افغانستان :ایک جنگ ختم ۔دوسری جنگ شروع

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 09-07-2021
جنگ کے بعد جنگ
جنگ کے بعد جنگ

 

 

 آواز دی وائس: نئی دہلی

افغانستان میں کیا ہورہا ہے؟ دنیا دیکھ رہی ہے،سمجھ رہی ہے لیکن بے بس ہے ۔کچھ کرنے سے قاصر۔بے بس ہے ۔کیونکہ دنیا کی سب سے بڑی فوجی طاقت نے بیس سال کی جنگ کے بعد افغانستان سے بوریا بستر لپیٹ لیا ہے ۔افغانستان کو پر امن بنانے اور استحکام بخشنے کے وعدے اور دعوے کو بھلا کر امریکی افواج نے رات کی تاریکی میں کابل سے واشنگٹن کے لئے اڑا نیں بھرنی شروع کردی ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ افغانستان اب بھی اسی موڑ پر کھڑا ہے جہاں جنگ سے قبل تھا۔ طالبان اقتدار میں نہ ہونے کے باوجود اقتدار میں ہیں۔ امریکی افواج کا انخلا ایسی صورت میں ہورہا ہے جب پورے ملک میں طالبان کی پیشقدمی جاری ہے۔اس طاقت کی اقتدار میں واپسی کے یقین کے ساتھ خانہ جنگی کا بھی خطرہ ہے۔بات واضح ہے کہ امریکہ کی 20 سالہ جنگ تو رواں سال 11 ستمبر کو ختم ہو جائے گی لیکن افغانستان میں ایک اور جنگ اب شروع ہوگی۔

 افغانستان سے ایک طرف غیرملکی افواج کا انخلا اپنے حتمی مراحل کی جانب گامزن ہے تو دوسری جانب افغان حکومت اور طالبان کے درمیان تناؤ شدت اختیار کرتا جا رہا ہے، جس کے باعث دونوں ہی جانب سے ہتھیار ڈالنے کے دعوے بھی کئے جا رہے ہیں۔

 افغان حکام کی جانب سے آئے دن بیانات سامنے آتے ہیں کہ مختلف علاقوں میں متعدد طالبان شدت پسند ہتھیار ڈال چکے ہیں جبکہ طالبان کی طرف سے بھی ایسے ہی دعوے سامنے آئے ہیں جن میں کہا جا رہا ہے کہ ’بڑی تعداد‘ میں سکیورٹی فورسز کے اہلکار بھی ہتھیار ڈال چکے ہیں۔

کہاں کررہے ہیں طالبان پیشقدمی

 طالبان تیزی سے اضلاع پر قبضے کر رہے ہیں اور زیادہ تر اضلاع ملک کے شمال میں واقع ہیں۔ افغانستان کا شمالی علاقہ اقلیتوں کا گڑھ ہے اور کئی مجاہدین رہنما اسی علاقے سے ہیں، جنہوں نے امریکی فوج کے ساتھ مل کر 2001 میں طالبان کی حکومت ختم کی تھی۔ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کے مطابق رواں سال مئی سے اب تک طالبان نے ملک کے 370 اضلاع میں سے 104 پر کنٹرول حاصل کرلیا ہے۔

طالبان کی فوجی حکمت عملی

ماہرین بتا رہے ہیں کہ جن اضلاع پر قبضہ کیا گیا ہے وہ ایک سوچی سمجھی فوجی حکمت عملی کے تحت کیا گیا ہے۔طالبان نے پہلے صوبائی دارالحکومت کا محاصرہ کیا اور پھر قبضہ۔ جہاں محاصرہ جاری ہے ان علاقوں پر امریکی فوج کے انخلا کے بعد قبضہ کرلیں گے۔

مزاحمت کا پیمانہ

 افغانستان سے آنے والی معلومات کے مطابق ملک کے شمال کے کئی صوبوں سے طالبان اور ملیشیا اور سویلین گروپوں کے درمیان لڑائیوں کی خبریں آ رہی ہیں۔ یہ جنگجو اور شہری گروپ تاجک، ازبک اور دیگر اقلیتوں کے رہنماؤں کے حامی ہیں اور وہ پشتون اشرف غنی کی محبت یا اس کی مدد کے لئے میدان جنگ میں نہیں اترے۔ 

دراصل افغان فوج میں بھگدڑ کے بعد اب کئی صوبوں میں ملیشیا سامنے آگئی ہیں۔قابل غور بات یہ ہے کہ طالبان کی جانب سے 104 اضلاع پر قبضہ کرنے کے بعد کم از کم چھ صوبوں میں ملیشیا طالبان کی پیش قدمی اور ان کو پسپا کرنے کے لئے سامنے آئی ہے۔ افغان سکیورٹی فورسز کی ناکامی کے بعد رپورٹس سامنے آئی ہیں کہ طالبان مخالف ملیشیا نے ایک بار پھر سر اٹھایا ہے اور ملک میں تشویش ہے کہ افغانستان ایک بار پھر امن کی جانب گامزن ہونے کی بجائے ایک لمبی خانہ جنگی کی جانب جا رہا ہے۔ 

ملیشیا خانہ جنگی کا سبب ؟

طالبان کے خلاف یہ مزاحمت دراصل ملک میں ایک بڑی خانہ جنگی کا راستہ ہموار کررہی ہے۔ افغانستان میں امریکی فوج کے سربراہ جنرل اوسٹن ایس ملر نے بھی طالبان کی جانب سے درجنوں اضلاع پر قبضے کو پریشان کن قرار دیا ہے لیکن اس سے زیادہ ملیشیا کے استعمال کو تشویش ناک کہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سکیورٹی فورسز کی مدد کے لئے ملیشیا کو طاقتور کرنے سے ملک میں خانہ جنگی کے امکانات بڑھ جائیں گے۔

 ماہرین کا ماننا ہے کہ ملیشیا کو اسلحہ فراہم کرنے اور ان کو طاقتور بنانا آفت کو دعوت دینے اور ایک بار پھر سے افغانستان کی تاریک تاریخ دہرائے جانے کے مترادف ہے۔ ’اس سے ملک میں پہلے ہی سے لسانی تفریق مزید گہری ہوجائے گی اور حکومت کی رِٹ بھی کمزور پڑ جائے گی۔ ملیشیا پر انحصار کرنا ایک ایسی زہر سے بھری گولی ہے، جس سے غنی کو کم مدتی فائدہ تو حاصل ہو جائے گا لیکن بعد میں یہی گولی ان کی حکومت کو ختم کر دے گی۔

‘  کابل کیوں گرسکتا ہے 

 افغانستان میں طالبان کی بڑی کامیابی یہ ہے کہ اب افغان فوج میں خوف ہے۔ طالبان کے بڑھتے قدم اس کے حوصلہ پست کررہا ہے۔ طالبان سے تازہ جھڑپوں کے بعد ایک ہزار سے زائد افغان سیکیورٹی فورسز کے اہلکار پڑوسی ملک تاجکستان فرار ہو گئے ہیں۔

 تاجکستان کی نیشنل سیکیورٹی کمیٹی نے کہا کہ طالبان سے جھڑپوں کے بعد ایک ہزار 37 افغان فوجی اپنی جان بچا کر فرار ہوتے ہوئے سابق سوویت سرزمین پر پہنچ چکے ہیں۔

- طالبان کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں کے پیش نظر کچھ اڈوں پر اہلکاروں نے کوئی گولی چلائے بغیر یا کسی مزاحمت کرنے کے بجائے فوراً ہتھیار ڈال دیے جس سے شدت پسند تنظیم کے حوصلے بلند ہوتے جا رہے ہیں وہیں اسلحے اور سامان کی رسد کے راستے محدود ہونے کے پیش نظر مقامی سیکیورٹی فورسز کی تشویش میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

طالبان کے لئے میدان خالی

 اب حقیقت یہ ہے کہ امریکی اور بین الاقوامی فوجیں افغانستان سے جا چکی ہیں،طالبان تیزی سے طاقت ور ہو رہے ہیں۔ ان حالات میں کئی کرداروں نے تنازعے کے اگلے مرحلے کے لئے اپنی صف بندیاں شروع کر دی ہیں۔ جنگ زدہ ملک پر قبضے کے لئے جیسے جیسے لڑائی میں شدت آرہی ہے کابل حکومت اور علاقائی قوموں کی مقامی فوجیں طے کر رہی ہیں کہ انہیں افغانستان میں کیا حاصل کرنا یا کھونا ہے۔سامان کی ترسیل کے لئے استعمال ہونے والے راستوں پر کم تعداد میں تعینات افغان سکیورٹی فورسز امریکی فوجی انخلا کے آخری مرحلے پر بے پناہ دباؤ میں ہیں۔

طالبان کے شدید حملوں کا سامنا ہے جبکہ جنوبی حصے جہاں ملیشیاز کے مضبوط گڑھ ہیں وہاں سے بھی سرکاری فوج پر حملے کیے جا رہے ہیں، جس سے ملک کے شمال میں بھی تشدد کا خطرہ پیدا ہو رہا ہے۔ ان حالات میں ملک کے شہر حکومتی فوج کے کنٹرول میں ہیں جبکہ کم آبادی والے زیادہ تر دیہی علاقے فوج کے ہاتھ سے نکل چکے ہیں۔ انٹرنیشنل کرائسس گروپ سے وابستہ افغان امور کے سینیئر تجزیہ کار اینڈریو واٹکنز کا کہنا ہے کہ ’ہاتھ سے نکلنے والے بہت سے اضلاع نیچے لٹکتے پھلوں کی طرح تھے جنہیں توڑنا آسان ہوتا تھا، یہ وہ دور دراز علاقے تھے جہاں رسد اور کمک کی فراہمی مشکل تھی۔ فوجی اعتبار سے ان علاقوں کی اہمیت بہت کم ہے۔‘