئی ٹھوس سائنسی کامیابی اور نہ ہی وہ خطے اور دنیا کی یونیورسٹیوں کے ساتھ بات چیت کر سکتے ہیں۔

اشرف مذہبی انتہا پسندی کی سوچ رکھتے ہیں۔ انہوں نے 2020 میں ٹوئٹر پر لکھا تھا کہ اگر کوئی صحافیوں کے قتل کی مخالفت کرتا ہے تو وہ اس کے مذہب پر شک کریں گے کیونکہ کابل یونیورسٹی کے موجودہ صدر کے خیال میں ایک صحافی طالبان کو اتنا ہی نقصان پہنچائے گا جتنا کہ سو ازبک باغی۔ ایک اور ٹویٹ میں انہوں نے مقناطیسی بارودی سرنگوں کے ذریعے کار دھماکوں کی حمایت میں لکھاتھا کہ ’مقناطیس زندہ باد!‘

ادھر کابل یونیورسٹی نے نئے صدر(چانسلر) کی تعیناتی پر موقف جاری کرتے ہوئے کہا کہ کابل یونیورسٹی ایک تاریخی درس گاہ ہے جس کے لیے ضروری ہے اس کی حیثیت برقرار رہے۔

awaz

پریس ریلیز کے مطابق نئی تبدیلیوں کی وجہ سے یونیورسٹی کے صدر ڈاکٹر عثمان بابری نے ہائر ایجوکیشن وزارت کو بتایا کہ وہ چھ ماہ کے لیے جرمنی میں تحقیق کے سلسلے میں جا رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وزارت اعلیٰ تعلیم نے یونیورسٹی اور ہائر ایجوکیشن وزارت کے مابین بہتر رابطے کے لیے محمد اشرف غیرت کو عبوری سربراہ مقرر کیا ہے۔ پریس ریلیز کے مطابق اشرف غیرت کابل یونیورسٹی کے شعبہ صحافت سے فارغ التحصیل ہیں اور اس سے پہلے ہائر ایجوکیشن وزارت کے کلچر شعبہ میں کام کر چکے ہیں۔ بیان کے مطابق یہ تعیناتی عبوری ہے اور ضرورت پڑنے پر اس میں تبدیلی آسکتی ہے۔