منصور الدین فریدی : نئی دہلی
مسئلہ فلسطین اور فلسطینیوں کے ساتھ عالم اسلام کا ایک جذباتی لگاو مانا جاتا ہے ،ہمیں ایسا لگتا ہے کہ گویا فلسطینیوں نے دنیا میں صرف اسرائیل کی دشمنی ہی جھیلی ہے یا پھر اسرائیل ہی فلسطینیوں کا واحد جانی دشمن ہے۔لیکن ایسا نہیں ہے۔ عوامی یاداشت کی کمزوری ہمیں بہت کچھ بھلانے پر مجبور کر دیتی ہے ۔اگر آج عرب حکمراں خاموش ہیں تو ایک وقت یہی عرب بھی فلسطینیوں کے قتل عام میں بھی شامل تھے۔ جو کہ کوئی معمولی قتل عام نہیں تھا بلکہ اس میں 25ہزار فلسطینیوں کو موت کی نیند سلا نے کا دعوی کیا گیا تھا ۔ جسے اب تاریخ میں ’سیاہ ستمبر‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ آپ کو یہ جان کر حیرت 1970 میں جب اردن میں شاہ حسین کو پی ایل او کی سرگرمیوں اور اسے عالمی حمایت سے خطرہ بڑھتا محسوس ہوا تو فلسطینیوں کو اردن سے نکالنے کا آپریشن شروع ہوا ۔اہم بات یہ ہے کہ اس کے پیچھے جو سب سے بڑا فوجی دماغ کام کررہا تھا وہ پاکستان میں اسلامی سیاست کا چراع بنے جنرل ضیا الحق کا تھا۔ جنہوں نے اس فوجی کارروائی کی کمان سنبھالی تھی۔۔جنہیں آج بھی پاکستان کے سابق فوجی سربراہ اور حکمراں کے ساتھ اس سیاہ ستمبر کا ہیرو بھی مانا جاتا ہے جس میں شاہ اردن کو خوش کرنے کے لیے فلسطینیوں کا بدترین قتل عام کیا گیا تھا۔
دراصل سیاہ ستمبر کو اردن میں ایک بغاوت اور خانہ جنگی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ اردن کی فوجی مہم کی قیادت شاہ حسین کر رہے تھے اور چیئرمین یاسر عرفات کی قیادت میں فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (پی ایل او) سے سامنا تھا۔ لڑائی کا مرکزی مرحلہ 16 اور 27 ستمبر 1970 کے درمیان ہوا، حالانکہ تنازعہ کے بعض پہلو 17 جولائی 1971 تک جاری رہے۔ جس کے اختتام پر فلسطینی تحریک کے روح رواں یاسر عرفات نے دس سے 25ہزار فلسطینیوں کے قتل عام کا الزام عائد کیا تھا ۔جبکہ اردن کی جانب سے یہ تعداد پانچ ہزار کے آس پاس بتائی گئی تھی ۔ قابل غور بات یہ ہے کہ اس خانہ جنگی میں پاکستانی فوج کا کردار کسی کرائے کے ٹٹو کی مانند رہا تھا ،جس نے حکومت کو بھی نظر انداز کیا تھا جبکہ اس کے بعد پاکستان میں ہوئی بڑی تبدیلیوں کے پیچھے بھی کہیں نہ کہیں اسی کے تار نظر آتے ہیں کیونکہ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے گرائے جانے سے انہیں پھانسی دئیے جانے تک ضیا الحق کا ہی دماغ اور ہاتھ تھا۔جنہوں نے شاہ اردن کی سفارش پر ضیا الحق کو بریگیڈئر سے جنرل بنایا تھا لیکن اسی سفارشی افسر نے بھٹو کو پھانسی کے تخت تک پہنچا دیا تھا۔
اس وقت جب اسرائیل نے غزہ میں قتل عام برپا کررکھا ہے اور دنیا بھر میں اس کے خلاف آواز اٹھ رہی ہے تو مسلم ممالک میں بھی کہرام برپا ہے۔ پاکستان میں ممتاز صحافی حامد میر نے بھی ایک پروگرام میں اس بات کی یاد دہائی کرائی ہے کہ ملک کی فوج نے اردن کے لیے کس طرح فلسطینیوں کے خون سے ہاتھ رنگے تھے۔سب کچھ ضیا الحق نے ذاتی فائدے کے لیے کیا تھا اور یہی وجہ ہے فوج میں ترقی پائی اور پھر حکمراں بھی بنے ۔تاریخ میں اپنی اسلام پسندی کے لیے مشہور اور مقبول ہوئے ضیا الحق کی زندگی کا یہ سچ بتا رہا ہے کہ جذباتی نعرے عوام کے لیے ہوتے ہیں جبکہ حکمراں اور فوج کا کاروبار جذبات کی بنیاد پر نہیں ہوتا ہے
کیا تھا پس منظر
فلسطینیوں کی اکثریت اردن میں 1947 میں اسرائیل کے قیام کے بعد پناہ گزینوں کے طور پر پہنچی تھی۔ 1967 کی چھ روزہ جنگ کے بعد جب اسرائیل نے متعدد عرب ریاستوں کو شکست دی، تقریباً 300,000 مزید فلسطینی عمان اور اردن کے دیگر حصوں میں آ گئے تھے۔ سال 1967 کی چھ روزہ جنگ کے دوران، اسرائیل نے اس علاقے پر قبضہ کر لیا تھاجو اردن کے ساتھ الحاق شدہ مغربی کنارہ تھا۔ اس پیش رفت کے بعد، فلسطینی فدائین اردن منتقل ہوگئے اور اسرائیل کے نئے زیر قبضہ علاقوں پر اپنے حملے تیز کر دیے۔ کشیدگی اس وقت شروع ہوئی جب 1968 میں اردن میں ایک اسرائیلی انتقامی کارروائی ہوئی، جس نے کرامہ کی مکمل جنگ سامنے آئی۔ اردن میں پی ایل او کی طاقت میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ 1970 کے آغاز تک، پی ایل او کے اندر گروپوں نے اردن کی ہاشمی بادشاہت کو ختم کرنے کا مطالبہ شروع کر دیا۔ فدائین نے اردن کے قوانین اور ضوابط کو کھلے عام نظر انداز کیا۔ دو مواقع پر انہوں نے حسین کو قتل کرنے کی کوشش کی، جس کے نتیجے میں جون 1970 تک اردن کی مسلح افواج کے ساتھ تصادم ہوا۔
اردن کے شاہ حسین انہیں طاقت کے ذریعے ملک سے بے دخل کرنا چاہتے تھے لیکن حملہ کرنے سے ہچکچا رہے تھے۔ انہیں خدشہ تھا کہ ان کے مخالف فلسطینی جنگجوؤں کو عام شہریوں کے برابر کا درجہ دے کر اس طرح کی جارحیت کا فائدہ اٹھائیں گے۔ اردن میں پی ایل او کی مسلسل سرگرمیاں 6 ستمبر 1970 کو ڈاؤسن کے فیلڈ ہائی جیکنگ پر منتج ہوئیں، جب پاپولر فرنٹ فار دی لبریشن آف فلسطین نے تین شہری مسافر پروازوں پر قبضہ کر لیا اور انہیں اردن کے شہر زرقا میں اتارنے پر مجبور کیا، جہاں وہ غیر ملکی شہریوں کو لے گئے۔ یرغمال بنائے اور بعد میں دنیا بھر کے صحافیوں کے سامنے طیاروں کو اڑا دیا۔ حسین نے اسے آخری موقع کے طور پر دیکھا اور اردنی فوج کو کارروائی کا حکم دیا۔
آج جب اسرائیل غزہ پر قہر ڈھا رہا ہے اور دنیا میں اسے غیر انسانی قرار دیا جارہا ہے تو خود پاکستان میں سیاہ ستمبر میں پاکستان یا ضیاالحق کے کردار پر بحث چھڑی ہوئی ہے ۔یہ تو تاریخی حوالوں سے ثابت ہوتا ہے کہ جنرل ضیا الحق نے 1970 میں اردن میں ہزاروں فلسطینی مجاہدین کا قتل عام میں شامل تھے لیکن اس پر بحث جاری ہے کہ کیاپاکستانی حکومت کی مرضی کے بغیر ذاتی مقاصد کے حصول کے لیے لئے ضیا الحق نے ایسا کیا تھا تا کہ شاہ حسین کو خوش کیا جا سکے۔
یاد رہے کہ 16 ستمبر سے لے کر 27 ستمبر تک جاری رہنے والی اور بلیک ستمبر کہلانے والی جنگ بارے کئی مبصرین نے لکھا ہے کہ شاہ حسین کو اس جنگ میں فیصلہ کن مشورے دینے والے ضیا الحق تھے جن کی مدد سے اردنی فوج نے جنگ جیتی۔
سی آئی اے افسر کی زبانی
سی آئی اے کے ایک سینیر افسر جیک او کونل کے مطابق، ضیا کو شاہ حسین نے شمال میں شام کی فوجی صلاحیتوں کا جائزہ لینے کے لیے بھیجا تھا۔ پاکستانی کمانڈر نے حسین کو واپس اطلاع دی اور علاقے میں آر جے اے ایف اسکواڈرن کی تعیناتی کی سفارش کی۔ مصنف کے مطابق ضیا الحق نے ذاتی طور پر لڑائیوں کے دوران اردنی فوجیوں کی قیادت کی۔ جیک او کونل، جنھوں نے خود لاہور کی پنجاب یونیورسٹی میں اعلیٰ تعلیم کی غرض سے دو سال گزارے تھے، لکھتے ہیں کہ سنہ 1970 میں جب شامی افواج اردن پر چڑھائی کی غرض سے ٹینک لے کر آ گئیں اور اردن کو امریکہ کی جانب سے امداد کے بارے میں کوئی جواب نہ ملا تو شاہ حسین کی پریشانیوں میں اضافہ ہوا۔ شاہ حسین نے اپنے ’دوست‘ ضیا الحق سے درخواست کی کہ وہ شامی محاذ کا دورہ کریں، زمینی صورتحال سے آگاہ کریں۔ جیک او کونل لکھتے ہیں کہ جب ضیاالحق سے اردنی حکام نے حالات کے بارے میں معلوم کیا تو انہوں نے جواب میں کہا کہ حالات بہت خراب ہیں۔
مشورہ ضیا الحق کا تھا
سیاہ ستمبر پر ایک اور کتاب میں ‘بروس ریڈیل اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ اس موقع پر ضیا الحق نے شاہ حسین کو مشورہ دیا کہ اردنی فضائیہ کو شامی فوج کے خلاف استعمال کیا جائے اور ’یہی وہ فیصلہ ثابت ہوا جس کے باعث اردن جنگ جیتنے میں کامیاب ہوا۔ بروس ریڈیل لکھتے ہیں کہ شہزادہ حسن بن طلال نے اپریل 2010 میں انھیں بتایا کہ ضیاء الحق شاہ حسین کے دوست اور ہم راز تھے اور شاہی خاندان اس جنگ میں ان کی مدد کا بہت شکر گزار تھا جس میں ان کی موجودگی اتنی ضروری تھی کہ وہ تقریباً فوج کی قیادت کر رہے تھے۔ بروس ریڈیل کے مطابق ضیاالحق کا یہ فعل پاکستان میں حکام کو ناگوار گزرا کیونکہ یہ واضح تھا کہ ضیاالحق نے ’اردنی فوج کے ساتھ فلسطینیوں کے خلاف لڑ کر اپنی سفارتی ذمہ داریوں اور احکامات سے تجاوز کیا۔ جبکہ15 ستمبر کو اردن کے بادشاہ نے مارشل لاء لگادیا تھا۔اگلے دن پاکستانی اور اردن کی آرمی نے ضیاء الحق کی قیادت میں عمان میں موجود فلسطینیوں کے ہیڈ کوارٹر پر حملہ کیا.آرمی نے فلسطینیوں کے کیمپس اربد، السلط، صويلح، البقعة، الوحدات والزرقاء پر حلمہ کیا.اس دوران ضیاء الحق نے سیکنڈ ڈویژن کی قیادت کرتے ہوۓ ہزاروں فلسطینیوں کا قتل عام کیا.
ایک پاکستانی کی زبانی
ایک پاکستانی مصنف کے فیصل محمود کے مطابق ۔۔۔اس وقت کے اسرائیل کے وزیر اعظم نے کہا تھا کہ اتنے فلسطینی ہم نے بیس سال میں نہیں مارے جتنے ضیاء الحق نے گیارہ دن میں مار ڈالے مصنف نے مزید کہا کہ بعد میں یہ شخص مرد مومن اور مرد حق کہلایا. اردن نے 1970 میں اسرائیل مخالف فلسطینی فدائیان کو ملک سے نکالنے کا فیصلہ کیا تو یہی آمر جنرل ضیاء الحق تھا جس نے مشن ٹرینینگ اور فلسطینیوں کے خلاف جنگی پلان مرتب کیا۔ اس آپریشن کو کالے ستمبر کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور اس میں 25000 کے قریب معصوم فلسطینی اردن کی افواج اورضیاء الحق کے ہاتھوں مارے گئے تھے۔ اس کے بعد اردن کی شاہی حکومت نے جنرل ضیاء الحق کو خاص اعزازات دیے۔ ان خدمات کا صلہ ضیاالحق کو شاہ حسین کی جانب سے کی گئی سفارش کی صورت میں ملا جنھوں نے پاکستان کے نو منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو ضیاالحق کے بلیک ستمبر کی جنگ کے کارناموں سے آگاہ کیا جس کے بعد وزیر اعظم بھٹو نے ضیاالحق کو بریگیڈئیر سے میجر جنرل کے عہدے پر ترقی دے دی۔
بھٹو کے مشیر نے لکھا کہ ۔۔
بعد ازاں پاکستان کے سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے سابق مشیر راجہ انوار اپنی کتاب ’دا ٹیررسٹ پرنس‘ میں وزیراعظم بھٹو کے غلط فیصلوں کے بارے میں لکھتے ہیں کہ اگر شاہ حسین اس موقع پر ضیاالحق کی سفارش نہ کرتے تو حد درجہ ممکن تھا کہ ضیاالحق کا فوجی کرئیر بطور بریگیڈئیر ہی ختم ہو جاتا۔ لیکن شاہ حسین کی سفارش نے شاید وزیراعظم بھٹو کو یہ عندیہ دیا کہ ضیاالحق ان کے ساتھ اپنی وفاداری ثابت کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہیں۔ بھٹو غلط فہمی کا شکار ہوگئے اور بالآخر ضیا کے ہاتھوں پھانسی کے پھندے پر چڑھا دیئے گئے۔
ایک کہانی حامد میر کی زبانی
پاکستان کے ممتاز صحافی حامد میر نے ۲۰۱۴میں روزنامہ جنگ میں ایک مضمون لکھا تھا جس میں لندن میں علاج کے دوران ایک فلسطینی مظاہرے اور اس میں شامل طلبا سے بات چیت کا ذکر کرتے ہوئے حامد میر نے کچھ یادوں کو بیان کیا ۔جس میں اسی کہانی کے تار مل جاتے ہیں جس کا مرکز ی کردار ضیا الحق تھے جن کے ہاتھوں کو ہزاروں فلسطینیوں کے خون سے سرح مانا جاتا ہے۔
حامد میر لکھتے ہیں کہ----
سال2009ء میں اسرائیل نے غزہ پر حملے شروع کئے تو میں مصر کے راستے سے مقبوضہ فلسطین میں داخل ہوا۔ ایک دن غزہ کی الازہر یونیورسٹی میں جواہر لال نہر ولا ئبریری کا بورڈ دیکھ کر بہت حیران ہوا۔ میں نے یونیورسٹی کے اساتذہ سے کہا کہ 1940ء میں قیام پاکستان کے حق میں پہلی قرار داد لاہور میں منظور ہوئی تھی۔ لاہور میں آل انڈیا مسلم لیگ کا اجلاس 22 تا 24 مارچ منعقد ہوا۔ پہلے دن خطبہ صدارت میں قائد اعظم محمد علی جناح نے فلسطینی مسلمانوں کی حمایت کی اور آخری دن جو چار قرار دادیں منظور ہو ئیں ان میں سے ایک مسلمانوں کے علیحدہ وطن اور دوسری فلسطین عربوں کے حق میں تھی پھر آپ کی یونیورسٹی میں کہیں محمد علی جناع یا پاکستان کا نام کیوں نظر نہیں آتا؟
اساتذہ نے حیرانگی سے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور کہا کہ انہیں ان باتوں کا قطعاً کوئی علم نہیں وہ تو صرف پاکستان میں دو لو گوں کو جانتے ہیں ایک جنرل ضیاء الحق اور دوسرا ذوالفقار علی بھٹو۔ میں نے پوچھا کہ آپ ان دونوں کو کس حوالے سے جانتے ہیں ؟
ایک استاد نے کہا کہ 1970ء میں وہ اردن کے ایک فلسطین مہاجر کیمپ کے اسکول میں پڑھتا تھا۔ اس زمانے میں اردن کی فوج نے فلسطین مہاجرین کے خلاف ایک بڑا آپریشن کیا تھا جس کی قیادت مبینہ طور پر پاکستانی فوج کے بریگیڈیئر ضیاء الحق نے کی تھی۔ اس آپریشن میں ہزاروں فلسطینی مارے گئے تھے۔ جب یہی ضیاء الحق پاکستان کا صدر بنا تو ہمیں سخت افسوس ہوا تھا۔
استاد نے کہا کہ 1973 ء کی عرب اسرائیل جنگ میں پاکستان کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے کھل کر عربوں کی حمایت کی، جب بھٹو کو ضیاء دور میں پھانسی دی گئی تو ہمیں بہت افسوس ہوا۔ ایک اور استاد نے بتایا کہ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں فر یں فلسطینی طلبہ کو پاکستانی یونیورسٹیوں میں پڑھنے کی اجازت ملی اور خود اس نے کراچی یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی لیکن ضیاء دور میں فلسطینیوں پر پاکستان میں تعلیم کے دروازے بند ہو گئے لہذا پی ایل او بھارت کے قریب ہو گئی۔
میں نے ان اساتذہ اور طلبہ کو پی ایل او کے بانی یاسر عرفات کے ساتھ ایک ملاقات کا قصہ بھی سنایا۔ 1994ء میں محترمہ بینظیر بھٹو کے ہمراہ مجھے جینوا میں یاسر عرفات کے ساتھ ملاقات کا موقع ملا۔ اس ملاقات میں یاسر عرفات نے بینظیر بھٹو سے کہا کہ اسرائیل کے ساتھ ان کے مذاکرات دباؤ کا نتیجہ ہیں۔ یاسر عرفات نےکہا کہ کئی عرب ممالک کی حکومتیں ہماری مدد نہیں کرتیں ہمیں اردن، لبنان اور مراکش سے مار مار کر نکال دیا گیا ۔ہمیں بار بار مذاکرات پر مجبور کیا گیا، ہماری درخواست ہے کہ پاکستان کھل کر ہماری مدد کرے اور اسرائیل کے ساتھ روابط بڑھانے سے گریز کرے۔ جس پر بینظیر بھٹو نے کہا کہ اگر پی ایل او کے اسرائیل سے مذاکرات ہو سکتے ہیں تو پاکستان اور اسرائیل میں رابطے قائم ہونے میں کیا برائی ہے؟
یاسر عرفات نے کہا کہ پاکستان ایک آزاد ملک ہے فلسطینی محکوم ہیں اگر پاکستان جیسا مضبوط اسلامی ملک اسرائیل سے دور رہے تو ہم محکوموں کی سیاسی پوزیشن مضبوط رہے گی، ہم اسرائیل سے کچھ نہ کچھ منوالیں گے اور آپ کا احسان نہیں بھولیں گے ۔ بھٹو کی بیٹی نے یاسر عرفات کو اپنے بھر پور تعاون کا یقین دلایا اور اسرائیل سے دور رہنے کا وعدہ کیا۔
بلیک ستمبر یا سیاہ ستمبر نے تاریخ کے ایک تاریک پہلو کو اجاگر کیا ہے،حالانکہ پاکستان میں ضیا الحق کے حامی اب بھی اس پر یقین نہیں کرتے اور اس کے لیے اپنے جواز اور ترک پیش کرتے ہیں لیکن تاریخ کے صفحات پر ضیا الحق کی اس خدمت کی تفصیل موجود ہے جس سے تاریخی شواہد کی بنیاد پر انکار نہیں کیا جاسکتا ہے