افغانستان: خواتین کے لیے ہونگے الگ کلاس روم

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 12-09-2021
طالبان پرانی روش برقرار
طالبان پرانی روش برقرار

 

 

کابل : طالبان آہستہ آہستہ اپنے رنگ میں آرہے ہیں ،کابل پر قبضہ کے بعد طالبان نے ایسا تاثر پیش کرنا شروع کیا تھا گویا دنیا کے ساتھ یہ بھی بدل چکے ہیں ۔ لیکن اب جوں جو ں دن گزر رہے ہیں ،طالبان اپنی پرانی روش میں آتے نظر آرہے ہیں ۔

افغان طالبان کی نئی حکومت میں وزیر برائے اعلیٰ تعلیم نے کہا ہے کہ خواتین پوسٹ گریجویٹ لیول سمیت یونیورسٹیوں میں اپنی پڑھائی جاری رکھ سکتی ہیں لیکن اس کے لیے مخصوص کلاس رومز اور اسلامی لباس میں ہونا لازمی ہوگا۔

 طالبان کابینہ میں اعلیٰ تعلیم کے وزیر عبدالباقی حقانی نے اتوار کو ایک نیوز کانفرنس میں نئی تعلیمی پالیسی کا اعلان کیا۔ جس کے ساتھ ایک بات تو واضح ہوگئی ہے کہ عالمی برادری کے دباو میں طالبان نے تعلیمی ادارں کے دروازے خواتین کے لیے کھلے رکھے ہیں مگر شرائط ایسی لگا دی ہیں جن سے ان کا تعلیم جاری رکھنا مشکل ہو جائے گا۔

 دنیا اس بار طالبان کے طرز حکمرانی کا باریک بینی سے جائزہ لے رہی ہے کہ وہ 1990 کی دہائی کے آخر میں اپنے پہلے دور اقتدار سے کس حد تک مختلف کام کر سکتے ہیں۔ گذشتہ دور میں خواتین کو ملازمت اور تعلیم کے مواقع سے محروم اور عوامی زندگی سے مکمل طور پر خارج کر دیا گیا تھا۔

 طالبان نے اب دعویٰ کیا ہے کہ وہ خواتین کے تئیں اپنے رویوں میں تبدیلی لائے ہیں تاہم انہوں نے حالیہ دنوں میں مساوی حقوق کا مطالبہ کرنے والی خواتین مظاہرین کے خلاف تشدد کا استعمال بھی کیا ہے۔

 عبدالباقی حقانی نے کہا کہ طالبان وقت کو 20 سال پیچھے نہیں لے جانا چاہتے اور یہ کہ ’ہم آج کے دور میں موجود چیزوں کی تعمیر شروع کریں گے۔‘

 تاہم طالبات کو طالبان کی ان نئی پالیسیوں کے تحت لازمی ڈریس کوڈ سمیت دیگر پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا جیسا کہ وزیر تعلیم کا مزید کہنا تھا کہ طالبات کے لیے حجاب لازمی ہوگا لیکن انہوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ اس کا مطلب سر پر سکارف ہے یا پورے چہرے کا پردہ۔

 عبدالباقی حقانی نے کہا کہ کلاس رومز کو بھی صنفی طور پر علیحدہ علیحدہ کیا جائے گا۔

 انہوں نے کہا کہ ہم لڑکوں اور لڑکیوں کو ایک ساتھ پڑھنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ ’ہم مخلوط تعلیم کی اجازت نہیں دیں گے۔

 وزیر تعلیم نے کہا کہ یونیورسٹیوں میں پڑھائے جانے والے مضامین کا بھی جائزہ لیا جائے گا لیکن انہوں نے اس کی مزید تفصیل نہیں بتائی۔ طالبان نے اپنے سابقہ دورہ اقتدار کے دوران موسیقی اور آرٹ پر پابندی عائد کر دی تھی۔