آصف مجتبیٰ: فساد زدہ بچوں کے مستقبل کا محافظ

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 22-01-2023
آصف مجتبیٰ: فساد زدہ بچوں کے مستقبل کا محافظ
آصف مجتبیٰ: فساد زدہ بچوں کے مستقبل کا محافظ

 

 

 منصور الدین فریدی :آواز دی وائس

۔۔ ۔ ‘‘ کسی کو ایک مچھلی دیں تو وہ ایک بار کھائے گا لیکن اگر کسی کو مچھلی پکڑ نا سکھا دیں تو پھر زندگی بھر کا مسئلہ حل ہوجائے گا ‘‘۔۔۔ اس نظرئیے اور سوچ نے آصف مجتبیٰ کو سینکڑوں بچوں کے روشن مستقبل اور کامیابی کا ضامن بنا دیا ۔ جنہوں نے مدد کے نام پر کھانے کی تقسیم سے بہت آگے کا سوچا ۔ سمجھا اور کچھ خاص پلان کیا ۔جس کے تحت  کسی اجڑے خاندان کے لیے ذریعہ معاش اور بچوں کے لیے تعلیم  کا انتظام کیا ۔ بے روزگاروں کوہنر مند منانے کی مہم  اور لڑکیوں کو گھر بیٹھے کمانے کا اہل بنانے کا مشن شروع کیا ۔ سہارے کے بجائے پیروں پر کھڑا کرنے کی حکمت نے اس مشن کو خاص بنا دیا ہے۔

  شاہین باغ کے اس مسکراتے چہرے کے مالک  آصف مجتبیٰ نے اپنی اس مہم کو ’’ مائلس ٹو اسمائل‘کا نام دیا ۔ وہ اس این جی او کے  فاونڈر اور ڈائریکٹر بھی ہیں ۔ جس کے پرچم تلے آج ایک پہل نے ایک تحریک کی شکل اختیار کرلی ہے۔  جس میں کہیں بچوں کا مستقبل سنوارا جارہا ہے تو کہیں بزرگوں کو معاش کی راہ پر لایا جارہا ہے اور کہیں خواتین  کو باعزت روزگار سے جوڑنے کی کوشش جاری ہے۔

آصف مجتبیٰ کی اس مہم کا ایک نمونہ حال ہی میں راجدھانی میں منعقد ہوئے  ’’جشن ریختہ‘‘  میں نظر آیا ۔ جہاں رنگ برنگے  بینرز اور خوبصورت سجاوٹ کے درمیان ایک ایسا اسٹال بھی پر کشش بنا ہوا تھا جس کا نام ’’ خطاطی ۔ مائلس ٹو مائلز ‘‘ تھا۔

 اس اسٹال پر فروخت ہورہا خطاطی کا ہر نمونہ یا آئٹم دلی دنگے کے متاثرہ خاندانوں کی لڑکیوں کا تیار کردہ تھا۔ ہزاروں بلکہ لاکھوں افراد کی بھیڑ  نے ہر دن اس اسٹال کو دیکھا اور سراہا۔شو پیش خریدے اور لڑکیوں کی حوصلہ افزائی کی ۔ 

awazurdu

لڑکیوں کے بنائے سامان کی نمائش 

دلچسپ بات یہ ہے کہ این جی او کا تعلق ’شاہین باغ‘ سےہے۔ جس نے دہلی دنگے کے بعد ریلیف کا کام کیا تھا،اس دوران ہی محسوس کیا کہ  بچوں کے لیے اگر سب سے بڑی ضرورت ہے تو وہ تعلیم کی فراہمی ہے۔جبکہ معاشی طور پربرباد ہوئے لوگوں کے لیے  روزگار کی راہ کو ہموار کرنا ہے ۔

 آصف مجتبیٰ نے آواز دی وائس کو بتایا کہ  مشرقی دلی کے فساد زدہ علاقوں کے متاثرہ بچوں میں سے کچھ نے خطاطی کے فن کی جانب دلچسپی ظاہر کی ۔ خاص طور پر لڑکیوں نے خطاطی میں کیرئیر بنانے زیادہ دلچسپی دکھائی تھی ۔

 میں نے اس بات کو محسوس کیا کہ آرٹ ہے جسے بچے سیکھنا چاہتے ہیں اور لوگ اسے خریدنا بھی چاہتے ہیں اور اس میں ہم ایک پلیٹ فارم بن سکتے ہیں ۔ اس میں اہم بات یہ تھی کہ کچھ خاندان لڑکیوں کے گھر سے باہر نکلنے کے خلاف ہوتے ہیں ۔لیکن اس میں لڑکیاں گھر سے ہی کام کر سکتی ہیں ۔ باہر نکلنے کی ضرورت نہیں پڑتی ہے ۔

 آصف مجتبیٰ نے کہا کہ میں چونکہ دہلی اردو اکاڈمی  کے ایک تجربہ کار خطاط وسیم صاحب کو جانتا تھا اس لیے میں نے ان سے رابطہ کیا اور دوماہ قبل ہی خطاطی کے کلاس کا آغاز کرایا ۔ جس میں اب ایک سال کا کورس کرایا جارہا ہے ۔ ایک سال بعد انشااللہ خطاطوں کی پوری کھیپ تیار ہوگی۔ جو نہ صرف اپنا روزگار سے جڑے گی بلکہ اس آرٹ کو مزید آگے لے جائے گی ۔

 آصف مجتبیٰ نے بتایا کہ خطاطی کا یہ تجربہ کامیاب ہوگیا ہے ،اس لیے اب شیو وہار کے بعد اب ہم شاہین باغ  میں خطاطی کلاس کا آغاز کرنے پرغور کررہے ہیں ۔کیونکہ اول تو اس سے ایک آرٹ کو نئی زندگی ملے گی اور دوسرا یہ روزگار سے جڑے گا ۔

 آصف مجتبیٰ کہتے ہیں کہ ہم نے مشرقی دہلی کے دنگوں سے لاک ڈاون تک پریشان حال لوگوں کی ہرممکن مدد کی لیکن ہماری کوشش یہی رہی کہ ہر کسی کو اقتصادی طور پر کھڑا کیا جائے تاکہ وہ خود کمائے اور کھائے ۔ خود کفیل بنانے کو ترجیح دی ہے کیونکہ وقتی مدد مسئلہ کا حل نہیں ۔

awazurdu

جشن ریختہ میں مائلس ٹو اسمائل کا اسٹال اور آصف مجتبی 

سلائی اسکول کا آغاز 

 انہوں نے کہا کہ اب ایک نیا پروجیکٹ شروع کیا ہے جس کا نام ’’طہارت‘‘ رکھا ہے۔ جس کے لیے  شاہین باغ میں ایک جگہ لی ہے اور سلائی اسکول کھول رہے ہیں ۔ اس میں سینٹری پیڈ تیار کئے جائیں گےاورمقامی طور پر فروخت کریں گے۔اس کے ساتھ ہم اپنے اسکول کے یو نیفارم بھی اسی میں سلوائیں گے۔

وہ کہتے ہیں کہ  ہم اپنے ایسی اکائیوں کو عطیات کے بجائے محصول کی بنیاد پر کھڑا کررہے ہیں ۔کیونکہ ’چندہ چندہ ‘ کے نعرے  لگانے سے بہتر ہے کہ خود کماو اور خود کھاو ۔  ہم نے یہ نشانہ بنایا ہے کہ 2025 تک  اپنے تمام نظام کو محصول کی بنیاد پر خود کفیل بنا دیں گے۔

کہانی ابھی باقی ہے ۔۔۔

جشن ریختہ  میں ادب اور ثقافت کے مداحوں نے اس فلاحی ادارے کی جھلک دیکھی اور خطاطی کے آرٹ کو روزگار سے جوڑ نے کی پہل کو سراہا۔ مگرآصف مجتبیٰ کی جدوجہد کا صرف یہ ایک پہلو ہے ۔ ایک جھلک ہے۔

بے سہارا اور ضرورت مندو ں  کاو سہارا دینے کی کہانی مشرقی دہلی کے دنگوں کے بعد شروع ہوئی تھی اور ایک مثبت سوچ اور حکمت کے سبب بہت جلد اپنی پہچان بنا گئی۔ کیونکہ وہ وقتی مدد کے بعد کچھ ایسا کرنے پر یقین رکھتے ہیں جو کسی انسا ن کو محتاجی کے دور سے نکال کر خود کفیل  بنا دیتا ہے ۔ یعنی کرو،کماو اور کھاو ۔

دوسرا اہم پہلو ہے کہ مدد سب کے لیے۔ نہ مذہب اس کے آڑے آتا ہے اور ذات پات۔  مشرقی دہلی کے یتیم اور ضرورت مند بچوں کے لیے بنا اسکول سب کا ہے ۔ اس میں ہندو بھی ہیں اور مسلمان بھی۔

آصف مجتبی کی سوچ اب ایک تحریک کی شکل اختیار کررہی ہے ۔ ان کے اس مشن میں ہر دن ایک نئی کڑی جڑ رہی ہے جو کہیں نہ کہیں معاشرہ کو استحکام دے رہا ہے۔

 ہمت مرداں مدد خدا ۔۔۔۔ 

مائلس ٹو اسمائل کے مشن پر ایک نظر ڈالیں ۰۰۰

شمال مشرقی دہلی کے فسادات سے متاثرہ علاقے کے 250 بچے ہمارے ریلیف اسکول میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔

فاطمہ الفہری لرننگ سینٹر میں 45 روہنگیا پناہ گزین بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔

کرولی، راجستھان میں راحت اور بحالی کے کاموں میں 92 لوگوں سہارا دیا گیا۔

کھرگون، مدھیہ پردیش میں ریلیف اور بحالی کے کاموں میں 310 لوگوں کی مدد کی گئی

سینڈوا، مدھیہ پردیش میں ریلیف اور بحالی کے کاموں میں 86 لوگوں کو مدد پہنچائی گئی۔

جہانگیرپوری، نئی دہلی میں ریلیف اور بحالی کے کاموں میں 132 لوگوں کو سہارا دیا گیا

ہمت نگر اور روڑکی میں ریلیف اور بحالی کے کاموں میں 21 لوگوں کی مدد کی گئی

ہریانہ کے نوح میں مدرسہ امام بخاری میں 45 بچے حفظ کر رہے ہیں۔

نئی دہلی کے شیو وہار میں مدرسہ مفتاح القرآن میں 72 بچے حفظ کر رہے ہیں۔

سوچ کا کمال  ۔۔۔۔

آصف مجتبیٰ نے اس بات کو سمجھا کہ کسی بھی صورتحال اور حالات کے مارے لوگوں کے لیے کھانے  پینے کے بعد سب سے بڑا مسئلہ ان کے روزگار کا ہوتا ہے۔ جس کو حل کرنے سے زندگی ڈگر پر آجاتی ہے ۔ اس لیے ان کی مہم مائلس ٹو اسمائل  صرف لوگوں کو سہارا دیتی ہے بلکہ معاشروں اور افراد کو معاش کے باوقار ذرائع سے جوڑ کر انہیں پھلنے پھولنے کا راستہ بھی فراہم کرتی ہے۔ آصف مجتبی کا کہنا ہے کہ 2030 تک غربت کے خاتمے کے اقوام متحدہ کے پہلے ہدف میں نمایاں طور پر حصہ داری چاہتے  ہیں۔ ان کے مطابق ہم سمجھتے ہیں اگر آپ کسی کو مچھلی دیتے ہیں تو آپ انہیں ایک بار  کھلاتے ہیں اور اگر آپ مچھلی پکڑنا سکھاتے ہیں، تو آپ انہیں زندگی بھر کھانا کھلاتے ہیں۔

awazurdu

ایک سوچ ۔ ایک مشن 

آصف مجتبی کا کہنا ہے کہ ہماری کوشش رہتی ہے کہ ہم کسی کی مدد کریں تو پھر ایک دن وہ کسی اور کی مدد کرنے کے قابل ہوجائے۔ایسا اسی وقت ہوسکتا ہے جب وہ خود کفیل ہو۔مائلس ٹو اسمائل  کے تحت اس  وقت کئی پروجیکٹ چل رہے ہیں ۔ جن کا مقصد  تعلیم سے روزگار تک ہے 

شاگرد

شاگرد کے تحت غریب بچوں کی تعلیم کو اسپانسر مہیا کئے جاتے ہیں تاکہ ان کی زندگیوں میں تبدیلی لائی جاسکے ۔ فاؤنڈیشن نے بڑے پیمانے پر ڈیٹا بیس تیار کیا ہے۔جس میں ایسے بچوں کی تعداد کا ریکارڈ ہے جو یا فرقہ واریت کا شکار ہیں یا معاشی طور پر پسماندہ خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ لوگوں سے گزارش کی جاتی ہے کہ ان بچوں کو (جتنے چاہیں) اپنی تعلیم کی کفالت کے لیے گود لیں۔ یہ بچے اپنے گھر والوں کے ساتھ ہی رہتے ہیں۔ ان بچوں کو کچھ پیشہ ورانہ کورسز بھی سکھائے جاتے ہیں جن میں جیسے کوڈنگ، روبوٹکس اور گرافکس ڈیزائننگ شامل ہیں ۔

 فاطمہ الفہری تعلیمی مرکز

مائلس ٹو اسمائل  نے روہنگیا پناہ گزینوں کی زندگیوں کو معمول پر لانے کے لیے ہر ممکن کوشش کی۔ انہیں تمام ضروری سامان مہیا کیا، ان کے لیے ان کے گھر اور دکانیں دوبارہ تعمیر کیں۔ جبکہ ان کے بچوں کے لیے تعلیم کا انتظام کیا ۔تاکہ ان کا مستقبل تاریک نہ ہو

awazurdu

اسکول ایک بڑا مشن بن گیا 

سن رائز پبلک اسکول  ۔۔۔

 آصف مجتبیٰ کا کہنا ہے کہ "اگست 2020 میں، تشدد اور لاک ڈاؤن کے بعد میں نے کچھ ایسے خاندانوں سے ملاقات کی جنہوں نے کہا کہ وہ 'دوہری پریشانی' کی وجہ سے اپنے بچوں کی تعلیم کے متحمل نہیں ہیں۔ شروع میں ہم نے سوچا کہ ہم 10-15 پریشان حال خاندانوں کی فہرست بنا سکتے ہیں اور بچوں کی تعلیم کو اسپانسر کر سکتے ہیں۔ لیکن جب رضاکار اس سروے کرنے نکلے تو وہ 80 بچوں کی فہرست لے کر واپس آئے۔

آصف مجتبیٰ  نے ’آواز دی وائس ‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ایک وقت مائلس ٹو اسمائل نے شیو وہار میں ایک اسٹڈی پوائنٹ کا آغاز کرنے کا فیصلہ کیا تھا لیکن اس دوران لونی میں ’سن رائز پبلک اسکول ‘ سامنے آیا جو بحرانی حالات کا شکار تھا اور این جی او نے اسے لیز پر حاصل کرلیا۔ نومبر 2020میں میں اس کا آغاز ہوگیا تھا ۔

یوں یہ ا سکول 80 بچوں کے ساتھ شروع ہوا اور پچھلے دو سالوں میں طلباء کی تعداد 500 ہو گئی ہے۔ جن میں سے زیادہ تر کا تعلق فسادات سے متاثرہ علاقوں سے ہے، لیکن اسکول کے آس پاس کے بچے بھی ہیں۔ مجتبیٰ کے مطابق فسادات کے دوران 22 طلباء یتیم ہو گئے تھے۔

اس اسکول میں نرسری سے کلاس 8 تک بچوں کو پڑھایا جاتا ہے، جس کے بعد فاؤنڈیشن یا تو بچوں کو سرکاری اسکول میں داخل کرانے میں مدد کرتی ہے یا کسی پرائیویٹ اسکول میں ان کی تعلیم کو اسپانسر کرتی ہے۔

آصف مجتبی کہتے ہیں کہ  ہم اس  بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ضرورت مند کو اس کے پیروں پر کھڑا کیا جائے تاکہ ایک دن وہ بھی کسی کو سہارا دینے کا اہل بن سکے  نہ  کہ ہمیشہ  محتاج ہے۔