محمد ابرار: فری اسٹائل ریسلنگ میں ایک نئی امید

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 19-11-2021
محمد ابرار: فری اسٹائل ریسلنگ میں ایک نئی امید
محمد ابرار: فری اسٹائل ریسلنگ میں ایک نئی امید

 


 سلطانہ پروین:پورنیہ

اگر کسی میں جوش ،جذبہ اور لگن ہو ،تو کامیابی سے اسے کوئی نہیں روک سکتا ۔کوئی رکاوٹ اس کی پیشقدمی کو روک نہیں پاتی۔منزل پانے تک اس کا سفر مشکل ہوسکتا ہے لیکن ناقابل عبور نہیں ہوسکتا ہے۔ اس کی ایک مثال ہیں پورنیہ دھم داہا بلاک میں میرپور کے رہنے والے متوسط ​​گھرانے کے پہلوان محمد ابرار احمد۔ جس نے ایک بڑی جدوجہد اور محنت کے بعد اپنی پہلوانی کا لوہا منوالیا جب انہوں نے ریاستی سطح کی فری اسٹائل ریسلنگ میں 2020 میں کانسی اور 2021 میں 74 کلوگرام کیٹیگری میں سونے کا تمغہ جیت کر بہار کے چمپئن بن گئے۔ 

فری اسٹائل ریسلنگ2021 میں گولڈ میڈل

محمد ابرار74 کلوگرام کیٹیگری میں فری اسٹائل ریسلنگ لڑتے ہیں۔ پچھلے سال جنوری2020 میں انہوں نے ریاستی سطح کی چمپئن شپ میں تیسرا مقام حاصل کرتے ہوئے براونزکا تمغہ جیتا تھا۔ اس کے بعد کڑی  محنت کی اور اس سال2021 میں فری اسٹائل میں ریاستی مقابلے کے چیمپئن قرار پائے۔

محمد ابرارکہتے ہیں کہ وہ صرف محنت کر رہے ہیں۔ ایک دن بہتر کارکردگی دکھانے اور ملک کے لیے کھیلنے کے کا خواب ان کا جنون بنا ہوا ہے۔

 والد ہیں کوچ

ریسلر محمد ابرار کا تعلق ریاست بہار کے ضلع پورنیہ کے گاوں'میرپور' سےہے۔ان کے والد محمد حفیظ الرحمن پیشےسے وکیل ہیں۔ وہ بلاک سطح کی عدالت میں پریکٹس کرتے ہیں۔ حفیظ الرحمن کو بھی ریسلنگ کا شوق ہے۔ پہلے وہ بھی کشتی میں حصہ لیا کرتے تھے۔

محمد ابرار کا کہنا ہے کہ پیسے کی کمی کی وجہ سے وہ اپنے والد سے ریسلنگ کی ٹریننگ لے رہے ہیں۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ آج تک انہوں نے کسی بھی کوچ سے ٹریننگ نہیں لی ہے۔ انہوں نے جو بھی سیکھا اپنے والد سے سیکھا ہے۔

مٹی پر لڑ کربنے چیمپئن

محمد ابرار کہتے ہیں کہ  ریاستی سطح پر کھیلنے کے لیے میٹ(چٹائی) پر لڑنا پڑتا ہے۔ تاہم انہوں نے کشتی کی مشق مٹی پر کی ہے۔ اس لیے انہیں کافی پریشانی ہوتی ہے۔

انہوں نے شکایتی انداز میں کہا کہ ہم جیسے پہلوانوں کے لیے نہ تو ضلعی سطح پر کوئی سہولت ہے اور نہ ہی ریاستی حکومت کوئی سہولت فراہم کرتی ہے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر آپ میٹ پر پریکٹس کرتے ہیں تو آپ قومی سطح پراپنی جیت درج کرا سکتے ہیں۔ابرار کے والد حفیظ الرحمان کا کہنا ہے کہ ہمارے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں کہ بیٹے کے لیے میٹ خرید سکیں۔ اس لیے زمین پر انہیں کشتی لڑنے کی ٹریننگ دینی پڑ رہی ہے۔

 ابرار کی ڈائٹ پر ماہ  40 ہزار خرچ 

ابرار کا کہنا ہے کہ ریسلنگ لڑنے کے لیے اچھا کھانا بہت ضروری ہے۔ اس لیے ہم روزانہ پانچ لیٹر دودھ پیتے ہیں۔ چارپانچ دن میں آدھا کلو کاجو کےعلاوہ آدھا کلو خشک انگور، گھی، چنا اور گڑ کھاتے ہیں۔اس خوراک پر ایک ماہ میں تقریباً 40 ہزار خرچ ہوتے ہیں۔ جن میں سے کچھ گھر والے مدد کرتے ہیں اور کچھ رقم وہ کشتی لڑکر کماتے ہیں۔ کسی نہ کسی طرح وہ ان ضروریات کو پوری کرتے ہیں۔

 حفیظ الرحمان کہتے ہیں کہ ہماری آمدنی ان  کی ضروریات پوری کرنے کے لیے کافی نہیں ہے۔ اس کے بعد بھی ہم ان کی ضروریات پوری کرنے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔

awazurdu

تعلیم کے ساتھ ساتھ کشتی کی ٹریننگ

 ابرار احمد کی عمر 24 سال ہے، انہوں نے بائلوجی میں بی ایس سی کیا ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے ڈاکٹر بننے کے لیے این ای ای ٹی(NEET) کا امتحان بھی دیا تھا لیکن انہیں کامیابی نہیں ملی۔ پڑھائی کے ساتھ ساتھ ریسلنگ بھی لڑتے رہے۔

ان کے والد کا کہنا ہے کہ ابرار نے پڑھائی میں کوئی کمی نہیں کی بلکہ مقابلہ جاتی امتحان کی تیاری بھی کرتے رہے۔

کندھے میں فریچکر

 محمد ابراراحمد کا ایک کندھہ ٹوٹ گیا ہے۔ ڈاکٹر نے آپریشن کا مشورہ دیا ہے۔ لیکن پیسے نہ ہونے کی وجہ سے آپریشن نہ ہو سکا۔ کہیں سے کوئی مدد نہیں ملی اگرچہ انہوں نے  ہر جگہ درخواست دی۔ انہوں نے کہا کہ نہ تو ریاستی حکومت کی جانب سے اور نہ ہی ضلعی انتظامیہ کی جانب سے ان کی مالی مدد کی گئی۔ اس لیے ابھی تک آپریشن نہیں ہوا۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ ان کا جنون ہے کہ کندھے کے ٹوٹنے کے بعد بھی وہ کشتی لڑ رہے ہیں اور جیت رہے ہیں۔

خیال رہے کہ ابرار احمد نے جنوری 2021 میں ریاستی سطح پر گولڈ جیتا ۔ مارچ میں کندھے کا مسئلہ پیدا ہوگیا۔ یکم نومبر2021 کو پٹنہ کے دانا پورمیں ہونے والے ریاستی مقابلے میں انہوں نے دوبارہ ریاستی چمپئن شپ میں حصہ لیا۔ تاہم کندھے کی وجہ سے انہیں میچ کو درمیان میں ہی ترک کرنا پڑا۔

ملک کے لیے کھیلنے کا خواب

محمد ابرار کا کہنا ہے کہ وہ ملک کے لیے کھیلنا چاہتے ہیں۔ اس کے لیے وہ مختلف مسائل کے باوجود کوشش کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ بہت سے ایسے لڑکے ہیں جو کچھ کرنا چاہتے ہیں لیکن سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے انہیں کچھ نہیں ملتا۔ یہ ان کا جذبہ ہے کہ وہ ہر سطح پر لڑ رہے ہیں اور آگے بڑھ رہے ہیں۔اگر انہیں سہولت مل جائے تو وہ نہ صرف ملک کی سرزمین پر بلکہ بیرونی سرزمین پر بھی لڑ کر ملک کا نام روشن کر سکتے ہیں۔