جنگ ٹلتی رہے تو بہتر ہے

Story by  عمیر منظر | Posted by  [email protected] | Date 11-05-2025
 جنگ ٹلتی رہے تو بہتر ہے
جنگ ٹلتی رہے تو بہتر ہے

 



عمیر منظر 

شعبہ اردو،مولانا آزاد نیشنل اردو یونی ورسٹی ۔لکھنؤ 

 
 اردو شعروادب نے ہمیشہ اعلی انسانی قدروں کو فروغ دیا ہے اور اس کی نمائندگی کی ہے۔ادب صرف جذبے کا نام نہیں ہے بلکہ یہ صداقتوں کے اظہار کی بھی ایک صورت ہے۔ اس کی اپنی ایک رسومیاتی دنیا ہے،جس میں خوشی وغم اور مسرت وبصیرت کے بہت سے پہلو ہمہ وقت رواں دواں رہتے ہیں۔ شعروادب کے بارے میں یہ بات ہمیشہ تسلیم کی گئی ہے کہ فن کار کی وسیع الذہنی اور کشادہ ظرفی ہی فن پارے کو وسیع اورہمہ گیر بناتی ہے۔اس سے اس کی حریت فکر کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔وہ سماج کا ترجمان ہوتا تو ہے لیکن اس کی ترجمانی ایک سماجی روح کی طرح ہوتی ہے۔اس کی سماجیت میں کوئی خاص علاقہ یا خطہ نہیں ہوتا بلکہ پوری انسانیت ہوتی ہے۔ادیب جن اخلاقی قدروں کی پرورش کرتا ہے اس کا کوئی بھی محدود تصور نہیں کیا جاسکتا۔وطن کا تصور دراصل پوری کائنات کاہوتاہے۔اسی لیے بعض ادیبوں کا خیال ہے کہ ادب سماج کا مصلح ہوتا ہے اس میں وہ صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ سماج کو جس راستے پر چاہے لے جائے۔لیکن وہی فن پارہ اور ادیب بڑا اور عظیم کہلاتا ہے،جو اعلی انسانی قدروں اور ثقافتوں کو فروغ دیتا ہے۔انسانیت کے مجدو شرف کی بات کرتا ہے، اسے عزت اور تابانی عطا کرتا ہے۔ اسی لیے اس کا دائرہ بہت وسیع اور ہمہ گیر ہوجاتا ہے۔اسی نوع کے فن پارے انسان کے اندر نہ صرف شعور پیدا کرتے ہیں بلکہ عزم و ہمت کے آئینہ دار بھی ہوتے ہیں۔ ادب کی اخلاقیات کا دائرہ بہت و سیع ہے۔ہماری شاعری خصوصاً غزلوں میں جس طرح کے اعلی اخلاقی مضامین باندھے گئے ہیں اور سماج کو ایک نئی راہ دکھانے کی کوشش کی گئی ہے اس کی مثالیں کم ملیں گی۔چونکہ غزل کے بارے میں یہ بات مشہور ہوگئی ہے کہ اس میں محض عشق ومحبت کی شاعری ہے۔گل وبلبل کے بیان کے علاوہ کچھ اورنہیں ملتا۔حالانکہ یہ تصور پوری درست نہیں قرار دیا جاسکتاہے۔اردو شاعری نے اعلی انسانی قدروں کو فروغ دیا ہے اور اس کے توسط سے سماج اور سماجی زندگی کو ایک وسعت بخشی ہے۔ولی نے کیا خوب شعر کہا ہے۔
ولی کو نہیں مال کی آرزو 
خدا بیں نئیں دیکھتے زر طرف 
میر کا شعر ہے  ؎ 
بارے دنیا میں رہو غم زدہ یا شاد رہو 
ایسا کچھ کرکے چلو یاں کہ بہت یاد رہو
آتش قناعت کو بہار بے خزاں قرار دیتے ہیں۔
شگفتہ رہتی ہے خاطر ہمیشہ
قناعت بھی بہار بے خزاں ہے 
ناسخ کا بہت مشہور شعر ہے اور آج کی دنیا پر یہ زیادہ صادق آتا ہے  ؎
انسان کوانسان سے کینہ نہیں اچھا
جس سینے میں کینہ ہے وہ سینہ نہیں اچھا 
انسانی سماج کی بنیاد ہی انسانیت اور اخوت پر ہے۔اس کے بغیر کسی معاشرہ کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔تعصب اور تنگ نظری کا اس میں گذر نہیں۔یہی چیز ایک پرامن اور مہذب زندگی کی بنیاد فراہم کرتی ہے۔ذرا ان دنوں کا تصور کیجیے جب انسان نے غاروں یا جنگلوں سے نکل کر بستیاں بسائی ہوں گی۔اجتماعیت کا آغاز اور ایک بہتر انسانی معاشرے کو فروغ دینے کے لیے کچھ اصول و ضوابط وضع کیے گئے ہوں گے۔دراصل وہی تعلقات کی اخلاقیات ہے اور اسے ہی اخلاقی قدروں کا نام دیا جاسکتا ہے، جن میں اخوت و محبت رواداری،ایک دوسرے سے ہمدردی،انصاف اور احترام کا جذبہ ہو۔انتشار،فساداور اور ناانصافی کسی بھی انسانی معاشرہ کے زوال کی نشانی کی ہے اور یہ زوال سب سے پہلے امن و سکون کو غارت کرتا ہے۔انسانی معاشرہ کی بنیاد ہی سکون واطمینان پر ہے اور انسان کی پہچان بھی اسی سے ہوتی ہے۔اردو شعرو ادب نے ہمیشہ انتشار وفساد اور جنگ وجدال کی نفی کی ہے اور ایک تعمیری جذبے کو فروغ دیا ہے۔امن سے محبت ہی ادب و شعر کی بنیاد ہے۔منفی جذبے پر فن پارے کی بنیاد نہیں رکھی جاسکتی۔شعرا نے جنگ،دشمن اور امن کے موضوع پر بے شمار شعر کہے ہیں۔ان اشعار سے ادب کی انسان دوستی اور اعلی اخلاقی قدروں کا اندازہ ہوتاہے۔لالہ مادھو رام جوہرنے صلح وجنگ کا ایک کلیدی نکتہ پیش کیا ہے،جس میں انھوں نے صلح و جنگ اور دوست و دشمن کا ایک معیار مقرر کردیا ہے۔ان کا شعر ہے
جو دوست ہیں وہ مانگتے ہیں صلح کی دعا 
دشمن یہ چاہتے ہیں کہ آپس میں جنگ ہو
ادب کی انسان دوستی اور امن وصلح کی جہتوں کو ساحر لدھیانو ی کے کلام میں دیکھا جاسکتا ہے۔ایک نظم میں انھوں نے لکھا ہے
ہم امن چاہتے ہیں مگر ظلم کے خلاف 
گر جنگ لازمی ہے تو پھر جنگ ہی سہی 
گزشہ پانچ چھ دہائیوں کے دوران خلل امن کی کارروائیوں کے دوران میں فنکاروں نے جس طرح ادبی منصب کو بحال کرنے کی کوشش کی تھی حالیہ دنوں میں اس لو بہت مدھم ہے۔ساحر لدھیانوی نے ایک نظم ”اے شریف انسانو“کے نام سے کہی تھی جس کا ایک ایک مصرعہ ادب و وقار کا نہ صرف ترجمان تھا بلکہ بہت سے مصرعے اور اشعار آج بھی ہمارے دلی جذبات و احساسات کی ترجمانی کرتے ہیں۔نظم کا آغاز اس طرح ہوتا ہے 
خون اپنا ہو یا پرایا ہو 
نسل آدم کا خون ہے آخر
جنگ مشرق میں ہو کہ مغرب میں 
امن عالم کا خون ہے آخر 
اسی نظم میں انھوں نے جنگ کو افلاس اور غلامی سے تعبیر کیا تھااور بہتر نظام کے لیے امن کو پیش کیا تھا۔ جنگ کو بھٹکی ہوئی قیادت سے تعبیر کرتے ہوئے بے بس عوام کے لیے امن کو ضروری قرار دیا تھا۔دراصل یہ نظم اسی تصور ادب کو پیش کرتی ہے جس سے کسی محدود جغرافیہ کا سراغ نہیں لگایا جاسکتابلکہ یہ عالمی اور کائناتی مسائل ہیں جس پر فنکار اپنے درد کا اظہار کرتا ہے۔نظم میں اس کا ایک جگہ بہت واضح اظہار کچھ اس انداز میں کیا گیا ہے۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ انسانیت کی ترجمانی ہے۔
اس لیے اے شریف انسانو
جنگ ٹلتی رہے تو بہترہے 
آپ اور ہم سبھی کے آنگن میں 
شمع جلتی رہے تو بہتر ہے 
ادیبوں اور فن کاروں نے ہمیشہ سے محبت اور انسانیت کا پیغام دیا ہے۔اور یہ کام آج بھی ضروری ہے۔جگر مرادآبادی نے بہت پہلے کہا تھا  ؎
ان کا جو کام ہے وہ اہل سیاست جانیں 
میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے
جگر نے اردو کے ایک شعر کے توسط سے پوری دنیا کویہ پیغام دیا کہ شاعرو ادیب بنیادی طورپر امن پسند، محبت کے داعی اور پیغام بر ہیں۔ان کا فرض منصبی ہی امن اور دوستی کی دعوت ہے اس کے سوا کچھ نہیں۔ جب جب حالات ناسازگار ہوئے ہیں ادیبوں اور شاعروں نے آگے بڑھ کر انسانیت کو شرمسار ہونے سے بچایا ہے۔ہندو پاک کی تاریخ میں دو ایسی نظمیں ملتی ہیں جو کسی بھی معاشرے میں ادیب کی طاقت،قوت اور اس کے موقف کا اعلامیہ بن گئی ہیں۔یہ فن کار بڑے تھے،وسیع ذہن رکھتے تھے اور بے خوف و بے لوث جذبے کے حامل تھے۔انھیں اپنے فن پر کامل اعتماد اور بھروسہ تھا۔یہاں پر علی سردار جعفری اور احمد فراز کی نظموں کا ذکر مقصود ہے۔احمد فراز نے ہندستانی دانشوروں کے نام ”دوستی کا ہاتھ“کے عنوان سے ایک نظم لکھی جو اس زمانے میں بہت مقبول ہوئی۔نظم کا آغاز اس طرح ہوتا ہے  ؎
گزرگئے کئی موسم کئی رتیں بدلیں 
اداس تم بھی ہو یارو اداس ہم بھی ہیں 
فقط تمہیں کو نہیں رنج چاک دامانی 
کہ سچ کہیں تو دریدہ لباس ہم بھی ہیں۔
اس نظم کا اختتام ان مصرعوں پر ہوا  ؎
تمہارے دیس میں آیا ہوں دوستو اب کے 
نہ ساز و نغمہ کی محفل نہ شاعری کے لیے 
اگر تمہاری انا ہی کا ہے سوال تو پھر 
چلو میں ہاتھ بڑھاتا ہوں دوستی کے لیے 
علی سردار جعفری نے اس نظم کا جواب لکھا۔نظم کے آغاز میں انھوں نے لکھا 
تمہارا ہاتھ بڑھا ہے جو دوستی کے لیے 
مرے لیے ہے وہ اک یار غم گسار کا ہاتھ 
وہ ہاتھ شاخ گل گلشن تمنا ہے 
مہک رہا ہے مرے ہاتھ میں بہار کا ہاتھ 
جعفری نے دعا یہ مانگی  ؎
خدا کرے کہ سلامت رہیں یہ ہاتھ اپنے 
عطاہوئے ہیں جو زلفیں سنوارنے کے لیے 
ز میں سے نقش مٹانے کو ظلم و نفرت کا 
فلک سے چاند ستارے اتارنے کے لیے 
علی سردار جعفری نے اس نظم میں یہ بھی کہا کہ اوزارجنگ کو خاک میں ملانا ہے۔اوراپنے اندر جنگ کا جذبہ رکھنے والوں کو شرافت اور انسانیت کا سبق سکھا ہے۔وہ چاہتے تھے کہ ہونٹ مہر وفا کے نغموں سے معمور رہیں اور دل کی کتاب پر سوائے حرف عشق کے کوئی دوسرا حرف نہ ہو۔اس کے لیے دوستی کے جذبے کو فروغ دینا ہوگا اور فضا میں اس کو عام کرنا ہوگا۔ اسی لیے علی سردار جعفری نے نظم کااختتام ان مصرعوں پر کیا جس کی دھمک آج بھی محسوس کی جاتی ہے۔
تم آو گلشن لاہور سے چمن بردوش 
ہم آئیں صبح بنارس کی روشنی لے کر 
ہمالیہ کی ہواؤں کی تازگی لے کر 
پھر اس کے بعد یہ پوچھیں کہ کون دشمن ہے 
ڈیجٹل ٹکنالوجی سے خیر کی جو توقعات وابستہ کی جاسکتی تھیں اس میں ہمیں حد درجہ مایوسی ہاتھ آئی ہے۔تعمیری قدروں کی افزائش سے کلیتاً انکار نہیں تاہم کذب و افتراسے بھر پور اورانسانیت کش مواد نے ادبی قدروں کی تمازت کوماند کردیا ہے۔ہم تو ساحر سے متفق ہیں کہ ؎جنگ ٹلتی رہے تو بہتر ہے۔