شیخ ولی داد کے سفر حج کی دلچسپ داستان

Story by  عمیر منظر | Posted by  [email protected] | Date 31-05-2025
 شیخ ولی داد کے سفر حج کی دلچسپ داستان
شیخ ولی داد کے سفر حج کی دلچسپ داستان

 



       ڈاکٹر عمیر منظر

شعبہ اردو

     مولانا آزاد نیشنل اردو یونی ورسٹی لکھنؤ کیمپس۔لکھنؤ
 
شیخ ولی داد کٹنی (مدھیہ پردیش)کے رہنے والے تھے۔ریلوے میں اسٹیشن ماسٹر کے عہدہ پر فائز تھے۔عرصے سے انھیں اشتیاق تھا کہ حج کا سفر نصیب ہوجائے اور اگر دیگر مقامات مقدسہ کی زیارت کا موقع مل جائے تو کیا کہنے۔ ملازمت اور دیگر ذمہ داریوں کی وجہ سے بظاہر اس کے آثار کم نظر آرہے تھے مگران کی تلاش و جستجو جاری رہی یہاں تک کہ 1934میں ”مسلم ٹریڈنگ کارپوریشن کمپنی لمٹیڈ۔دہلی“کے توسط سے وہ خشکی کے راستے بذریعہ موٹر مکہ مکرمہ کے لیے روانہ ہوئے۔اس کمپنی نے مکہ،مدینہ اور دیگر مقامات مقدسہ یعنی مشہد،بغداد،کاظمین،کربلا،نجف اور بیت المقدس وغیرہ کی زیارت کا بھی ذمہ لیا تھا۔ کمپنی کی گائیڈ بک اور اس کا اشتہار سحر انگیز تھا۔کوئی بھی اسے پڑھ کر تڑپ اٹھتا۔یہی وجہ ہے کہ خشکی کے سفر کو لوگوں نے ترجیح دی۔
اشتہار کی چند سطریں ملاحظہ فرمائیں:
ہر موٹر بس میں صرف سولہ (16)سیٹ ایسی بنائی جانا تجویز ہوئی ہیں جن کی وسعت گود میں ہر دس شخص بافراغت ہر وقت گود مادر کی طرح آرام کرتے ہوئے سفر کرسکیں گے۔ہر سیٹ میں ایسے لچکدار اسپرنگ ہوں گے کہ گہوارہ کی نظریں بھی شرماجائیں۔ہر سیٹ اوپر سے اس قدر ملائم کہ اس پر لیٹ کر دس گھنٹے مسلسل سفر کرنے والوں کو کروٹ بدلنے کی ضرورت نہ ہوگی۔ہر سیٹ میں ایک ایسا چورخانہ مقفل ہوگا جو نہایت پوشید اور نہایت مضبوط ہوگا...موٹر بس کے اندر ایک انگیٹھی ایسی بنائی جانا تجویز ہوچکی ہے کہ کہ وقت ضرورت وہ تمام گاڑی کو گرم رکھے اور روشن دان ایسے ایجاد کیے گئے ہیں کہ جو بیرون روشنی کو نہ روکیں لیکن تمازت آفتاب کو قطعاً روک دیں۔(حج بذریعہ موٹر ص 3)
حج کا یہ سفر تقریباً4485میل کا تھاجو 42دن میں طے ہوا۔یہ ایک ایسا اذیت ناک سفر تھا جس میں جسمانی و روحانی دونوں طرح کی پریشانیاں لاحق رہیں۔ریگستانوں میں راہ بھٹکنے والوں کی کہانی بہت لوگوں نے پڑھی ہوگی لیکن پہلی بار کوئی بذات خودان پریشانیوں کا سامنا کررہا تھا۔مایوسی و نامرادی کے بادل کتنی بار آئے اور یہ محسوس ہوا کہ اب ہم بھی نذر صحراہوجائیں گے لیکن مشیت الہی کو کچھ اور ہی منظور تھا۔حج کے اس سفرنامے میں سب کچھ ہے مگر حج ہی نہیں کیوں کہ حاجیوں کا قافلہ اس وقت مکہ پہنچتا ہے جب وقوف عرفہ گزرجاتا ہے۔اس کے لیے  وہ کمپنی قصور وار ہے جس نے شاعرانہ انداز میں اپنی خدمات کا اشتہار نکالا تھا مگر عملاً اس کا عشر عشیر بھی نہیں کرسکی۔اسی لیے اس سفرنامے میں راستوں کا بیان زیادہ ہے۔قدرتی مناظر،ریگستان کی ہولناکیاں اور برفیلی زمینوں کی پریشانیوں کے بارے میں بیان کرتے ہوئے مصنف کے جذبات بھی شامل ہوجاتے ہیں۔تاریخی مقامات،مزارات اور دیگر مشہور جگہوں کے بارے میں مصنف کا مشاہدہ اور مطالعہ قابل رشک ہے۔ریاض میں گورنر کی طرف سے تواضع اور مہمان نوازی نے مسافروں کا دل جیت لیا۔یہ علاقہ بدوؤں کا ہے جن کا پیشہ ہی ڈاکہ و رہز نی تھامگر موجودہ حکومت نے سب کودرست کررکھا ہے،جس کی وجہ سے حاجیوں کے قافلے بے خوف وخطر سفر کررہے ہیں۔
یہ سفر”مسلم ٹریڈنگ کارپوریشن کمپنی“کی دھوکے بازی کا اعلی نمونہ ہے،جس کا اندازہ بھی مسافروں کو ہوگیاتھا مگر اب کوئی چارہ نہیں تھا۔لاریوں میں نہ سامان رکھنے کی گنجائش تھی نہ بیت الخلا کا انتظام۔سلیقے سے بیٹھنے اور آرام کرنے کی سہولت بھی نہیں تھی۔سیٹ کے بجائے پنچ تھی۔تین کے بجائے دو لاری لے جانی کی کوشش کی گئی تو مسافروں نے جانے سے ہی منع کردیا۔ تب کہیں جاکر تین لاریوں اور ایک کار پرمشتمل قافلہ روانہ ہوا۔                                                                                           9فروری 1934کوحج کے لیے روانہ ہونا تھامگر روانگی 16فروری کو ہوئی۔ قافلے میں ایک گاڑی مکینکل انجینئر، اسٹاف،مرمت موٹر بس کے سازو سامان اور ایک گاڑی میں تمام طبی سہولتیں ماہر ڈاکٹر کے ساتھ ہوں گی۔مگر ان سہولتوں کافقدان ہی رہا،جس کی وجہ سے سفر میں سخت ترین دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا۔
شیخ ولی داد 12فروری 1934کو کٹنی سے روانہ ہوئے۔ 14فروری کو دلی پہنچے۔ سفر کی ضرو ری کارروائی اورموٹر کمپنی کو دو قسطوں میں 474روپے ادا کیے۔چونکہ سفر خشکی کے راستے کا تھا اس لیے پاسپورٹ بھی ساتھ رکھا،جس کی مختلف سرحدوں پر تصدیق کی گئی۔16فروری4 193کوشام پانچ بجکر 35منٹ پرکئی ہزار آدمیوں نے پھولوں کی بارش اور اللہ ہو اکبر کے نعروں کے ساتھ حجاج کو رخصت کیا۔
مسافروں کے جذبے اورحوصلے نے سخت پریشانیوں اور مسائل کے باوجود یہ واضح کردیا ہے کہ وہ جس عظیم مقصدکے لیے گھر سے روانہ ہوئے ہیں اس کے سامنے یہ ہیچ ہیں۔ان کے استقلال میں ایک لمحے کے لیے بھی کمی نہیں آئی۔ لاریوں اورمسافروں کی حالت زار،شہروں کے رنگ،مناظر فطرت کی رنگینیاں،کھانے پینے کی چیزیں،صحرائی سفراور مقامات مقدسہ سے دلچسپی کا اظہار اس طرح کیا گیا ہے کہ سفر کی ایک ایک چیزذہن میں تازہ ہوجاتی ہے۔کوئٹہ کے قرب و جوار کے مناظر کا نقشہ اس طرح کھینچا گیا ہے۔
پہاڑی راستوں کے عجائبات اور برف کی پھیلی ہوئی چادر یں دیکھتے ہوئے صاف اور شفاف سڑک سے گذرتے ہوئے جارہے تھے جب شہر کوئٹہ صرف تین مل رہ گیا تو مختلف جگہ باغات،سیرگاہیں اور عمارتیں دکھلائی دینے لگیں... یہ ایک بڑا پر رونق شہر ہے...سڑکیں صاف و شفاف،دوکانیں خوب صورت،سجاوٹ انگریزی،بمبئی کا سابازار معلوم ہوتا تھا۔ہوٹل بہ کثرت ہیں جن میں روٹی بڑی گز بھر کی مدورملتی ہے جس کو دوآدمی پیٹ بھر کر کھاسکتے ہیں۔ (ص19۔20)
نوشکی سے دشت سیستان کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔یہاں ”پہاڑیوں کے درمیان بڑے بڑے میدان  سراب کی شکلوں میں پانی کا دھوکا دیتے ہوئے نظر آتے ہیں“۔آگے چل کر جب ریتیلی زمین کا سلسلہ شروع ہوتا ہے تو لاریاں اس میں پھنسنے لگیں۔ لاریاں آٹھ یا نو بار ریت میں پھنسیں اور بہت سا وقت خراب ہونے کے بعد کھینچا تانی سے راستہ طے کیا“۔ دال بندین سے کچھ آگے اسماعیلیہ ریلوئے اسٹیشن ہے۔”تین بجے دن تک دس بارہ مرتبہ ریت میں پھنسنے،سواریوں کے ہر بار اترنے چڑھنے اور سخت دھکا دھکیلی کے بعدکچھ سخت زمین نظر آئی“۔(ص 23)لاریوں کے سفر کا ایک پریشان کن مرحلہ وہ بھی آتا تھا جب ان کا پٹرول ختم ہوجاتا۔ دوڑ دھوپ اور کبھی کبھی پورے دن کی بھاگ دوڑ کے بعد کہیں پٹرول ملتاتھا۔یہ سب بد انتظامی کی وجہ سے ہورہا تھا۔ایران میں داخل ہونے کے بعدجہاں ایک طرف پاسپورٹ کی تصدیق کی گئی وہیں دیگر اشیا کا بھی معائنہ کیاگیا مگر حکام بہت نرمی کے ساتھ پیش آئے۔ چونکہ یہاں ایرانی سکے رائج ہیں اس لیے انگریزی سکوں کو تبدیل کرنا پڑا۔پانچ انگریزی روپے کے کبھی 29۔کبھی 27تو کبھی 25قران ملے۔چونکہ ایران سے انگریزی عملداری ختم ہورہی تھی اس لیے ٹریڈننگ کارپوریشن کمپنی نے یہاں سے ایک لاری واپس کردی۔کمپنی کو اندازہ تھا کہ یہاں مسافروں کی کوئی سنوائی نہیں ہوگی اور وہ جو چاہیں گے وہی ہوگا اور ایسا ہی ہوا بھی۔ یہاں سے مسافروں کو کسی اور ذریعے سے جانا آسان بھی نہیں ہے۔دشت لوط،سفید آباد ہوتے ہوئے تربت حیدری پہنچے۔اب چونکہ ایک لاری واپس جاچکی تھی اس لیے انتہائی ناکافی جگہ میں ایک دوسرے سے تقریباًلپٹے ہوئے بقیہ سفر طے ہوا۔ناہموار راستوں کی وجہ سے گاڑی نے اس طرح اچھا ل لیا کہ جس کے جھٹکے سے شیخ ولی داد کا سر گاڑی کے چھت سے جاٹکرایا اور اور چھت کا تختہ پھٹ گیا۔سر میں شدید چوٹ کی وجہ سے وہ بیہوش ہوکر گرپڑے۔گردن کی نسیں سخت درد کرنے لگیں۔ڈاکٹر کو بلایا گیا۔بقول ولی داد ”ڈاکٹر کو بلوایا گیا مگر مطلق پرواہ نہ کی“۔زخمی حالت میں آگے کا سفر جاری رہا۔مشہد امام رضا علیہ السلام کا مزار ہے۔شہر کو بارونق اورصاف ستھرابتایا گیاہے۔سمنان اگرچہ ہموار ز مین پر ہے مگر یہاں برف کا سلسلہ خوب ہے۔پہاڑیاں اور زمین برف سے ڈھکی ہوئی ہیں۔”برف کے تودے کے تودے گھل گھل کر چشمے کی صورت میں بہہ رہے تھے“۔بقول ولی داد
برف برابر پگھلتا اور بہتا نظر آتا ہے چھوٹی چھوٹی نالیاں جا بجا بنی ہوئی ہیں۔ سڑک کے مزدور ہمیشہ صاف کرتے رہتے ہیں۔آب رواں کے لیے جابجا پل بنے ہوئے ہیں اور پانی ہمیشہ جاری رہتا ہے۔پہلے تو ہم لوگ بیس بیس میل تک چڑھائی پر چلے گئے۔پھر اتنا ہی راستہ اوترائی پر طے کرنا پڑا۔ (ص35)
طہران میں پاسپورٹ کی تصدیق کے لیے دودون صرف ہوگئے اگر پہلے سے یہ وقت معلوم ہوتا تو لوگ بزرگوں کے مزارت کی زیارت کرلیتے،جس کا انھیں افسوس بھی رہا۔شہر اور یہاں کی روٹی دونوں قابل دید ہیں۔سڑکیں نہایت صاف و شفاف ہیں۔یہاں کی روٹی ایک گز لمبی اور آدھ گزچوڑی ہوتی ہے۔جس طرح ہمارے یہاں کندھوں پر کپڑا رکھ کر فروخت کرتے ہیں اسی طرح ایران میں یہ روٹیاں فروخت ہوتی ہیں حالانکہ یہاں گرانی بہت ہے۔کنویں کم ہونے کی وجہ سے شہر میں پانی کی قلت بھی ہے۔ولی دادکی یہ سطریں بہت حیرت انگیز ہیں۔وہ لکتے ہیں
 کتاب کا سرورق ایک علامتی تصویر کے ساتھ

اس شہر میں ہر ملک کے لوگ آباد ہیں۔عورتیں مردوں کی بہ نسبت قدرتاً صاف ہیں۔پردہ موجود ہے مگر برقعہ پوش عورتیں بازاروں میں علانیہ پھرتی ہیں۔عموماً ہر سودا یہی خریدتی ہیں...برقعوں میں 6انچ لمبے چار انچ چوڑے کاغذ کے پٹھے کے نقاب چہروں پر برائے نام ہوتے ہیں۔قہوے خانوں میں مردوں کے پہلو بہ پہلو بیٹھتی ہیں۔گپ بازی میں بہت زیادہ حصہ لیتی ہیں اور 
سر بازار سگریٹ پیتی ہیں۔بنت عنب عرق کے نام سے علانیہ فروخت ہوتی ہے (ص 38)
 
طہران سے ہمدان جاتے ہوئے راستے میں برف کی وجہ سے سخت مشقتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ولی داد کا خیال ہے کہ سرد ملکوں میں رہنے والے بڑے محنتی ہوتے ہیں۔شاید یہی وجہ ہے کہ راستے میں کئی جگہ برف میں پھنسی لاریوں کو  رسے میں باندھ کر ان لوگوں نے کھینچ لیا۔راستے میں جابجا آبشاروں اور آب رواں کے مناظر کا لطف بھی ہے۔سفرنامے میں شیریں و فرہاد کی یادگار ”کوہ بے ستون“ یکھنے کاذکرہے۔اس کے نیچے صاف و شفاف نہر جاری ہے، جس کا پانی بہت میٹھا ہے اسی کو نہر شیریں و فرہا د بھی کہتے ہیں۔
پہاڑ کے بائیں جانب کتبہ فرہاد دیکھا جو فرہاد کے ہاتھوں کا تراشاہوا ہے۔یہ کتبہ آدھے پہاڑ کی بلندی پر ہے وہاں جاکر دیکھا بہت بڑی صنعت سے کام لیا ہے اس میں شیریں و فرہاد کا مجسمہ اور بادشاہ کا دربارکندہ کیا گیا ہے۔اس مجسمہ میں کچھ عبارت بھی تحریر ہے جو بالکل پڑھی نہیں جاتی۔مگر تصویریں صاف نظر آتی ہیں۔ہم کئی اوس اونچائی تک گئے اور دیکھا کہ عبارت پڑھنے میں نہیں آرہی ہے۔اس پہاڑ کو بے ستوں اس وجہ سے کہتے ہیں بہت اونچا اور سیدھا کھڑا نظرآتا ہے اس کی پشت پر چشمہ حیدری واقع ہے یہاں اس کے متعلق یہ روایت مشہور ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہ نے پانی کی قلت ملاحظہ فرماکر اپنا نیزہ اس مقام پر گاڑا تھا جس کی وجہ سے پانی جاری ہوگیا۔(ص41)
قصر شیریں ایرانی سرحد کا آخری شہر ہے۔قصر شیریں شہر سے ایک میل کے فاصلے پر منہدم حالت میں موجودہے۔یہ قلعہ ہزاروں برس پرانا ہے۔اس کے آثار اب بھی باقی ہیں۔یہ عمارت قدیم صناعی کا اعلی ترین نمونہ ہے۔ سرحد پر پاسپورٹ کی تصدیق بھی ہوئی جس میں خاصا وقت لگا نیزیہاں پر کرنسی بھی تبدیل کی گئی۔عراقی کسٹم افسران کو جب یہ معلوم ہوا کہ ہم لوگ مکہ جارہے ہیں تو ان لوگوں نے ممکنہ سہولت اور رعایت دی۔یہاں کا علاقہ بہت سرسبز اور شاداب ہے۔یہاں گیہوں اور مختلف اناج کی کھیتیاں بھی نظر آئیں۔بغداد شہر کے وسط میں دریائے دجلہ کے نظارہ نہایت متاثر کن تھا۔حجاج نے دریائے دجلہ میں غسل کیا۔شہر کے انتظام و انصرام کو ولی داد نے بہت سراہا ہے۔شہر میں ہوٹل،قہوہ خانے اور وقت گذاری کی بہت سی جگہیں لوگوں سے آباد ہیں۔تفریح و تبادلہ خیال کے لحاظ سے بھی یہ جگہ بہت موزوں ہے۔کھانا ایران سے سستا ہے۔سفرنامہ نگار نے لکھا ہے کہ ”ہندستان چھوڑنے کے بعد دودھ کی مزیدار چائے بغداد میں ہی ملی“۔بغداد کی بندرگاہوں پر دیگر ممالک سے تجارتی مال کشتیوں کے ذریعے آتا ہے۔بصرہ کی بندرگاہ کو پرشین گلف کاآخری بندرگاہ کہا جاتاہے۔بصرہ سے دس میل چلنے کے بعد ایک وسیع وعریض میدان ملا جس کے بارے میں بتایا گیاکہ یہ جنگ جمل کا میدان ہے۔یہاں ایک مسجد،مسجد حیدری کے نام سے ہے،جو قدیم عربی طرز تعمیر کا بہترین نمونہ ہے۔عراق کا آخری سرحدی تھانہ زبیر ہے۔اس سے کچھ پہلے حسن بصری کا مزار ہے۔یہاں سے کویت پہنچے۔یہاں بصرہ و بغداد کی بہ نسبت چیزیں ارزاں ہیں۔ہندستان کا سکہ یہاں رائج ہے۔یہیں ذی الحجہ کا چاند بھی نظر آیا۔اشتیاق اور بڑھ گیاکہ جلد از جلد مکہ پہنچ جائیں۔مگر آگے چل کر ریت کا سلسلہ جو شروع ہوا تو پھر ایک مرتبہ لاریاں پھنسنے لگیں۔18مارچ سے 21مارچ کا سفر سب سے اذیت ناک رہا۔ریگستان کا سفر انتہائی جان لیوا ثابت ہوا۔ہر طرف ریگستان کے سمندر تھے۔بارہا پھنستے نکلتے رہے۔گاڑی سے اتر کر دھکے لگاتے۔پہیوں کے نیچے ڈیڑھ ڈیڑھ فٹ ریت نکال کر زمین ہموار کرتے اس کے نیچے لوہے کی چادریں بچھاتے۔بیسویں بار اسی طرح کی صورت حال سے دوچار ہونا پڑا۔ ریگستان کی وجہ سے پانی کی قلت ایک الگ مسئلہ تھی۔تیز ہوا کی وجہ سے راستہ برابر ہوجاتا کچھ پتا ہی نہیں چلتا کہ راستہ کہاں گم ہو گیا۔ میلوں کاچکر کاٹ کر واپس ہوتے۔تین دن تک نماز تیمم سے ادا کی گئی۔صورت حال کی سنگینی کا اندازہ ان سطور سے لگایا جاسکتاہے۔
ریت ناقابل عبور،زندگی سے مایوسی،کھانے کی کمی،پانی کی قلت،عجب کشمکش میں جان تھی،اس مقام پر کئی گھنٹے ٹھہرنے کا یقین ہوگیا۔ہم سب مسافر و ملازم یکساں کام کررہے تھے کہ کسی طرح جلد نجات ہوجائے۔قطرہ قطرہ پانی مثل کربلا کے تریاق تھا۔رسد کی کمی الگ پریشان کیے ہوئے تھی۔موٹر کی ٹنکیوں اور مشکیزوں کا پانی بھی جواب دے چکا تھا۔اس حالت سکرات میں یہ شعر ہمارے حسب حال تھا۔
پتلیاں تک تو پھری جاتی ہیں دیکھو دم نزع
سیہ بختی میں کب کوئی کسی کا ساتھ دیتا ہے   (ص61)
متواتر بارہ گھنٹے کی تلاش کے بعد راستہ ملا۔سولہ گھنٹے میں صرف 49میل کا راستہ طے ہوسکا۔۔پانچویں رات بھی جنگل میں گزاری گئی۔21مارچ کا دن بھی قیامت کا تھا۔سفرنامہ نگار لکھتاہے”خوراک جو کچھ پاس تھی مل ملا کر بطور دوا کھاتے پیتے چلے جارہے تھے“شام چھ بجے ”حرما“کے مقام پر پانی ملا جہاں مسافروں نے ”پانچ دن کی نجاست دور کی“۔22مارچ کو ریاض پہنچے۔یہاں بھی ریگستانی راستوں نے بہت پریشان کیا۔بلکہ ایک رات تو ریگستان میں ہی گزارنی پڑی۔بد انتظامی کی وجہ سے پٹرول اور پانی دونوں کی قلت کا سامنا کرنا پڑا۔دو بجے دن میں میقات پر پہنچے تو جان میں جان آئی۔یہیں پر دورکعت نماز ادا کی۔ساڑھے پانچ بجے جبل نور پر پہنچے۔28مارچ 1834کو جب یہ لوگ مکہ پہنچے تو اس وقت لوگ عرفات سے شاداں و فرحاں اپنے فرض کی ادائیگی کرکے لوٹ رہے تھے۔
حج کے بعداگرکوئی مکہ پہنچے تو اس کی حالت کا اندازہ کیا جاسکتاہے۔اس کے باوجود کہ ایک لمبے اور نہایت پریشان کن مراحل طے کرکے مکہ پہنچے ہیں فوراً ہی شوق اشتیاق نے انھیں کعبے میں حاضری پر مجبور کردیا۔شیخ ولی داد نے یہ عزم کیا کہ وہ حج کرکے ہی واپس جائیں گے اس لیے انھوں نے حکومت ہند کو باقاعدہ رخصت کی درخواست بھیجی اور یہاں بادشاہ کو بھی۔شیخ ولی داد نے کتاب کے بقیہ حصہ میں عرب کے موسم،معاشرت،آب و ہوا اور دیگر مقامات مقدس کے بارے میں اپنی رائے دی ہے۔ان کا خیا ل ہے کہ یہاں کی آب و ہوا بہت کم فاصلے پر تبدیل ہوجاتی ہے۔شہرمکہ کے مقدس مقامات جن میں جبل ابو قبیس،مولد النبی،مولد حضرت علی ہیں۔ اسی طرح بیرون شہر میں جبل ثور،جبل نور،جنت المعلی وغیرہ کا تعارف پیش کیا ہے۔جو اس ز مانے کے لحاظ سے یہ تحریر خاصی اہم قراردی جاسکتی ہے۔شیخ ولی داد نے ہندستان کے غریب عازمین حج کے لیے بھی منتظمین کے سامنے ایک نئے راستے کا تعارف کرایا ہے تاکہ وہ کم خرچ میں حج بیت اللہ کرسکیں۔جدہ کے راستے مکہ مکرمہ کی زیارت کرنے والوں کی ایک فہرست سفرنامہ نگارمسلم ورلڈ کے ایک نامہ نگار کے حوالے سے لندن میں واقع سعودی عرب کے سفارت خانے سے حاصل کی ہے۔یہ 1928سے 1933کے درمیان کے اعداد و شمار ہیں۔اس کے مطابق 1928 میں ہندستان سے 13781لوگ گئے تھے۔عربوں کی طرز معاشرت کے بارے میں لکھا ہے کہ ان کے یہاں ہر گفتگو صلی علی نبی سے شروع ہوتی ہے اور اسی پر ختم ہوتی ہے۔سعودی حکومت کے انتظامات کی تعریف کرتے ہوئے لکھا گیا ہے کہ وہ بدوجو راہ چلتے مسافروں کو لوٹ لیا کرتے تھے اب دور بھاگتے ہیں۔اسلامی حکومت اور اس کے قانون کے بہت سے دلچسپ نظاروں کا بھی ذکر کیا ہے کہ جس کی وجہ سے معاشرہ میں برائی اور خرابی بہت کم ہے۔شہرطائف اور مدینہ کا ذکر بھی نہایت جذباتی انداز میں کیا گیا ہے۔اس وقت حجاز کا ایک اہم مسئلہ گداگری تھا اس کے انسداد کی بھی کچھ تدبیریں دی گئی ہیں۔والی حیدرآباد دکن نے مدینہ میں کپڑے کا کارخانہ کھولا سیکڑوں بیکار مرد اور عورتوں کوکپڑا بننا سکھا رہے ہیں۔مکہ کے بارے میں حسن الدین خاموش نے رائے دی ہے کہ یہاں پر صناعی حجاز کو ترقی دی جائے اور کوشش کی جائے کہ حاجی یہاں کی بنی اشیا ہی خریدیں۔ شرفائے عرب اور ان کے مختلف قبائل کے احوال بھی درج ہیں۔یہ سفرنامہ ”حج بذریعہ موٹر“مکہ میں ہی دوستوں کے اسرار پر مکمل کرکے اخبار ”دلچسپ“کے ایڈیٹر مولانا حاجی حسن الدین خاموش کے ذریعے عزیزی پریس آگرہ سے 1935 میں شائع ہوا۔مصنف نے اس سفرنامہ میں لکھا ہے کہ دوسرے حصے میں بقیہ حالات تفصیل کے ساتھ بیان کیے جائیں گے۔لیکن کیا اس سفرنامے کا کوئی دوسرا حصہ شائع ہوا ہے آج تک نہیں معلوم ہوسکا۔