رانچی
یقیں محکم، عمل پیہم، محبت فاتح عالم
جہاد زندگانی میں یہ ہیں مردوں کی شمشیریں
اقبال کے اس شعر کی عملی تفسیر ہے رانچی کی زیبا نگار جس نے اپنی جدوجہد سے مشکلوں کی اونچی دیواروں کو پار کیا ہے۔ چھونپڑ پٹی سے نکل کر اس نے گولڈ میڈلسٹ بننے تک کا سفر طے کیاہے حالانکہ اس کی منزل اب بھی دور ہے مگر اسے یقین کے وہ اپنے سپنوں میں جس آسمان کی بلندی میں پرواز کرتی ہے، ایک دن اسے حقیقت میں حاصل کرلےگی۔ رانچی کی کچی آبادی میں اپنا بچپن گزارنے والی زیبا فیشن کی دنیا میں قدم رکھنے اور اپنی پہچان بنانے کا خواب دیکھتی ہے۔
زیبا نے مشکل وقت دیکھا ہے مگر وہ اس کے باجود آگے بڑھی ہے۔ جب وہ محض 12 سال کی تھی تب بھی فیشن ڈیزائنر بننے کا خواب دیکھتی مگر اس کے خواب کو تب جھٹکا لگا جب اس کا چھوٹا سا گھر تجاوزات ہٹانے کی مہم میں ٹوٹ گیا۔
وہ اپنے خاندان کے ساتھ سڑک پر آگئی۔ اس خاندان کے سر سے چھپر چھن چکا تھا۔ اس شکل وقت میں بھی زیبا نے خواب دیکھنا بند نہیں کیا اور تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا۔ وہ جدوجہد کرتی رہی کیونکہ اس میں جدوجہد کا جذبہ تھا، وہ ہار ماننے والی نہیں تھی۔ یقین محکم کے ساتھ وہ عمل پیہم کرتی رہی اور آخر کار اس کے راستے میں ایک اہم مقام آگیا ہے جب فیشن ڈیزائننگ اسٹڈیز میں اس نے گولڈ میڈل جیت لیا ہے۔
زیبا نگار’بیٹی بچائو، بیٹی پڑھاؤ‘ مہم کی ایک مثال بن گئی ہے۔ حالانکہ یہ اس کی منزل نہیں ہے۔ اسے اور بھی آگے جانا ہے اور دنیا میں اہم مقام بنانا ہے۔ رانچی کے اسلام نگر ٹاؤن شپ کی رہنے والی زیبا نگار نے رانچی یونیورسٹی سے فیشن ڈیزائننگ میں گولڈ میڈل حاصل کیا۔
زیبا کا کہنا ہے کہ فیشن ڈیزائننگ کی تعلیم حاصل کرنا اس کے لیے آسان نہیں تھا۔ حالانکہ اس کا خاندان اس کے ساتھ رہا۔ اپنے خاندان کا سہارا لے کر آج اس نے چیلنجز پر قابو پا کر تعلیم کے شعبے میں اپنی ایک پہچان بنائی ہے اور اپنے بچپن کے خواب کو پورا کرنے کی طرف بڑھ رہی ہے۔ وہ خود کفیل ہندوستان کا حصہ بننا چاہتی ہے اور اپنے ستاھ ساتھ دوسروں کے لئے بھی روزگار پیدا کرنا چاہتی ہے۔
زیبا کا کہنا ہے کہ وہ فیشن ڈیزائننگ انسٹی ٹیوٹ یا اپنا بوتیک چلا کر نوکری پیدا کرنا چاہتی ہے۔ زیبا کے والد محمد شکیل نے قدم قدم پر بیٹی کا ساتھ دیا اور اسے آگے بڑھنے میں مدد کی۔ انہوں نے ’لوگ کیا کہیں گے؟‘ جیسی باتوں کی کبھی پرواہ نہیں کی۔
محمد شکیل کا کہنا ہے کہ گزشتہ چند سالوں میں حکومت کی جانب سے چلائے جارہے مختلف پروگراموں اور اسکیموں کی وجہ سے بیٹیوں نے بہت سی کامیابیاں اپنے نام کی ہیں۔ واضح ہوکہ دوران تعلیم زیبا نگار نے پیشہ ورانہ اور جاب اورینٹڈ مضمون کا انتخاب کرکے سمجھداری کا مظاہرہ کیا اور اس کے بعد گولڈ میڈل جیت کر اپنی منفرد صلاحیتوں کو سب کے سامنے رکھا۔