زرین خان۔ ممبئی میں روشن ہوئی ایک اور تعلیمی شمع

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 18-02-2021
کامیابی کی ایک اور کہانی
کامیابی کی ایک اور کہانی

 

 زرین یوسف خان ایک پر عزم لڑکی جس نے غربت اور پسماندگی کے باوجود تعلیمی خواب کو حقیقت میں تبدیل کرنے کا کارنامہ انجام دیا۔جس نے اپنی کامیابی کے ساتھ ملک و قوم کے بچوں کا یہ پیغام بھی دیا ہے کہ اگر مقصد واضح ہو اور آپ میں لگن ہو آپ کی راہ آسان ہوجاتی ہے۔دراصل جب انسٹی ٹیوٹ آف چارٹرڈ اکاؤنٹنٹس آف انڈیا (آئی سی اے آئی) نے سی اے انٹرمیڈیٹ اولڈ کورس، نیو کورس اور سی اے فاؤنڈیشن امتحان کے نتائج جاری کئے تو اس میں مہاراشٹرا کی زرین بیگم نے آل انڈیا رینک۔ ون حاصل کی۔

یادرہے کہ سی اے کے تین امتحان ہوتے ہیں۔فاونڈیشن،انٹر میڈیٹ اور فائنل۔انٹر میڈیٹ کے امتحان جو کہ مئی میں ہونے والے تھے بعد ازاں نومبر میں منعقد ہوئے تھے۔ رزلٹ کے ساتھ ممبئی میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ممبرا کے علاقہ میں رہنے والی زرین اچانک سرخیوں میں آگئی۔میڈیا کی توجہ کا مرکز بن گئی۔سوشل میڈیا پر مبارک بادی کی جھڑی لگ جاتی ہے۔ کا میابی تو ہر کوئی حاصل کرتا ہے لیکن ذاتی مشکلات کے ساتھ جدوجہد کرنا اس منزل کو دشوار بنا تا ہے۔زریں یوسف خان نے اس کامیابی کے ساتھ سب کا سر فخر سے بلند کردیا۔

ممبرا کی نئی کرن

در اصل ممبرا علاقہ میں اب مسلمانوں میں تعلیم کے تئیں زبردست بیداری آرہی ہے۔مسلمان بچے تعلیم کے میدان میں اپنی موجودگی کا احساس دلا رہے ہیں۔اس سے قبل رشید کمپاونڈ کے اعجاز احمد نے آئی اے ایس بننے کا کارنامہ انجام دیا تھا۔ان کہانیوں کے سامنے آنے کے بعد اردو میڈیم کے بچوں میں بھی اعتماد پیدا ہورہا ہے۔

اب ممبرا ریلوے اسٹیشن کے قریب ایک خستہ حال مکان میں رہنے والی زریں یوسف خان نے اپنے تعلیمی مشن پر کسی بھی مایوسی اور جھنجھلاہٹ کا سایہ نہیں پڑنے دیا اور ایک مثبت سوچ کے ساتھ اپنے مقصد کے حصول میں جٹی رہیں۔ان کا تعلق اردو میڈیم اسکول سے ہے۔انہوں نے پچھلے سال تھانہ میونسپل کے تمام اسکولوں میں ٹاپ کیا تھا۔زریں یوسف خان کے والد یوسف خان اورنگ آباد کے رہنے والے ہیں۔جو پیشہ سے میکنیک ہیں۔1986میں وہ رضوی باغ میں منتقل ہوگئے تھے۔اب وہ بیمار رہتے ہیں،کئی آپریشن ہونے کے سبب کام نہیں کر پاتے ہیں۔ان کے دو بیٹے اور بیٹیاں ہیں جو گھر سنبھال رہے ہیں ساتھ ہی تعلیم بھی حاصل کررہے ہیں۔

تعلیمی کیر ئیر اور جدوجہد

زریں خان سب سے بڑی ہیں جنہوں نے ابتدائی تعلیم ممبرا دیوی روڈ پر واقع عبداللہ پٹل اردو اسکول سے حاصل کی تھی۔ہائی اسکول میں انہوں نے 85فیصد نمبر حاصل کئے تھے اور کامرس میں داخلہ لیا تھا جبکہ ہائر سکینڈری میں اس نے 80فیصد نمبر حاصل کئے تھے۔

جس کے بعد اس نے ممبئی کے بھانڈوپ کے ایک کالج میں داخلہ لیا تھا۔ تعلیم کے سلسلے کو جاری رکھنا بھی بہت مشکل تھا مگر زریں نے ہمت نہیں ہاری۔اپنی جدوجہد جاری رکھی۔اہم بات یہ ہے کہ پڑوس میں رہنے والی ایک چاچی شہزادی یونس خان نے اس کی اہلیت کو پرکھ لیا تھا اس لئے انہوں نے بہت مدد کی۔ اس دوران زریں خان نے فورڈ کے علاقہ میں بطور معاون کام کرنا شروع کیا تھا۔زریں خان نے اپنی تعلیم بھی جاری رکھی تھی۔لاک ڈاؤن کے دوران اس کی نیرج اڑوڑا نامی ٹیچر نے بہت مدد کی تھی۔وہ ان کی بھی شکر گزار ہے۔وہ آن لائن رہنمائی کیا کرتے تھے۔

شور شرابے کے باوجود کامیابی

زرین کو شروع سے ہی راضی کا شوق تھا مگر اس منزل کو پانے کیلئے اسے سخت محنت کرنی پڑی۔اس نے کہا کہ ہمارا گھر بہت چھوٹا ہے اور علاقہ بہت گنجان ہے۔اس کے ساتھ اور بھی مسائل تھے جس کے سبب پڑھائی کیلئے وقت صرف رات کو ہی ملا کرتا تھا۔اہل خاندان اس بات کو مانتے ہیں کہ شور شرابہ کے ماحول میں بھی زریں نے اپنی منزل کو بھٹکنے نہیں دیا۔وہ اپنی پڑھائی کی جانب دھیان رکھتی تھی۔ اس کے پروسی اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ اس میں کچھ کردکھانے کا جذبہ ظاہر ہوتا تھا۔

والدین کا ساتھ

اہم بات یہ ہے کہ والدین نے ہمیشہ زریں کی حوصلہ افزائی کی۔اس کو تعلیم کے حصول کیلئے مکمل آزادی دی۔اس کی والدہ سلمہ کا کہنا ہے کہ ہم نے بچوں کو تعلیم سے کبھی نہیں روکا۔کیونکہ تعلیم ہی روشن مستقبل کی ضمانت دے سکتی ہے۔اسی طرح والد یوسف خان کا کہنا ہے کہ زندگی میں پہلی بار اس بات کا احساس ہوا کہ ایک کامیابی کیسے زندگی بدل دیتی ہے۔ بیٹی کی کامیابی نے سب کو توجہ کا مرکز بنا دیا۔پوری رات فون آتے رہے اور لوگ بتاتے رہے کہ سوشل میڈیا پرخوب دھوم مچی ہے۔ میرا سینہ فخر سے پھولا ہوا ہے۔

حکومت بھی متوجہ ہوگئی

زرین کی اس کامیابی کے سبب مہاراشٹر کی حکومت نے بھیاسے مبارک باد دی ہے۔ ریاستی وزیر جیتندر اوہاڈ اور ان کی اہلیہ نے زرین کو مبارک باد دی۔ یہی نہیں تھانہ میونسپل کارپوریشن میں اپوزیشن لیڈر اشرف پٹھان نے بھیرضوی باغ پہنچ کر زریں سے ملاقات کی اور اسے دس ہزار روپئے کا انعام دیا۔ساتھ اس بات کا اعلان کیا کہ وہ کارپوریشن سے مطالبہ کریں گے کے زریں کی مزید تعلیم کیلئے اخراجات کو برداشت کرے۔یاکہ اس کو اپنا مستقبل سنوارنے میں آسانی ہو۔