محبت اور شاعر- اپنا اپنا انداز بیاں ہے یارو

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 13-02-2023
محبت اور شاعر- اپنا اپنا انداز بیا ں ہے یارو
محبت اور شاعر- اپنا اپنا انداز بیا ں ہے یارو

 

 

 علی احمد

بلاشبہ محبت ایک فطری جذبہ ہے جو انسان اور معاشرے کی ترقی میں ایک کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ یہ شاید وہ واحد نعمت ہے جو انسان کو اس کے پیدا ہونے سے پہلے محسوس ہونا شروع ہوجاتی ہے اور اس کے مرنے کے بعد تک کلام الہی کی شکل میں ملتی رہتی ہے۔ دنیا میں ہر کوئی محبت کی اپنے انداز میں تعریف  بیان کرتا ہے- کسی کی نظر میں محبت نام ہے وفا کا، نبھانے کا، مان جانے کا، اطاعت کا، سر تسلیم خم کر دینے کا، سن لینے کا مگر  محبت کو جس انداز میں شاعروں نے اپنی شاعری میں بیان کیا ہے وہ دنیا کے لئے ہر دور میں توجہ کا مرکز اور باعث کشش رہا ہے

محبت یا عشق ایک ایسا موضوع ہے جسے آفاقی کہا جاتا ہے۔ یعنی، اس مضمون کو تمام زبانوں کے شعرا نے اپنے اپنے طور پر باندھا اور برتا ہے۔ اردو شاعری میں اس مضمون کا اتنا بڑا سرمایہ ہے کہ پوری کتاب لکھی جاسکتی ہے بلکہ فراق گورکھپوری نے تو ‘ارد وکی عشقیہ شاعری’ کے عنوان سے ایک کتاب تحریر بھی کی تھی، یہ الگ بات ہے کہ تمام گوشے نہیں آسکے تھے یا یوں کہہ لیں کہ اس کی نوعیت ہی کچھ اور تھی۔

خیر، بات غالب کی غزلوں میں عشق کے مضمون کی ہورہی ہے۔ اگر دیکھا جائے تو غالب کی پوری شاعری میں محبت اور عشق کا جذبہ اپنی مختلف صورتوں میں جلوہ گر نظر آتا ہے۔ کہیں شوخی اور کھلنڈرے پن سے کام لیتے ہوئے نظر آتے ہیں تو کہیں ان کی نفسیاتی الجھن انھیں کسی اور طرف لے جاتی ہے، کبھی وہ دوسرے عاشقوں پر طنز کرتے ہیں اور کبھی اپنے جذبۂ عشق اور دیوانگی کو بلند مقام عطا کرتے ہیں۔ کبھی وہ فرہاد تو کبھی قیس کو عشق کے مضمون کے درمیان لے آتے ہیں۔ چوں کہ یہ دونوں کردار ایسے ہیں جو اپنی دیوانگیٔ شوق اور اپنے جذبۂ عشق کی انتہا کے لیے مشہور ہیں

جیسا کہ مرزا غالب نے بھی فرمایا ہے "دل ناداں تجھے ہوا کیا ہے، آخر اس درد کی دوا کیا ہے"، تو حقیقت تو یہ ہے کہ دل کے امراض بیشتر ممالک میں اموات کی سب سے بڑی وجہ ہوتے ہیں، اور اس کے انتباہی علامات کو سمجھنا مسائل سے بچنے کے لیے بہت  ہوتا ہے۔

شمع بجھتی ہے تو اس میں سے دھواں اٹھتا ہے
شعلہِ عشق سیہ پوش ہوا مرے بعد
۞۔۔۞۔۔۞
عشق پہ زور نہیں ہے یہ وہ آتش غالب
کہ لگائے نہ لگے اور بجھائے نہ بجھے
۞۔۔۞۔۔۞
عشق نے غالب نکما کردیا
ورنہ ہم آدمی تھے کام کے

  میر تقی  میر کا عشق

  میر تقی میر کے والد نے کہا تھا کہ بیٹے عشق اختیار کرکہ دنیا کے اس کارخانہ میں اس کا تصرف ہے اگر عشق نہ ہوتو نظم کل کی صورت نہیں پیدا ہوسکتی

عشق کے بغیر زندگی وبال ہے دل باختہ عشق ہونا کمال کی علامت ہے سوز و ساز دونوں عشق سے ہیں عالم میں جو کچھ ہے وہ عشق ہی کا ظہور ہے ۔اس نصیحت کا اثر تھا کہ میرؔ نے زندگی اور اس کی حقیقت عشق اور معاشرے کی سچائیوں کو دیکھا ، رشتوں کا سراغ لگایا اور یہی وہ مرکزی نقطہ ہے جس نے میرؔ کو ایک بہترین شاعر بنادیا ۔ اپنی معروف مثنوی معاملات عشق میں میرؔ نے عشق کی بابت کہا ہے کہ
عشق ہی عشق ہے نہیں ہے کچھ
عشق بن تم کہو ، کہیں ہے کچھ
میرؔ اس شعر میں کہتے ہیں کہ کامیابی کی پہلی شرط عشق ہے اگر عشق نہیں ہے خلوص اور لگن نہیں ہے تو ناکامی مقدر بن ج اتی ہے اور عشق کے بغیر نہ دین میں کامیابی ہے اور نہ دنیا میں کامرانی ۔ ایک اور مثنوی دریائے عشق میں انہوں نے کہا کہ
عشق ہے تازہ کار تازہ خیال
ہر جگہ اس کی اک نئی ہے چال
میرؔ نے اس شعر میں عشق کو رہنما ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہتے ہیں کہ اس کے افکار و ادراک لاوسعت ہے ہر دم یہ نئی نئی راہوں سے روشناس کرواتا ہے ۔ مثنوی شعلہ شوق میں وہ کہتے ہیں کہ
محبت نے ظلمت سے کاڑھا ہے نور
نہ ہوتی محبت نہ ہوتا ظہور
محبت ہی اس کارخانے میں ہے
محبت سے سب کچھ زمانے میں ہے

 اسی طرح میر تقی میر کہا کرتے تھے"کہ

الٹی ہوگئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا

دیکھا اس بیماری دل نے آخر کام تمام کیا

، ان کا اشارہ تو قلب کی رومانوی وارداتوں کی جانب تھا جو کہ ہر انسان کی ہی من پسند ہوتی ہیں مگر ہمارے جسم کا یہ اہم ترین حصہ دنیا میں اموات کی سب سے بڑی وجوہات میں سے ایک ہے۔

 جگر مرادآبادی
بنیادی طور پر ایک رومانی شاعر تھے، انھوں نے جب شاعری شروع کی اس وقت کم و بیش سبھی شعراداغؔ کی تقلید کر رہے تھے۔ عزیزؔ ، جوشؔ اور ثاقبؔ کا سکہ چلتا تھا۔ جگر کی طبیعت میں حد درجہ سادگی تھی، انسان دوستی ان کی سرشست میں موجود تھی، محبت اور خلوص کا مجسمہ تھے۔
پہلے دور کی شاعری میں کیف و سرمستی اور بے خودی کا عالم دکھائی دیتا ہے۔ وہ حسن و عشق کے پرستار تھے۔ ان کی کلام کی دلکشی اور والہانہ پن پڑھنے والے پر ایک وجد کی کیفیت طاری کردیتا ہے۔ زبان میں فارسیت کا رنگ شامل ہے۔ ان کے بیشتر اشعار عشقیہ ہیں۔ انھوں نے زندگی بھر حسن و عشق کے نغمے گائے۔ مگر ان کا حسن وعشق روایتی ہے۔
 دنیا کے ستم یاد نہ اپنی ہی وفا یاد
اب مجھکو نہیں کچھ بھی محبت کے سوا یاد
 جگر مراد آبادی
 دیگر شاعروں نے بھی محبت کو اپنے اپنے انداز میں بیان کیا ہے
یہ محبت بھی ہے کیا روگ " فراز
جس کو بھولیں وہ سدا یاد آئے
(احمد فراز)
ہوگا کسو دیوار کے سائے تلے میں میر
کیا کام محبت سے اس آرام طلب کو
(میر)
ہم بھی دشمن تو نہیں ہیں اپنے
غیر کو تجھ سے محبت ہی سہی
(غالب)
محبت کے لیے دل ڈھونڈ کوئی ٹوٹنے والا
یہ وہ مے ہے جسے رکھتے ہیں نازک آبگینوں میں
جفا جو عشق میں ہوتی ہے وہ جفا ہی نہیں
 ستم نہ ہو تو محبت میں کچھ مزا ہی نہیں  
اقبال
دونوں جہان تیری محبت میں ہار کے
وہ جارہا ہے کوئی شب غم گزار کے
(فيض)
اے محبت تیرے انجام پر رونا آیا
جانے کیوں آج تیرے نام پہ رونا آیا
(شکیل بدایونی)