ڈاکٹر عمیر منظر: لکھنؤ
اردو معاشرہ کی ایک پہچان بیت بازی بھی ہے۔مدارس،اسکول،کالج کے علاوہ صاحبانِ ذوق دیگر جگہوں پر بھی اس کا اہتمام کرتے ہیں۔بچوں سے لے کر بڑوں تک اس ادبی کھیل میں حصہ لے کر لطف و انبساط کی کیفیت سے ہی دوچار نہیں ہوتے بلکہ اپنے ادبی جذبات کی تسکین کا سامان بھی فراہم کرتے ہیں۔لکھنؤ میں خواتین کی بیت بازی بھی دیکھنے کا موقع ملا۔واقعہ یہ ہے کہ بیت بازی سے الفاظ کی ادئیگی،لہجے کا اتار چڑھاؤ،اشعار کا انتخاب اور شعر پڑھنے کا اندازسامعین کوبے ساختہ نعرۂ تحسین بلند کر دینے پر مجبورکردیتا ہے۔
مدرسہ اور یونی ورسٹی کے زمانے میں ا س سرگرمی کا حصہ بننے کی سعادت مجھے بھی حاصل رہی ہے لیکن اس کی روایت کتنی قدیم ہے یقین سے کچھ نہیں کہاجاسکتاہے۔اردو لغت تاریخی اصول کے جلد دوم میں اس مقابلے کو بازی بحثی کا نام دیا ہے۔اس لفظ کے تحت اندراج ملاحظہ کریں۔بازی /بحثی
مقررہ طریقے سے کھیل کے طورپر طالب علموں کی مقابلہ شعر خوانی(جس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ اول ایک لڑکا بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھتا ہے۔دوسرا لڑکا رحیم کے آخری حرف یعنی م سے شروع ہونے والا شعر سناتا ہے اسی طرح جس حرف پر ایک لڑکے کا شعر ختم ہوتا ہے دوسرا لڑکا اسی حرف سے شرو ع ہونے والا شعر پڑھتا ہے۔اور آخر میں جو لڑکا جوابی شعر پڑھنے سے قاصر رہے، وہ ہار جاتا ہے۔
بیت بحثی سمجھ کے کر بلبل
دھوم ہے میری خوش زبانی کی
میر تقی میر
ڈاکٹر فرید احمد برکاتی نے فرہنگ کلیات میر میں بیت بحثی کے تحت لکھا ہے ”بیت بازی،شعروں میں بحث کرنا۔ایک کھیل کا نام۔بچوں کا شعر خوانی میں باہمی مقابلہ کرنا“
واضح رہے کہ بیت بازی کی سند میں میرؔ کا جو شعر پیش کیا گیا ہے وہ 1840کا ہے۔اس سے کسی قدراس ادبی کھیل کی قدامت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔
پروفیسر نیر مسعود نے مسعود حسن رضوی ادیب کی پہلی تالیف ”اشعار برائے بیت بازی“ 1907کو قرار دیا ہے۔انھوں نے لکھا ہے کہ یہ بیت بازی والے اشعار کی بیاض ہے جب وہ ورناکیولراسکول سے 1906میں چوتھا درجہ پاس کرکے اناؤ کے مڈل اسکول میں داخل ہوئے تھے۔مسعود حسن رضوی ادیب کو بہت اشعار یاد تھے کبھی کبھی تو وہ پوری جماعت کو ہرا دیا کرتے تھے۔
یہ خوش گوار روایت آج بھی زبان وادب سے محبت کرنے والوں کی ایک روشن پہچان ہے۔اور مختلف مواقع پر مقابلہ بیت بازی کے پروگرام ہوتے رہتے ہیں اور طلبہ اب بھی اسی جوش کے ساتھ اس میں حصہ لیتے ہیں اور اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
.webp)
بیت بازی کی یاد یوں آئی کہ گذشتہ 30ستمبر کو الحمرا فاروقی گرلس انٹر کالج (چکیہ الہ آباد)نے شمس الرحمن فاروقی کے یوم ولادت کے موقع پر بیت بازی مقابلے کا اہتمام کیا۔فاروقی صاحب کو اس کالج سے بڑا لگاؤ تھا نہ صرف اس کے لیے فکر مندرہتے بلکہ جب تک صحت نے ساتھ دیا وہ یہاں کی سرگرمیوں میں شریک رہتے تھے۔الہ آباد کے جس علاقے میں یہ کالج واقع ہے، وہ علاقہ معاشی اعتبار سے کبھی مستحکم پوزیشن میں نہیں رہا مگر الحمرا کالج نے قرب و جوار کی طالبات کو روشن مستقبل کا خواب دیکھنے کا موقع ضرور فراہم کردیا ہے۔یہاں کے بچے بیت بازی مقابلے میں جب میر و غالب کے اشعار پڑھتے ہیں تو ان کے جذبات و احساسا ت کی گرمی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔اپنی تہذیب اور ثقافت کی روشن نمائندگی کرنے والے ان بچوں کو دیکھ کر خوشی اور مسرت کی جو کیفیت پیدا ہوتی ہے وہ دیر تک ذہن میں تازہ رہتی ہے۔اس کی منتظم اعلی پروفیسر باراں فاروقی نے بیت بازی کے حوالے سے یہاں کے بچوں میں حرو ف کی پہچان اور الفاظ کی درست ادائیگی کا ایسا ماحول پیدا کردیا ہے کہ سائنس کے طلبہ بھی روانی اور سلاست کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے دکھائی دیں گے۔بچوں کے ساتھ ساتھ ان کے اساتذہ اور کالج کے ذمہ داران اس کوشش کے لیے مبارک باد کے مستحق ہیں۔بیت بازی کے دوران ہی دو طالبات سے (دونوں بہنیں ہیں)ملاقات ہوئی۔ایک کو شکوہ اور دوسری کو جواب شکوہ صرف یاد نہیں ہے بلکہ ان کے پڑھنے کا انداز،لفظوں کی ادئیگی اور اشارے و کناے داد سے پرے تھے۔علامہ کی یہ نظم ان بہنوں کی زبانی سننے کے لیے الہ آباد کا سفر کوئی بھی کرسکتا ہے۔
آج سے چالیس برس پہلے الحمرا فاروقی گرلس انٹر کالج شروع ہوا تھا۔ان برسوں میں تعلیم کے تئیں ان کے خلوص اور محنت ہی ان کی پہچان قرار دی جاسکتی ہے۔اس وقت کالج میں 700طالبات زیر تعلیم ہیں۔کالج کے قرب و جوار میں جو لوگ آباد ہیں وہ ایک عرصہ سے اپنی معاشی اور سماجی پوزیشن کی تنگی اور سختی کے باوجود بچیوں کی تعلیم کے لیے پرعزم ہیں۔سماج کا یہی تعاون کالج کے ذمہ داران کے لیے بھی حوصلہ بخش کہا جاسکتا ہے حالانکہ کالج انتظامیہ بھی مالی اعتبار سے کبھی آسودہ حال نہیں ہوئی لیکن ان کا عزم اور تعلیم کے تئیں ان کی غیر معمولی سرگرمی ہی انھیں مسائل سے نبر د آزماہونے کا حوصلہ فراہم کرتی ہے۔اور انھیں یہ جواز فراہم کرتی ہے چادر کو پھیلاتے جائیں کام یابی عطا کرنے والی اس کی ذات ہے، جس نے اپنی رحمت کے خزانے تمام انسانوں کے لیے کھول رکھے ہیں۔یہی جذبہ یہاں بھی ہے اور ایک نئے سماج کی تعمیر کے لیے کسی تفریق کے بغیر سب لوگ رواں دواں ہیں۔ستمبر میں ہی میاں صاحب اسلامیہ انٹر کالج (گورکھ پور)کے آڈیٹوریم میں بیت بازی مقابلہ دیکھ کر خوشی ہوئی تھی۔الگ الگ سطح کی ٹیموں نے اس مقابلے میں حصہ لیا تھا۔یہاں تک کہ اس مقابلے میں ریسرچ اسکالرتک نے حصہ لیا اور اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا تھا۔ محب اردو محمد حامد علی کی یاد گار کے طورپر بیت بازی مقابلہ اور تمثیلی مشاعرہ کا اہتمام کیاجاتا ہے اورمقابلے میں شریک تمام طلبہ کو انعامات دیے جاتے ہیں۔تمام مقابلے اور پروگرام جس سلیقے اور خوش اسلوبی سے منعقد ہوتے ہیں وہ دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔
لکھنؤ اور اس کے قرب وجوار کے بے شمار اسکولوں میں بچوں کے ایسے بہت سے ثقافتی پروگرام ہوتے ہیں جو اردو زبان کے فروغ کا سبب بنتے ہیں اور یہ کہنا شاید غلط نہ ہوگا کہ اردو زبان کے لیے یہ ایک بہت اہم خدمت ہے کیونکہ اردو کے طلبہ کو جس طرح اشعار پڑھنے اور گفتگو کرنے کی مشق کرائی جاتی ہے وہ ان میں صرف اعتماد ہی نہیں پیدا نہیں کرتی بلکہ اس سے طلبہ و طالبات کی شخصیت میں نکھا ر بھی پیداہوتاہے۔ان دونوں مقامات پر جاکر مجھے خوشی بھی ہوئی اور یہ احساس ہوا کہ کام کرنے والے اپنے اپنے انداز میں اردو کے فروغ کے لیے سرگرم ہیں۔بہت سے چہرے نظر نہیں آتے مگر ان کے کام سے لوگ واقف ہیں۔
شمس الرحمن فاروقی صاحب نے ہمیں اپنی زبان اور ادب پر فخر کرنا سکھایا۔وہ اردو کو کسی طورپر حقیر یا گری پڑی زبان نہیں سمجھتے تھے۔ان کی شخصیت کا اعتماد اور پرعزم لہجہ اردو والوں کے لیے تقویت کا باعث ہوتاتھا۔الحمرا فاروقی گرلس انٹر کالج کے احاطے میں پہنچ کر جب طلبہ و طالبات نے اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ شروع کیا تو فخر وانتساط کے وہی لمحات ذہن کے حافظے پر رقص کرنے لگے۔
اردوزبان کے تئیں فاروقی صاحب کا پر اعتماد لہجہ اور ان کی گفتگو کے بہت سے مواقع یاد آنے لگے۔میر،غالب،اقبال،فیض،اکبر الہ آبادی،جون ایلیا،احمد مشتاق اور بہت سے دیگر شعرا کے اشعار نے جہاں مقابلہ میں شریک طلبہ و طالبات کی یادداشت کے تنوع کا پتا دیا وہیں اشعار پڑھنے کے انداز نے ایک الگ ہی سماں باندھ دیا۔اشعار کو پڑھنے کا ایسا صاف ستھرا انداز کہ ایک ایک حرف واضح رہے اور مقابل ٹیم القط کا استعمال کرکے اپنے لیے بونس پوائنٹ جمع کرلے۔یہ سب بیت بازی کے دلچسپ معرکہ تھے جس پر ٹیم کے ایک ایک فرد نے نگاہ رکھ چھوڑی تھی۔مسعود حسن رضوی ادیب بیت بازی کے قاعدوں میں ’القط‘ کو افادیت سے بھرپور قرار دیتے ہیں۔ان کا خیال ہے کہ جب کوئی ٹیم اپنی مخالف ٹیم کے شعر کو القط کہہ کر کالعدم قرا دیتی ہے تو اس سے بچوں کی توجہ شعر کے معائب کی طرف رہتی تھی۔
بیت بازی مقابلہ میں الہ آباد کے محتلف کالجوں کی چھے ٹیموں نے حصہ لیا۔ پہلا انعام الحمرا فاروقی گرلس انٹر کالج کی ٹیم نے حاصل کیا۔جبکہ دوسرا انعام قدوائی میموریل گرلس انٹر کالج نے۔جب مقابلہ ختم ہوا تو ان بچوں کی حوصلہ افزائی بھی کی گئی اور انھیں نقد انعامات سے نوازا گیا۔اس مقابلہ کا خوش گوار پہلو یہ بھی تھا کہ کالج کے اساتدہ،مہمان خود باراں فاروقی اور دیگر شرکا نے بڑھ چڑھ کر بچوں کو انعامات دیے اوراپنی خوشی کا اظہار کیا۔بچوں کی حوصلہ افزائی کے لیے بطور مہمان خصوصی الہ اباد یونی ورسٹی شعبہ انگریزی کی سابق صدر پروفیسر اسمتا اگروال اور اردو کے مشہور ترقی پسند ادیب اورنقاد پروفیسر علی احمد فاطمی موجود تھے ۔میرے لیے بیت بازی کا مقابلہ نیا نہیں لیکن انٹر کالج کی بچیوں اور بچوں نے جس طرح کے اشعار سنائے اور جس انداز سے سنائے وہ ایک خوش گوار حیرت کا مقام تھا۔مجھے بے پناہ خوشی محسوس ہورہی تھی۔صلاحیتو ں کو نکھارنے اور سنوارنے کی ضرورت ہے اور جو لوگ کہیں دور ہوں انھیں اس طرح کے لوگوں کی ہر طرح سے حوصلہ افزائی کرنی چاہیے تاکہ ہم اپنی تہذیب اور ثقافت پر خوش ہوسکیں۔ان لوگوں کے ساتھ مل کر بچوں کی حوصلہ افزائی اور ان کے شوق کو مزید مہمیز دینے کا کوئی جامع منصوبہ بنانا چاہیے تاکہ اس طرح کے کاموں کو تقویت ملے اور کام کرنے والوں کو حوصلہ کیونکہ اردو کا مستقبل انھیں کے ہاتھوں میں ہے۔