آنتاناناریوو/ آواز دی وائس
ہفتوں کے وسیع احتجاجی مظاہروں کے بعد مڈغاسکر کے صدر اینڈری راجولینا نے ملک چھوڑ دیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق، وہ دنیا کے ان تازہ ترین رہنماؤں میں شامل ہو گئے ہیں جنہیں جنریشن زی کی قیادت میں ابھرنے والی عوامی بیداری کی لہر کے دوران اقتدار چھوڑنا پڑا ہے، جو اس وقت کئی براعظموں میں پھیل چکی ہے۔ رپورٹس کے مطابق، راجولینا ایک فرانسیسی فوجی طیارے کے ذریعے ملک سے روانہ ہوئے۔ یہ واقعہ نیپال اور بنگلہ دیش میں نوجوانوں کی قیادت میں ہونے والی بغاوتوں کے بعد تیسری حکومت کے خاتمے کی علامت ہے۔
رپورٹ کے مطابق، مڈغاسکر کی پارلیمنٹ میں اپوزیشن رہنما سیتنی رینڈریانا سولو نیائیکو نے تصدیق کی کہ راجولینا اتوار کے روز ملک چھوڑ کر چلے گئے جب فوج کے کچھ حصے مظاہرین میں شامل ہو گئے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے صدارتی عملے سے بات کی، اور انہوں نے تصدیق کی کہ صدر ملک سے روانہ ہو گئے ہیں۔ راجولینا کی موجودہ لوکیشن تاحال نامعلوم ہے۔
اگلے دن، راجولینا نے فیس بک ویڈیو کے ذریعے قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنی حفاظت کے لیے “محفوظ مقام” پر منتقل ہو گئے ہیں۔ اگرچہ انہوں نے اپنی جگہ ظاہر نہیں کی، لیکن انہوں نے واضح انداز میں کہا کہ میں مڈغاسکر کو تباہ ہونے نہیں دوں گا۔ایک سفارتی ذریعے کے مطابق، راجولینا نے اب تک استعفیٰ دینے سے انکار کر دیا ہے۔ فوجی ذرائع کا کہنا ہے کہ صدر نے مڈغاسکر، جو کبھی فرانسیسی کالونی تھا، اتوار کے روز فرانسیسی فوج کے کاسا طیارے پر سفر کیا۔ فرانسیسی ریڈیو ادارے کے مطابق، یہ انخلا فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون کے ساتھ طے پائے گئے معاہدے کے بعد ہوا۔
میکرون نے مصر میں غزہ جنگ بندی کانفرنس کے دوران کہا کہ وہ راجولینا کے انخلا میں فرانس کے کردار کی تصدیق نہیں کر سکتے، تاہم انہوں نے زور دیا کہ مڈغاسکر میں آئینی نظام کو برقرار رکھنا ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ فرانس ملک کے نوجوانوں کے جائز خدشات کو تسلیم کرتا ہے، مگر ان جذبات کو فوجی قوتوں کے ذریعے استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔ فوجی ذرائع کے مطابق، صدر کے انخلا کا آپریشن بہت تیزی سے انجام دیا گیا۔ ایک فرانسیسی کاسا طیارہ سینٹ میری ایئرپورٹ پر اترا، اور چند منٹ بعد ایک ہیلی کاپٹر ایک مسافر کو — جسے راجولینا سمجھا جا رہا تھا طیارے تک لے گیا۔
راجولینا کے اقتدار کے خاتمے کی تحریک 25 ستمبر کو شروع ہوئی تھی، جب ملک بھر میں پانی اور بجلی کی قلت نے عوامی غصے کو جنم دیا۔ تاہم جلد ہی یہ تحریک بدعنوانی، خراب حکمرانی اور بنیادی سہولتوں کی کمی کے خلاف ایک وسیع عوامی بغاوت میں بدل گئی۔ اختتامِ ہفتہ پر صدر کی طاقت میں نمایاں کمی اس وقت آئی جب سی اے پی ایس اے ٹی نامی ایلیٹ فوجی یونٹ — جس نے 2009 میں ان کی بغاوت میں مدد کی تھی — مظاہرین کے ساتھ جا ملا۔ سی اے پی ایس اے ٹی نے اعلان کیا کہ وہ اب مظاہرین پر فائرنگ نہیں کرے گا اور دارالحکومت انتاناناریوو میں ہزاروں مظاہرین کو تحفظ فراہم کرتے ہوئے ان کی رہنمائی کرے گا۔
بعد میں اسی یونٹ نے فوج کا کنٹرول سنبھالنے اور ایک نئے آرمی چیف کے تقرر کا اعلان کر دیا۔ جواب میں، راجولینا نے اتوار کے روز اسے “اقتدار پر قبضے کی کوشش” قرار دیا۔ پیر کے روز صورتحال مزید بدل گئی، جب نیم فوجی جینڈرمیری کا ایک دھڑا بھی بغاوت میں شامل ہو گیا۔ اس گروپ نے ایک رسمی تقریب میں، جس میں سینئر سرکاری افسران بھی موجود تھے، اپنے نئے چیف کا تقرر کیا۔
سیاسی بحران کے دوران، عوامی غصے کی ایک اور علامت کے طور پر سینیٹ کے صدر کو عہدے سے ہٹا دیا گیا اور جین آندرے ندرے منجاری کو عبوری صدرِ سینیٹ مقرر کیا گیا۔ مڈغاسکر کے آئین کے مطابق، اگر صدارت خالی ہو جائے تو سینیٹ کا سربراہ عارضی طور پر صدر کا عہدہ سنبھالتا ہے جب تک نئے انتخابات نہیں ہوتے۔ جیسے جیسے واقعات آگے بڑھتے گئے، ہزاروں افراد ایک بار پھر دارالحکومت کے مرکزی چوک میں جمع ہوئے اور نعرے لگانے لگے: صدر کو ابھی استعفیٰ دینا ہوگا۔
اقوامِ متحدہ کے مطابق، احتجاجی مظاہروں کے آغاز سے اب تک مظاہرین اور سیکیورٹی فورسز کے درمیان جھڑپوں میں کم از کم 22 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ مڈغاسکر، جس کی آبادی تقریباً 3 کروڑ ہے، دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں غربت کی شرح سب سے زیادہ ہے، اور اس کی نصف سے زیادہ آبادی کی عمر 20 سال سے کم ہے۔ عالمی بینک کے مطابق، 1960 میں آزادی حاصل کرنے کے بعد سے 2020 تک مڈغاسکر کی فی کس جی ڈی پی میں 45 فیصد کمی آئی ہے۔
ملک چھوڑنے سے قبل راجولینا نے اپنے آخری اقدامات میں سے ایک کے طور پر چند قیدیوں کو معافی دی، جن میں دو فرانسیسی شہری بھی شامل تھے جنہیں 2021 میں ناکام بغاوت کی کوشش پر سزا سنائی گئی تھی۔ صدارتی ذرائع کے مطابق، یہ معافی ایک اندرونی حکم نامے کے ذریعے دی گئی۔ دونوں افراد — پال میلوت رافانورانا اور فرانسوا مارک فلپ کو ریاست کے خلاف سازش کے الزام میں مجرم قرار دیا گیا تھا۔