علی گڑھ کی شیروانی ۔ جس نے ایک لیکچرر کو ٹیلر ماسٹر بنا دیا

Story by  اے این آئی | Posted by  [email protected] | Date 17-10-2025
علی گڑھ کی شیروانی ۔ جس نے ایک لیکچرر کو ٹیلر ماسٹر بنا دیا
علی گڑھ کی شیروانی ۔ جس نے ایک لیکچرر کو ٹیلر ماسٹر بنا دیا

 



منصور الدین فریدی / ثاقب سلیم

سر پر ٹوپی،کشادہ پیشانی، چہرے پر داڑھی،آنکھوں میں چمک جبکہ ان کے ہاتھوں میں قینچی ایک لمبی کٹنگ ٹیبل پر کالے کپڑے پر بڑی مہارت کے ساتھ چل رہی تھی ۔ ایک پل کے لیے وہ رکے اور کہا ۔۔۔ میں ڈیپارٹمنٹ آف میکا نیکل  انجینیئرنگ  میں لیکچرر تھا لیکن والد کے انتقال نے سب کچھ بدل دیا ،ایک میکانیکل انجینیئر اپنے خاندانی فن اور پیشے کو زندہ رکھنے کے لیے ٹیلربن گیا ۔۔۔

یہ تھے  انور مہدی ،جن کے لہجے یا آواز میں مایوسی تھی اور نہ ہی پچھتاوا۔ کیونکہ علی گڑھ نہیں بلکہ دنیا انہیں اب شیروانی کے ماہر کے طور پر جانتی ہے ،جبکہ ان کے والد مرحوم کی وراثت ’مہدی حسن ٹیلرس ‘کی چمک دمک  ماضی کی مانند ہے ،جو80 سال سے ایک برانڈ کا نام اورعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی شان ہے،بلکہ ملک و دنیا میں منفرد شیروانی کے لیے مقبول ہے ۔ جس کا ثبوت یہ ہے کہ ملک کے متعدد صدر جمہوریہ ،وزرا اعظم ،سیاسی و سماجی شخصیات کے ساتھ بالی ووڈ کے ستارے بھی ان کی شیروانی کے مداح رہے ہیں ۔

سول لائنز کے تصویر محل علاقہ میں مہدی حسن ٹیلرس میں آواز دی وائس سے بات کرتے ہوئے انور مہدی کہتے ہیں کہ ان کے والد ایک عام درزی تھے اور 1944 کے قریب روزگار کی تلاش میں ممبئی گئے،جہاں ان کی مہدی حسن کی ملاقات شیروانی کے ماہر ٹیلر عبدالرئیس سے ہوئی،جن سے انہوں نے شیروانی بنانے کا فن سیکھا۔ تقسیم سے پہلے  ملک میں شیروانی بہت زیادہ عام نہیں تھی  لیکن علی گڑھ یونیورسٹی میں شیروانی پہننے کا رواج تھا ،اس لیے والد علی گڑھ آگئے ۔جہاں 1947 میں تصویر محل علاقے میں ایک دکان کھول کر حسن ٹیلر کے نام سے کام شروع کیا۔

وہ کہتے ہیں کہ میں نے اے ایم یو میں تعلیم حاصل کی ۔ میکانیکل انجینئیرنگ ڈیپارٹمنٹ میں پروفیسر احتشام احمد نظامی میرے سپر وائزر تھے، میں نے ایم ٹیک کیا۔ جبکہ طالب علمی کے دور میں ہی والد کے ساتھ شیروانی کی کٹنگ میں مہارت حاصل کرچکا تھا ،جبکہ میں نے اس کو 1995 میں ان کے انتقال کے بعد مکمل طور پر سنبھالا ۔ حالانکہ اس وقت میں  میکانیکل ا نجینیئرنگ ڈپارٹمنٹ میں لیکچرر بن چکا تھا، لیکن ایک خاندانی فن کو زندہ رکھنے کے جذبے نے میکانیکل انجینیئرنگ ڈپارٹمنٹ سے ٹیلرننگ شاپ  تک پہنچا دیا ۔اب اس پیسے میں ان کا تجربہ نصف صدی کا ہوچکا ہے۔

شیروانی کی ترک اور مغل جڑیں

شیروانی کے پہلی پسند بننے کے بارے میں انور مہدی نے کہا کہ شیروانی دراصل مغل دور اور بعد میں برطانوی دور  کی ایک ایسی پوشاک ہے جس کی جڑیں ترک اور مغل درباروں کے لباس سے ملتی ہیں۔ اٹومن ایمپائر (عثمانی سلطنت) کے زمانے میں ترکوں کا کوٹ اور ٹوپی بہت مقبول تھے۔ وہی اسٹائل بعد میں ہندوستان میں  کچھ تبدیل ہوا ،کوٹ کو لمبا کر کے ایک نیا روپ دیا گیا، جو ہم آج "شیروانی" کے نام سے جانتے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ انیسویں صدی کے آخر سے لے کر آزادی کے بعد تک، ہندوستان کے زیادہ تر نواب، راجا، اور بڑے زمیندار شیروانی پہنتے تھے۔ ان کے فوٹو دیکھیں تو تقریباً سب شیروانی میں نظر آئیں گے، یہیوجہ یہ تھی کہ یہ لباس وقار اور شان کی علامت سمجھا جاتا تھا۔

انور مہدی کے مطابق جہاں تک علی گڑھ کا تعلق ہے،  تعلیمی ماحول اور مسلم اشرافیہ کے اثر سے شیروانی ایک تعلیمی اور تہذیبی وقار کا حصہ بن گئی۔ اس لیے اکثر کہا جاتا ہے کہ "علی گڑھ شیروانی" دراصل انڈین ایلیٹ کلچر کا نشان بن گئی ، چاہے وہ ڈاکٹر ہوں، سیاست دان ہوں یا اسکالر۔ میں کہہ سکتا ہوں کہ  شیروانی ایک لباس نہیں، بلکہ ثقافت، تاریخ اور شناخت کی نشانی ہے۔

صدر جمہوریہ سے بالی ووڈ تک

وہ کہتے ہیں کہ  بڑے قومی  لیڈرز جیسے پنڈت جواہر لعل نہرو نے شیروانی کو اپنایا،بعد میں کئی صدورِ ہند  بشمول ڈاکٹر راجندر پرساد، ڈاکٹر ذاکر حسین اور  ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام نے بھی شیروانی پہنیں، انور مہدی کہتے ہیں کہ مہدی حسن ٹیلرس کو اس بات کا اعزاز حاصل ہے کہ ملک کے متعدد صدر جمہوریہ اور دیگر اہم شخصیات کی شیروانی انہیں کی تیار کردہ رہی ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں انور مہدی نے مسکراتے ہوئے کہا کہ یہ ہمارے لیے ایک اعزاز ہے،ہماری پہچان بھی ہے ۔ کیونکہ  ان میں سابق صدر وی وی گری ،آر وینکٹ رمن ،ڈاکٹر اے پی جے عبد الکلام، مرحوم صدر پرنب مکھرجی، سابق صدر رام ناتھ کووند، سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ، مختلف ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ جیسے مفتی سعید، این ڈی تیواری، فاروق عبد اللہ، اس کے علاوہ گورنر عارف محمد خان، سید سبط رضی، اور دیگر ممبر پارلیمنٹ  بھی  مہدی حسن  ٹیلرس کو پہلی پسند مانتے رہے ہیں ۔یہی نہیں اس کے  ساتھ ساتھ سپریم کورٹ کے ججز بھی  علی گڑھ کی شیروانی پسند کرتے ہیں ۔

سر سید ڈے سے قبل شیروانی کے آرڈرز کو بر وقت مکمل کرنے میں مصروف  انور مہدی نے کالی شیروانی کی قینچی چلاتے ہوئے کہا کہ جب ڈاکٹر ذاکر حسین  جامعہ ملیہ اسلامیہ کے وائس چانسلر تھے تو میرے پھوپھا ڈیپارٹمنٹ آف اسلامک اسٹڈیز میں تھے۔جنہوں نے ذاکر حسین کو میرے والد مرحوم سے متعارف کرایا تھا ، اس کے بعد ذاکر حسین  بہار کے گورنر، پھر ملک کے نائب صدر اور آخرکار صدرِ جمہوریہ ہند بنے ،جبکہ ان 18 سال کے دوران ڈاکٹر ذاکر حسین کے لیے  ریکارڈ کے مطابق 178 شیروانیاں سلائی کی گئیں۔ جو ہمارے معیار کا ثبوت ہے ۔

 بالی ووڈ کی بات نکلی تو انورمہدی بتاتے ہیں کہ مجروح سلطان پوری کو شیروانی بہت پسند تھی،ان کے علاوہ جاوید اختر اور راج ببر بھی ان کی تیار کردہ شیروانیاں استعمال کر تے رہے ہیں ۔حال ہی میں سیف علی خان کی شیروانی بھی انہی کی تیار کردہ تھی ۔وہ کہتے ہیں کہ ایک دن سیف علی خان کی والدہ کی کال آئی  تھی ۔ انہوں نے درخواست کی تھی کہ سیف علی خان لکھنو میں ہیں ،ان کی شیروانی کا ناپ لے لیں ۔ جس کے بعد سیف علی خان نے کال کی ،جس کے بعد میں  لکھنو گیا،شیروانی کا نام لیا،شیروانی کا ڈرائل ممبئی میں لیاتھا۔جس کے بعد  سیف علی خان کی شیروانی تیار ہوئی  ۔

شیروانی کے لیے جوش و جذبہ

انور مہدی نے آواز کو بتایا کہ اگراے ایم یومیں شیروانی کی بات کریں تو اس روایتی لباس کے لیے نوجوانوں میں وہی جوش و جذبہ ہے جو ماضی میں تھا ،ان کا کہنا ہے کہ سر سید ڈے کے پیش نظر اس میں اضافہ ہوجاتا ہے ،کیونکہ یہ دن اے ایم یو کے لیے عید سے کم نہیں ہوتا ہے ،وہ کہتے ہیں کہ شیروانی ایک ایسا لباس ہے جس کے لیے  ہر دور میں جوش و احترام رہا ہے اور یہ کبھی ختم ہونے والا بھی نہیں -