جموں : اس بار دسہرہ کی تیاریاں جوش و خروش کے ساتھ جاری ہیں۔ پنڈالوں میں روشنیوں کا جادو، موسیقی کی گونج اور مجسمہ سازی کی مصروفیات، سب کچھ تہوار کے رنگ کو دوبالا کر رہے ہیں۔ لیکن ان تیاریوں کے پیچھے ایک ایسی کہانی چھپی ہے جو فن، بھائی چارے اور صدیوں پرانی ہم آہنگی کو اجاگر کرتی ہے۔
یہ کہانی میرٹھ کے اُن مسلمان کاریگروں کی ہے جو گزشتہ چالیس برسوں سے جموں آ کر دسہرہ کے لیے دیوہیکل پتلے تیار کرتے ہیں۔ ہر سال، جب رام لیلا کے مناظر اور راون دہن کی تیاریاں شروع ہوتی ہیں تو میرٹھ کے گاؤں سے یہ ہنر مند قافلے کی شکل میں جموں کا رخ کرتے ہیں۔
اتحاد کا قافلہ
محمد غیاث الدین، جو اس سال بھی اپنے ساتھیوں کے ساتھ جموں پہنچے ہیں، بتاتے ہیں کہ ان کا گروپ ہندو اور مسلمان کاریگروں پر مشتمل ہے۔"ہمارے ساتھ ایک ہی گاؤں کے 36 ہندو بھائی اور 16 مسلما ن بھائی ہیں۔ سب مل جل کر پتلے بناتے ہیں یہ صرف فن نہیں بلکہ اتحاد کی علامت ہے۔اگرچہ اس بار وہ پانچ چھ دن کی تاخیر سے جموں پہنچے ہیں اور وقت کم ہے، لیکن پھر بھی وہ دن رات محنت کر کے مجسمے تیار کر رہے ہیں تاکہ 2 اکتوبرسے پہلے تمام پنڈالوں میں دیو ہیکل پتلے نصب کیے جا سکیں۔
ہنر اور ہم آہنگی
غیاث الدین کے مطابق، یہ صرف ایک ہنر ہے جسے کوئی بھی سیکھ سکتا ہے۔ اس کا مقصد کبھی بھی ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان فاصلہ پیدا کرنا نہیں رہا۔ ہم مل جل کر کام کرتے ہیں اور یہی ہماری اصل طاقت ہے۔یہ کاریگر اپنے ہاتھوں سے ایسی مورتیاں تراشتے ہیں جو بعد میں جموں و کشمیر کے مختلف اضلاع کے پنڈالوں کو روشنی اور رنگوں سے جگمگا دیتی ہیں۔
تہوار کا پیغام
جب جموں کے پنڈالوں میں دسہرہ کے موقع پر راون کے پتلے نذرِ آتش کیے جائیں گے تو وہ صرف برائی پر اچھائی کی جیت کی علامت نہیں ہوں گے بلکہ یہ بھی پیغام دیں گے کہ سماج کو ذات پات اور مذہب سے نہیں بلکہ تعاون اور بھائی چارے سے متحد کیا جا سکتا ہے۔یقیناً میرٹھ کے یہ کاریگر دسہرہ کو ایک ایسا جشن بنا دیتے ہی جو صرف ہندوؤں کا نہیں بلکہ پورے ہندوستان کے رنگ، فن اور اتحاد کی روشن مثال ہے۔