اقوام متحدہ کے امن مشن :ہندوستانی خواتین دستوں کا اہم کردار

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 09-03-2022
 اقوام متحدہ کے امن مشن :ہندوستانی خواتین دستوں کا اہم کردار
اقوام متحدہ کے امن مشن :ہندوستانی خواتین دستوں کا اہم کردار

 


میرٹھ : ہندوستانی خواتین کی ایک بڑی تعداد مسلح افواج میں بھی شامل ہو رہی ہے اور اس طرح بین الاقوامی مشنز میں بھی ان کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق امن دستوں میں خواتین کی زیادہ شمولیت سے آپریشن مزید موثر ہو گئے ہیں۔ایک عشرے سے بھی زیادہ عرصے سے پہلے اقوام متحدہ نے تنازعات کی روک تھام اور پھر قیام امن میں خواتین کی زیادہ سے زیادہ شمولیت کی بات کی تھی۔ رواں برس جنوری میں ہن دوستانی حکومت  نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں بھی ہر شعبے میں خواتین کی زیادہ سے زیادہ شرکت پر زور دیا تھا۔

اقوام متحدہ کی امن فوج کی تاریخ میں پہلی بار، ہندوستان نے افریقی ملک میں خانہ جنگی کے بعد سن 2007 میں لائبیریا میں تعیناتی کے لیے مکمل طور پر خواتین پر مشتمل اپنا ایک دستہ بھیجا تھا۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ زیادہ سے زیادہ خواتین کو امن مشن کا حصہ بنانے سے آپریشن پہلے سے کہیں زیادہ موثر ثابت ہوئے ہیں۔ ادارے کے مطابق سن 2020 میں تقریبا 95,000 امن فوجیوں میں سے 4.8 فیصد خواتین فوجی دستے اور 10.9 فیصد خواتین پولیس یونٹس شامل تھیں۔ اس کے ساتھ ہی تقریباً 34 فیصد خواتین اہلکار امن مشنز کا حصہ تھیں۔

میرٹھ  کا کیمپ

میرٹھ کے ایک پولیس کیمپ میں سخت تربیتی سیشن کے بعد اپنی بیرک میں بیٹھی ہوئی چونتیس سالہ سونیجا پرساد کہتی ہیں،خواتین کے لیے کچھ بھی ناممکن نہیں ہے۔ پرساد ریپڈ ایکشن فورس (آر اے ایف) دستے میں ایک انسپکٹر ہیں۔ سریع الحرکت آر اے ایف ہندوستا ن میں نیم فوجی سینٹرل ریزرو پولیس فورس کا ایک خصوصی ونگ ہے، جو فسادات اور ہجوم پر قابو پانے جیسے حالات سے نمٹنے کا کام کرتا ہے۔ بات چيت سے قبل سونیجا نے صبح ہی سے اپنی 20 دیگر ساتھیوں کے ساتھ سخت ترین ٹریننگ مکمل کی تھی۔ سونیجا پرساد اقوام متحدہ کے لیے اپنے دوسرے امن مشن کے لیے تربیت لے رہے ہیں۔

awazurdu

انہوں نے کہا،’’خواتین بہترین امن کیپر ہو سکتی ہیں۔ ہم معاشروں کو مضبوط کر سکتے ہیں اور دوسری خواتین کو بھی اس حقیقت سے آگاہ کر سکتے ہیں کہ ان میں بھی کچھ کرنے کی صلاحیت ہے۔ان کا مزید کہنا تھا،’’ہم انہیں اپنی ہمت دکھا رہے ہیں، اپنی طاقت دکھا رہے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ ہماری یہ ہمت و جرات دیکھ کر ان کی بھی حوصلہ افزائی ہو گی۔

سن 2007 میں لائیبیریا میں خواتین دستے کی کمان سنھبالنے والی سیما ڈھونڈھیال کہتی ہیں،’’اس طرح کے امن مشنز میں خواتین کی موجودگی بذات خود ایک الگ طرح کا فرق ڈالتی ہے۔ کچھ ثقافتیں ہیں، جہاں متاثرہ خواتین کو مردوں سے بات کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ اس مخصوص منظر نامے میں، اگر آپ کے پاس خواتین امن دستے ہیں، تو حکام کے لیے ان کے ساتھ بات چیت کرنا آسان ہو جاتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ تنازعات سے متاثرہ علاقوں میں، متاثرین کی ایک بڑی تعداد خواتین اور بچوں کی ہوتی ہے اور بقول ان کے چونکہ خواتین میں بات چیت کی اچھی صلاحیت ہوتی ہے اس لیے تنازعات کا شکار ہونے والی خواتین کے ساتھ وہ اچھے رابطے قائم کر سکتی ہیں، جس سے وہ ان میں بھروسہ اور اعتماد پیدا کر سکتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں،’’یہ خواتین تربیت یافتہ اور حساس ہوتی ہیں۔ وہ اس صدمے سے واقف ہیں جس سے خواتین اور بچے گزر رہے ہوتے ہیں۔ چونکہ وہ اپنے مرد ہم منصبوں کے مقابلے میں بہتر رابطہ کار ہیں، اس لیے وہ متاثرہ معاشروں اور برادریوں میں گہرائی تک جا سکتی ہیں اور ان سے رابطہ قائم کر کے ان کے مسائل کو سمجھ سکتی ہیں۔

دقیانوسی تصورات کو چیلنج کرتی خواتین ریپڈ ایکشن فورس کی سونیجا پرساد کا کہنا ہے کہ بہت سی لائبیرین خواتین نے خواتین امن فوجیوں کو رول ماڈل کے طور پر دیکھا تھا،خواتین فوجیوں کی چمک دھمک نے لائبیریا کی بہت سی خواتین کو لائبیرین نیشنل پولیس میں شامل ہونے اور اپنے معاشرے کی تعمیر نو میں حصہ لینے کے حوالے سے ان کی حوصلہ افزائی کی۔

برصغیر میں فوج اور پولیس کے شعبے میں مردوں کا بہت زیادہ غلبہ رہا ہے۔ بھارت میں خواتین پولیس افسر عالمی سطح پر اپنے ملک کی نمائندگی کر کے دقیانوسی تصورات کو توڑنے کا کام کر رہی ہیں۔ کانسٹیبل پنکی سنگھ بھی اقوام متحدہ کے مشن میں تعیناتی کے لیے تربیت حاصل کر رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، مردوں اور عورتوں کی جسمانی صلاحیتیں مختلف ہوتی ہیں۔

لیکن خواتین ذہنی طور پر بہت مضبوط ہوتی ہیں۔ اور چونکہ وہ ذہنی طور پر مضبوط ہیں اس لیے وہ جسمانی طور پر بھی چیزیں سنبھال لینے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ جب میں تربیت لیتی ہوں تو مجھے لگتا ہے کہ میں کسی بھی آدمی سے کم نہیں ہوں۔‘‘ وہ مزید کہتی ہیں کہ بھارتی معاشرہ خواتین کو ٹیچنگ جیسے پیشوں میں کام کرنے کی اجازت تو دیتا ہے لیکن فورسز میں اتنا زیادہ نہیں،’’ اگر ہم اپنے فرائض کو کامیابی سے انجام دیتے ہیں، تو ہم لوگوں کو حوصلہ دے سکتے ہیں کہ وہ اپنی بیٹیوں اور بہنوں کو فوج میں شامل ہونے کے لیے بھیجیں، نہ صرف ہندوستان میں بلکہ ان ممالک میں بھی جہاں ہمیں تعینات کیا جاتا ہے۔