پاکستان: یونیورسٹی میں جنسی ہراسانی کیس ۔ فیصلہ کے باوجود 51 دن بعد بھی انصاف نہیں

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 05-06-2021
طالبات کا مظاہرہ
طالبات کا مظاہرہ

 

 

پشاور :پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا کی معروف تعلیمی درسگاہ اسلامیہ کالج یونیورسٹی میں جنسی ہراسانی کیس کا ایک مقامی عدالت سے فیصلہ سنائے جانے کے 51 دن بعد بھی متاثرہ خاتون کے مطابق ان کو انصاف نہیں مل سکا ہے۔جب کہ وائس چانسلر اسلامیہ کالج یونیورسٹی گل ماجد خان کے مطابق ان کا ادارہ تمام اقدامات قانون کی روشنی میں اٹھانے کا مجاز ہے۔لیکن حرکت نہیں ہے۔نہ کوئی نیت ہے اور نہ ارادہ۔ عدالت لگ گئی اور فیصلہ سنا دیا گیا مگر کارروائی کرنے کےلئے کوئی تیار نہیں۔ پاکستان کے صوبائی محتسب برائے انسداد جنسی ہراسانی کی جانب سے سنائے گئے اس فیصلے میں اسلامیہ کالج یونیورسٹی کے شعبہ پولیٹیکل سائنس کے چئیرمین ڈاکٹر امیر اللہ کو جنسی ہراسانی کے الزام میں عہدے سے ہٹانے کی سفارش کی گئی تھی۔تاہم 51 دن گزرنے کے بعد بھی متاثرہ خاتون آمنہ اشفاق کے مطابق یونیورسٹی کی انتظامیہ اور گورنر خیبر پختونخوا کی جانب سے فیصلے پر کوئی پیشرفت نہیں ہوئی اور متعلقہ ملزم ہنوز اپنی ملازمت برقرار رکھے ہوئے ہیں۔

طالبات ہیں اٹل

اہم بات یہ ہے کہ جنسی ہراسانی کے خلاف جدوجہد کررہی لڑکیوں نے اس جنگ کو آخری دم تک جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔وہ محاذ پر ڈٹی ہوئی ہیں۔ آمنہ اشفاق نامی طالبہ کا کہنا ہے کہ میں انصاف کے انتظار میں ہوں اور اگر گورنر خیبر پختونخوا کے دفتر سے مجھے انصاف نہ مل سکا تو میں اعلیٰ عدالت تک جاؤں گی لیکن مشکلات اور ذہنی اذیت کے باوجود میں ہار ماننے کو تیار نہیں ہوں۔صوبائی محتسب رخشندہ ناز کو خط لکھ کر انہیں ایک مرتبہ پھر حالات سے آگاہ کرکے ان سے مداخلت کی اپیل کی ہے۔ اس خط میں صوبائی محتسب کو مخاطب کرکے لکھا گیا ہے کہ ’صوبائی محتسب کی جانب سے 12 اپریل 2021 کو سنائے گئے فیصلے پر یونیورسٹی کو من وعن عمدرآمد کرنے کا حکم سنایا گیا تھا تاہم باوجود ان احکامات کے یونیورسٹی انتظامیہ حیل وحجت سے کام لے رہی ہے اور آج تک اس مد میں کوئی ٹھوس اقدامات نہیں اٹھائے گئے ہیں۔درخواست گزار کے مطابق ’یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے تاخیری حربوں کی وجہ سے وہ کافی دلبرداشتہ ہو گئی ہیں اور ان پر ذہنی دباؤ بڑھنے لگا ہے۔

یہ کیسے فیصلے

 صوبائی محتسب برائے انسداد ہراسانی ادارہ کئی دیوانی مقدمات کو حل کرنے کے لیے ہائی کورٹ جتنے اختیارات رکھتا ہے۔ اس ادارے کے حالیہ فیصلے کے بعد ملزم امیراللہ بتایا تھا کہ ’یونیورسٹی کی تحقیقاتی کمیٹی اور گورنر انویسٹی گیشن ٹیم (جی آئی ٹی ) کی رپورٹس میں انہیں بے گناہ قرار دیے جانے کے بعد صوبائی محتسب کے فیصلے کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہ جاتی۔

 اسلامیہ کالج یونیورسٹی میں خواتین کے ساتھ جنسی ہراسانی کے معاملے کو مقامی و بین الاقوامی میڈیا میں کافی رپورٹ کیا گیا، یہی وجہ ہے کہ اس فیصلے پر عمل درآمد میں تاخیر کے بعد صوبائی محتسب برائے انسداد ہراسانی کے دیگر مقدمات اور فیصلوں سمیت اختیارات پر سوال اٹھنے لگے ہیں۔ ’ہمارا کام فیصلہ سنانا تھا، وہ ہم نے کر دیا ہے۔ اپیل کرنا سزاوار شخص کا بنیادی حق ہے لہذا اس صورتحال میں اس اپیل کے خلاف جانا قانون کے مطابق درست نہیں ہے۔ اس بات پر کوئی ہمیں ذمہ دار نہیں ٹھرا سکتا ہے۔‘

رپورٹ میں کیا ہے 

 اس مبینہ رپورٹ میں ایک جگہ یہ اعتراف کیا گیا ہے کہ ’متذکرہ تعلیمی ادارے میں خواتین کو سازگار ماحول فراہم نہیں کیا گیا تھا اور نہ ہی متاثرہ خاتون کی شکایت پر انتظامیہ کی جانب سے بروقت کارروائی ہوئی تھی۔ ساتھ ہی یہ اعتراف بھی کیا گیا ہے کہ خاتون آمنہ اشفاق کو پروفیسر امیراللہ نے ڈرانے یعنی ’بلیئنگ‘ کی کوشش کی تھی۔

 اسلامیہ کالج انتظامیہ پر یہ الزام کہ وہ آمنہ کیس میں بدنیتی اور تاخیری حربوں سے کام لے رہے ہیں کے جواب میں یونیورسٹی کے وائس چانسلر گل ماجد خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کا ادارہ تمام اقدامات قانون کی روشنی میں اٹھانے کا مجاز ہے۔

 ’خیبر پختونخوا یونیورسٹیز ایکٹ کے مطابق، 17 گریڈ سے اوپر افسران کی معطلی وائس چانسلر یا انتظامیہ کے اختیارات کے زمرے میں نہیں آتا بلکہ یہ سنڈیکیٹ کا کام ہے۔ میں نے بطور وائس چانسلر اپنا فرض ادا کرتے ہوئے صوبائی محتسب کا فیصلہ سنڈیکیٹ کو ارسال کر دیا ہے۔ اگر ان کا فیصلہ متعلقہ پروفیسر کے حق میں آیا تو وہ اپنی ملازمت جاری رکھیں گے اور اگر ان کے خلاف آیا تو وہ ہائی کورٹ میں اس کے خلاف اپیل کر سکتے ہیں۔‘

پس منظر

 نومبر 2020 کو اسلامیہ کالج یونیورسٹی کے شعبہ پولیٹیکل سائنس میں پڑھنے والی ایک طالبہ نے اپنے ڈیپارٹمنٹ کے چئیرمین پر ہراسانی کا الزام لگاتے ہوئےکہاتھا کہ چئیرمین نے انہیں غیر رسمی گفتگو کے بہانے اپنے دفتر بلا کر ان کے جسم کو چھونے کی کوشش کی تھی اور انہیں دوستی کی پیشکش بھی کی تھی۔ صوبائی محتسب نے تمام تحقیقات کے بعد ڈاکٹر امیراللہ کو خطاوار قرار دے کر اسلامیہ کالج یونیورسٹی سے ان کی برطرفی کی درخواست کی تھی۔