منصور الدین فریدی :نئی دہلی
مغل گنگا جل کو آب حیات مانتے تھے
پکوانوں کے لیے بارش کا پانی استعمال کرتے تھے
مغل صرف گوشت خور نہیں تھے،شاہی دستر خوان پر سبزیوں کی رونق بھی ہوتی تھی
ہندووں کے مذہبی جذبات کے احترام میں گائے کا ذبیحہ نہیں تھا
طبی اہمیت کی بنیاد پر سونے چاندی یا دیگر دھات کے برتنوں کا استعمال ہوتا تھا
آج مغل کے نام پر سب کچھ بک رہا ہے لیکن اس میں مغل کچھ نہیں
مغلائی پکوانوں کی ممتاز تاریخ داں سلمیٰ یوسف حسین کی چار دہائیوں کی تحقیق میں ایسے بہت سے نکات کسی انکشاف کے طور پر سامنے آئے ہیں۔جن سے مغل بادشاہ پکوانوں کے معاملہ میں تو بے انتہا شوقین،قدر دان اور معیاری ثابت ہوتے ہیں لیکن ساتھ ہی ان کے حساس ہونے کا بھی ثبوت ملتا ہے کیونکہ مغل دسترخوا ن پر گائے کے گوشت کو کبھی ترجیح نہیں دی گئی بلکہ اس کا ذبیحہ بھی نہیں ہوتا تھا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ گوشت خوری کے لیے مشہور کئے گئے مغل دستر خوان بھی سبزیوں کے بغیر مکمل نہیں ہوتے تھے۔بات واضح ہے کہ مغل ذائقے کے غلام تھے لیکن یہ صرف گوشت کا ذائقہ نہیں ہوتا تھا بلکہ سبزیوں اور مشروبات کا بھی ذائقہ بھی تھا
سلمیٰ یوسف حسین کی مغلائی اور ہندوستانی پکوانوں پر کی گئی تحقیق کئی تفصیلی اور خوبصورت کتابوں کی شکل میں سامنے آچکی ہے،ان کتابوں کو دنیا بھر میں مغلائی پکوانوں کی مانند ہاتھوں ہاتھ لیا گیا اور سراہا گیا ہے۔ اس کا ایک سبب یہ ہے کہ یہ تحقیق کسی کمرے میں مکمل نہیں ہوئی بلکہ اس کے لیے انہوں نے کئی سفر کئے،مختلف ممالک کی لائبریوں کا رخ کیا،خاص طور پر فارسی کی کتابو ں اور دستاویز کا مطالعہ کیا ۔ جب کئی سال کی محنت کتابوں کی شکل میں سامنے آئی تو دنیا دانثوں تلے انگلی دبانے پر مجبور ہوگئی۔ کیونکہ سلمیٰ یوسف حسین نے مغل اور ہندوستانی پکوانوں یا کھانوں کے تعلق سے جہاں نئے انکشافات کئے وہیں متعدد غلط فہمیوں کو دور کیا ۔ کھانوں کے معیار کی ان باریکیوں کے بارے میں دنیا کو آگاہ کیا جو روغن کے سمندر میں مغل بادشاہوں کے چہرے تلاش کرتی رہی ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ فارسی میں پوسٹ گریجویٹ ہوں اور میرا پہلا کام مقامی نوابوں اور راجاؤں کے درمیان برطانوی حکام کے ساتھ خط و کتابت اور (1857) بغاوت کے کاغذات کا ترجمہ کرنا تھا۔ اس سے مجھے ہاتھ سے لکھی ہوئی فارسی دستاویزات کو پڑھنے کا تجربہ ہوا۔ چونکہ میرا کام تحقیق پر مبنی تھا میں نے مختلف لائبریریوں کے مختلف کیٹلاگ دیکھنے کا موقع ملا۔ میری تحقیق کے دوران مجھے یہ خیال آیا کہ مغل بادشاہ جو اپنے کارناموں کو محفوظ کرنے میں ماہر تھے انہوں نے کھانے کے حوالے سے بھی کچھ نہ کچھ تحریری طور پر چھوڑا ہوگا۔بس یہاں سے شروع ہوا ان کے پکوانوں کی تاریخ داں بننے کا سفراور ریسرچ، جو آج بھی جاری ہے
نفاست،معیار،حساسیت اور ذائقہ
آواز دی وائس سے بات کرتے ہوئے سلمیٰ یوسف حسین نے کہا کہ مغلوں کے کھانوں یا پکوانوں میں خاصیت اس لیے تھی کہ وہ خود خاص تھے۔نفاست،نزاکت، معیار اور حساسیت ان کی فطرت کا حصہ رہی۔ کھانے کا شوق تھا مگر سب کے مذہبی جذبات کے احترام کے ساتھ۔ ۔ یہی وجہ ہے کہ مغل دور میں گائے کا ذبیحہ نہیں تھا۔ شاہی دستر خوان پر گائے کا گوشت نہیں ہوتا تھا۔یہ ان کی مذہبی رواداری کا بھی حصہ تھا۔ وہ ذائقہ کے مداح تھے خواہ وہ گوشت ہو یا سبزیاں ۔ وہ کہتی ہیں کہ چونکہ مغل مرکزی ایشیا سے آئے تھے اس لیے انہیں بھیڑ کا گوشت پسند تھا۔ اکبر اعظم کے دور میں سبزیوں کا بہت استعمال تھا۔ خود شہنشاہ اکبر ہفتے میں دو دن گوشت نہیں کھاتا تھا جبکہ پنیر کے ساتھ دال کا استعمال ہوتا تھا۔آگرہ میں بادشاہوں کے لیے خاص طور پر سبزیاں اگائی جاتی تھیں۔
دراصل بابر نے اپنی وصیت میں لکھا ہے کہ ہم یا تو گوشت کھا سکتے تھے یا لوگوں کے دل جیت کر ان پر حکومت کرسکتے تھے چنانچہ ہم نے لوگوں کے دل جیتےکیونکہ گائے ہمارے لئے مقدس جانور ہے جسے تحفظ دینے کی اشد ضرورت ہے،یہ الفاظ ایک بادشاہ کی حساسیت کو بیان کررہے ہیں ۔
سلمیٰ یوسف حسین راشٹرپتی بھون میں سابق صدر پرنب مکھرجی کے ساتھ
گنگا جل سے بارش کے پانی تک
دلچسپ بات یہ ہے کہ مغل بادشاہوں نے ہمیشہ پینے کے لیے گنگا جل کا استعمال کیا۔ اس وقت گنگا شفاف تھی اور مغل اسے ’آب حیات‘ مانتے تھے۔ جہاں بھی مغل بادشاہوں کا بسیرا ہوتا تھا گنگا جل کو وہیں پہنچایا جاتا تھا۔باقاعدہ ایک انسانی سپلائی لائن تھی۔اس پانی کو محفوظ رکھا جاتا تھا۔اکبراعظم کھانے کے ساتھ گنگا جل پینا پسند کرتا تھا۔حتیٰ کہ جب وہ پنجاب میں ہوتا تب بھی اس کے لئے دو سو میل کے فاصلے پر گنگا جل اونٹوں پر لاد کر لایا جاتا تھا۔
سلمیٰ یوسف حسین نے مزید بتایا کہ مغل کھانوں کے ذائقہ میں ایک اہم کردار پانی کا ہوتا تھا ۔ جو کسی کنویں یا نہر کا نہیں بلکہ بارش کا ہوتا تھا۔بارش کے دنوں میں بڑے بڑے ٹینک نماں برتنوں میں بارش کا پانی اکٹھا کیا جاتا تھا۔ وہ کہتی ہیں اب تو بارش کا پانی بھی آلودہ ہوگیا ہے تو پھر نل اور کنویں کی کیا بات کریں گے۔
شاہی دستر خوان پر سونے چاندی کے برتن
سلمیٰ یوسف حسین اس بات کو مانتی ہے کہ پکوان کے ذائقہ کو دوبالا کرنے کے لیے برتنوں کا انتخاب کیا جاتا تھا۔ شاہی دستر خوان پر سونے اور چاندی کے برتنوں کی موجودگی تو رہی ہے لیکن استعمال کا دارومدار شاہی طبی ماہرین پر ہوا کرتا تھا۔ کس ڈش کو کس دھات کے برتن میں کھانا ہے اور پانی کس کٹورے میں پینا ہے۔ اسی طرح گوشت اور مچھلی کو پتھر پر بنیا جاتا تھا۔سلمیٰ یوسف حسین کا ماننا ہے کہ مغل صرف ذائقہ اور چٹخارے کے قائل نہیں تھے انہوں نے کھانے کی تیاری کے لیے کچھ معیار طے کر رکھے تھے جو ان پکوانوں کی روح ہوا کرتے تھے۔
مغل پکوانوں کا سفر
سلمیٰ یوسف حسین کا کہنا ہے کہ مغلائی کھانوں نے بابر سے لے کر بہادر شاہ ظفر تک ایک طویل ارتقائی سفر طے کیا۔ ان کھانوں میں جہاں ایرانی، افغانی،ترکی ذائقے شامل تھے وہیں برصغیر میں ہونے کی وجہ سے ان میں کشمیری، پنجابی اور دکنی ذائقہ و رنگ بھی شامل ہوتا گیا۔ ظہیرالدین محمد بابر اورہمایوں کے دور میں مغل کھانوں میں ہلدی ، لال مرچ ،زیرہ ، دھنیا ،لونگ ،ادرک لہسن وغیرہ بالکل استعمال نہیں ہوتے تھے، بلکہ بادام ، اخروٹ ، کشمش ، خشک آلوچے ، خوبانی، پستہ، زعفران وغیرہ استعمال کیے جاتے تھے،جو بطور خاص افغانستان سے منگوائے جاتے تھے۔ بھیڑ کا آگ پر سکا ہوا گوشت، نان اور تازہ پھل ان کو مرغوب تھے۔
سلمیٰ یوسف حسین کا پکوانوں پر ریسرچ کا سفر کا ہر موڑ ایک سنگ میل ثابت ہوا
دلچسپ بات تو یہ ہے کہ بابر کو ہندوستان بالکل پسند نہ تھا کیوں کے یہاں نہ تو برف جیسا ٹھنڈا پانی دستیاب تھا اور نہ ہی افغانستان جیسے نان۔
ہمایوں شاہ ایران کےپاس پناہ گزیں رہا،۔شیرشاہ کی وفات کے بعد جب ہمایوں واپس ہندوستان آیا تو اپنے ساتھ ایرانی فنکار، مجسمہ ساز، مصور ، موسیقارکے ساتھ ایک باورچی بھی ساتھ لایا۔ یوں مغل کھانوں میں ایرانی کھانے مثلاَ تندوری بھیڑ ،مسالا مرغ، اور ایرانی پلاؤشامل ہوگئے۔اکبر بادشاہ کی بیشتر غذا گندم، چاول اور دالوں پر مشتمل ہوتی تھی ،حلیم، دوپیازہ، زرد برنج، اور شیر برنج اسی دور کے پکوان ہیں جو آج بھی ہم بڑے شوق سے کھاتے ہیں۔مغلوں کا پسندیدہ مشروب کٹی ہوئی برف کے ساتھ مختلف اقسام کے پھلوں کا رس تھا۔
شاہ جہاں کے پرتگالیوں کے ساتھ تعلقات کی وجہ سے شاہی باورچی خانے میں مرچوں کی طرح نئے اجزا متعارف ہوئے۔ اس کے علاوہ آلو اور ٹماٹر جیسی سبزیاں منظرعام پر آئیں ۔ شاہ جہاں کے آباؤ اجداد کے کھانوں کے مقابلے میں شاہی باورچی خانے کا کھانے کا کلچر رنگ سے بھرپور، مختلف قسم کا اور ذائقہ سے گرم ہو گیا تھا۔ کبابوں اور قلیوں کے علاوہ مختلف شکلوں میں سبزیاں، یورپی کیک اور کھیر لال قلعہ کی میزوں کی زینت بنتے تھے۔شاہ جہاں کو کھانے کا شوق اپنے دادا سے وراثت میں ملا اور شاہی پکوانوں کو مقبولیت بخشنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ اس کے علاوہ، شاہ جہاں کا دور بہت پرامن تھا۔ جہاں ثقافت کے ساتھ پکوانوں کو فروغ ملا۔ لیکن شاہ جہاں کے بعد اورنگ زیب کے دور میں پکوانوں کی اہمیت کم ہوگئی تھی کیونکہ وہ بنیادی طور پر فوجی مہمات میں شامل رہا تھا۔اس کے پاس زندگی کی باریک چیزوں کے لیے نہ وقت تھا اور نہ ہی کوئی دلچسپی۔
بہادر شاہ کا دسترخوان بے حد وسیع تھا جو ترکی، افغانی، ایرانی اور ہندوستانی کھانوں سے مزین رہتا تھا۔ان کھانوں کے ساتھ ہندوستانی کھانے بھی شاہی دسترخوان کی زینت بننے لگے تھے۔قورمہ، قلیہ، پلاؤ، نان، کباب کے ساتھ پوری کچوری، کھانڈوی دال، ہندوستانی مٹھائیاں اور حلوے تجربہ کار باورچیوں کے ہنرمند ہاتھوں کی داد دینے لگے۔
پکوانوں پر ریسرچ اور کتابیں
سلمیٰ یوسف حسین نے پچھلے بیس سال کے دوران مغل ذائقہ پرکئی ذائقہ دار کتابیں لکھی ہیں ،جن میں مغل ذائقہ کے ساتھ اسلامی پکوانوں اور دالوں پر بھی کتابیں شامل ہیں ۔اس میں ایک اہم کتاب ’نسخہ شاہجہانی’رہی ۔جس میں مغل شہنشاہ کے شاہی باورچی خانے کا سفر ہے - عمدہ جمالیات اور نمائش کے شوقین شاہجہان کا باورچی خانہ دراصل بے مثال تخلیقی ہنر اور نفاست کی نمائش گاہ تھا۔’ نسخہ شاہجہانی’ سے پلاؤ کی ترکیبوں کا یہ ترجمہ شاہجہاں کے شاہی باورچی خانے کی مہارت کے کئی پردے اٹھاتا ہے۔ جہاں پکوان کے بنیادی ذائقوں کو بڑھانے کے لیے مناسب مقدار میں مصالحے کے ساتھ کھانا پکایا جاتا تھا، اس کتاب کو سات حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے: نان، آش، عالیہ اور دو پیازہ، بھرتا، زیر۔ بریانی اور پلاؤ، کباب اور شیرینہ۔
ہندوستانی پکوانوں میں انہوں نے دال کا انتخٓب کیا اس پر ایک کتاب لکھی۔ دنیا کے بہت سے حصوں میں مختلف دالیں استعمال ہوتی ہیں- مگر یہ کتاب ہندوستانی پکوانوں کی روایات اور تنوع کو خراج تحسین پیش کرتی ہے۔ کتاب میں دی گئی ترکیبیں - جس میں نہ صرف دال کریلے بلکہ دال پر مبنی ناشتے، ذائقے دار اور مٹھائیاں بھی شامل ہیں -جو ہندوستان کے بیشتر علاقوں اور برادریوں کا احاطہ کرتی ہیں۔ اس میں دال کی کئی بین الاقوامی ترکیبیں بھی شامل ہیں۔
ان کی کتابوں کے نام حسب ذیل ہیں ۔
Nuskha-E-Shahjahani: Pulaos from the Royal Kitchen of Shah Jahan
The Emperor's Table
Avadh Ke Jayke: Shahi Dawat Se Ghar Ki Rasoi Tak Ka Safar (Hindi)
The Islamic Food
The Mughal Feast
Pull of Pulses Full of Beans
سلمی حسین اپنے مرحوم شوہر اور ممتاز اداکار یوسف حسین کے ساتھ
یہ نام کا ہے ۔۔۔ مغل نہیں
آج جب ہندوستان کے کونے کونے میں ہر تیسرا ہوٹل مغلائی ہے،سلمیٰ یوسف حسین کا کہنا ہے کہ بازار میں مغلائی کے نام پر جو بھی بک رہا ہے وہ مغلائی نہیں ۔یہ مغلائی کے سامنے صفر ہے۔ اب روغن کو مغلائی کہا جارہا ہے ،تیز مصحالوں کو مغلائی کی جان مانا جاتا ہے۔حقیقت میں اصل اور روایتی مغل کھانوں سے کوسوں دورہیں جو مغل لائے تھے۔ مغل دور کے کھانے کے بارے میں دستاویزی تفصیلات جیسے کہ ابو الفضل کی تحریر کردہ عین اکبری ؛ جہانگیر کے دور سے علوان نعمت اور نسخہ شاہجہانی - بہت زیادہ اس حقیقت کی گواہی دیتے ہیں کہ ان کا کھانا چٹنیوں اور مسالوں سے ڈھکا ہوا نہیں تھابلکہ صحت مند اور متوازن تھا۔ یہ ان چند مسالوں کے ساتھ تیار کیا جاتا تھا جو اس وقت دستیاب تھے۔ خشک میوہ جات اور خوشبودار جڑی بوٹیاں استعمال کر کے کھانے کو غیر ملکی اور خوشبودار بنایا گیا تھا۔ یہی نہیں اہم بات یہ بھی ہے کہ مختلف علاقوں سے آنے والے باورچیوں نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں سے مغل پکوانوں کو شاندار بنا دیا تھا۔
سلمیٰ یوسف حسین نے آواز دی وائس سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مغلائی پکوان ہلکی آنچ پر پکائے جاتے تھے،لکڑی یا کوئلہ کا استعمال ہوتا تھا،منتخب مصالحےہوتے ہیں ۔اب یہ سب کہاں۔ وقت بدل گیا ،ہلکی آنچ کی جگہ پریشر کوکر نے لے لی،ڈش کی خوبصورتی کے لیے گھی اور رنگ دار سرخ مرچ آگئی۔اب کسی کے پاس وقت نہیں ہلکی آنچ کے کھانے پکا نے کا،اب تو ’آرڈر‘ کلچر ہے۔ سلمیٰ یوسف حسین کا ماننا ہے کہ مغل حکمرانوں نے جس طرح تاج محل اور لال قلعے سے فن تعمیر کا نمونہ پیش کیا اسی طرح فن آشیزی سے اس عہد کے کھانوں کو امر کر دیا ہے۔