تعلیم کے بغیر نہ ہی سماج ترقی کر سکتا ہے اور نہ ہی ملک: ڈاکٹر مشتاق احمد

Story by  محفوظ عالم | Posted by  [email protected] | Date 30-05-2024
 تعلیم کے بغیر نہ ہی سماج ترقی کر سکتا ہے اور نہ ہی ملک: ڈاکٹر مشتاق احمد
تعلیم کے بغیر نہ ہی سماج ترقی کر سکتا ہے اور نہ ہی ملک: ڈاکٹر مشتاق احمد

 



محفوظ عالم: پٹنہ 

کامیابی ہر اس انسان کا مقدر بنتی ہے جو اپنے مقصد کے حصول کے تعلق سے مسلسل محنت کرتا ہے۔ خوشیوں کی منزل ہمیشہ محنت اور مشقت کا تقاضہ کرتی ہے۔ اس کائنات کا ذرہ ذرہ اسی لائحہ عمل پر چلتا ہے۔ انسانی زندگی کا دارو مدار ہی تعلیم و تربیت، محنت و مشقت اور جہد مسلسل پر منحصر کرتا ہے۔ تعلیم کے بغیر انسان ادھورا ہے، تعلیم ہی وہ طاقت ہے جس کی بنیاد پر ریاست اور بیرونی ریاست میں لوگ بڑی شخصیتوں کو صرف اتنا ہی نہیں کہ جاننے اور سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں بلکہ ان سے سبق بھی حاصل کرتے ہیں۔ اسی میں سے ایک اردو ادب کا ممتاز نام ڈاکٹر مشتاق احمد کا ہے۔ ڈاکٹر مشتاق احمد کا تعلق بہار کے میتھلانچل سے ہے۔ وہ دو درجن سے زیادہ کتابوں کے مصنف ہیں۔ آواز دی وائس نے ڈاکٹر مشتاق احمد سے تفصیلی بات چیت کی۔

مکتب کی تعلیم سے کالج تک کا سفر

21 نومبر 1967 کو بہار کے سکری میں پیدا ہوئے ڈاکٹر مشتاق احمد شروع سے ہی ایک ذہین اور با صلاحیت طالب علم رہے ہیں۔ سکری مدھوبنی ضلع میں واقع ہے۔ مشتاق احمد نے آواز دی وائس کو بتایا کہ ان کے گھر میں ایک روایت تھی کی بچوں کو پڑھانے کے لئے کسی نہ کسی مولوی کو رکھا جاتا تھا، وہ گھر پر آتے اور بچوں کو دینی تعلیم سے آراستہ کرتے۔ انہوں نے کہا کہ میرا خاندان دو ہی کام کرتا رہا ہے ایک زراعت اور دوسرا درس و تدریس۔ دادا سے لیکر والد محترم تک سب لوگ درس و تدریس سے جڑے رہے ہیں۔ مشتاق احمد نے بتایا کہ ان کے والد عبدالحکیم صاحب محکمہ ریلوے کے ایک اسکول جو کی آسام میں تھا وہ وہاں ٹیچر تھے۔ مشتاق احمد کا کہنا ہے کہ خاندانی پش منظر درس و تدریس کا رہا ہے نتیجہ کے طور پر میں نے شروع میں ہی یہ طے کر لیا تھا کہ مجھے کہاں جانا ہے۔ مشتاق احمد کی تعلیم کی شروعات ان کے گھر سے ہوئی جہاں انہوں نے دینی تعلیم حاصل کی، پھر سکری کے ایک مکتب میں ان کا داخلہ ہوا۔ سکری میں ہی ان کی اسکولی تعلیم کا سلسلہ شروع ہوا۔ ایس کے ہائی اسکول پنڈول مدھوبنی سے انہوں نے اسکول کی تعلیم حاصل کی۔ ڈاکٹر مشتاق احمد کے مطابق انہوں نے آر این کالج سے گریجویشن کی ڈگڑی حاصل کی اور دہلی سے ماس کمیونی کیشن سے پی جی کیا۔ ڈاکٹر مشتاق احمد کا کہنا ہے کہ اردو زبان سے چونکہ شروع سے بیحد لگاؤ تھا لہذا اردو سے انہوں نے ایم اے کیا، پھر پی ایچ ڈی کی ڈگڑی حاصل کی۔ اس کے بعد نیٹ اور جے آر ایف کیا۔

awazurdu پرانی یادیں  ۔۔۔۔ڈاکٹر مشتاق احمد دربھنگہ کالج میں 


جہد مسلسل کے بغیر کامیابی نہیں ہے

ڈاکٹر مشتاق احمد کا کہنا ہے کہ بغیر محنت اور جہد مسلسل کے زندگی میں کوئی کامیاب نہیں ہو سکتا ہے۔ کامیابی ہمیشہ مسلسل محنت کا تقاضہ کرتی ہے اور میں ایک بیحد سنجیدہ طالب علم تھا اور ہر وقت اپنی پڑھائی اور تحقیقی کاموں میں مصروف رہتا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ میرا تعلق ایک مڈل کلاس فیملی سے تھا۔ گھر کے لوگ یا تو کھیتی کرتے تھے یا پھر وہ درس و تدریس سے جڑے تھے۔ معاشی مسئلہ بہت زیادہ نہیں تھا۔ مجھے بچپن سے ہی کتابوں کو پڑھنے کا ذوق رہا ہے۔ انکا کہنا ہے کہ شروع سے ہی میرے گھر میں ہند اور پاک کے مشہور رسائل آیا کرتا تھا میں طالب علمی کے زمانہ میں اردو کے ان رسائل سے کافی قریب رہا۔ ہند پاک سے شائع ہونے والے رسالہ اور اخبارات کو میں پڑھتا تھا۔ شاعری اور ادب کے سبب اردو کی طرف رجھان بڑھتا گیا۔ اردو کو ایک کیریر کے طور پر انتخاب کرنے کا وجہ گھر کا ادبی ماحول تھا۔ انہوں نے کہا کہ پہلے میں سول سروسیز میں جانا چاہتا تھا لیکن بعد میں درس و تدریس میں جانا بہتر سمجھا۔

جب بحیثیت اردو لکچرر بحالی ہوئی

ڈاکٹر مشتاق احمد کا کہنا ہے کہ وہ اپنے والدین کے اکیلے اولاد ہیں۔ والدہ محترمہ کا انتقال قبل از وقت ہو گیا تو میری خالہ نے پوری طرح سے میری تربیت کی اور میری کامیابی میں ان کا بڑا کردار رہا ہے۔ انہوں نے کہا کی 1996 میں بحیثیت اردو لکچرر میری بحالی بہار کے مدھے پورا ضلع کے ایچ ایس کالج میں ہوئی۔ وہاں سے زندگی میں ایک بڑا بدلاؤ آیا۔ اردو زبان سے پہلے سے کافی گہرا رشتہ تھا۔  انگریزی اور میتھلی زبان پر بھی مجھے دسترس حاصل ہے۔ لہذا طلباء کو پڑھانے کے ساتھ ساتھ تحقیق کا با ضابطہ کام میں نے شروع کر دیا۔ ان کے مطابق قریب 30 کتابیں اب تک میری شائع ہو چکی ہے اور اردو ادب پر تحقیق کا کام لگاتار جاری ہے۔ ڈاکٹر مشتاق احمد 1980 سے صحافت سے بھی جڑے رہے ہیں اور لگاتار ان کا کالم اخبارات میں شائع ہوتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کالم نگاری میرا محبوب مشغلہ رہا ہے جس کے ذریعہ میں نے سماج میں علمی اور ادبی بیداری کا فریضہ انجام دیا ہے۔ واضح رہے کہ ان کا کالمز کے اب تک تین مجموعے شائع ہو چکیں ہیں۔ جہان فکر، چراغ فکر اور ایوان فکر کے نام سے۔ مشتاق احمد کا کہنا ہے کہ شاعری سے بھی ان کی کافی دلچسپی رہی ہے۔ طالب علمی کے زمانہ سے ہی شاعری کی طرف وہ مائل تھے۔ اپنی شاعری کی اصلاح وہ استاد فتح محمد مہر شکروی اور ابوالقیس قیصر سے لیا کرتے تھے۔ کالج میں اردو کی تعلیم دیتے ہوئے انہوں نے طلبا کے درمیان تعلیم اور ادب کے تئیں ذوق پیدا کرنے کی بھی کامیاب کوششیں کی ہے۔

awazurduآن لائن پروگرام کے دوران ڈاکٹر مشتاق احمد


جب پرنسپل بنے

ڈاکٹر مشتاق احمد 2009 میں ملت کالج دربھنگہ کے پرنسپل بنے۔ اس کے بعد میتھلا یونیورسیٹی کے متعدد کالجوں میں پرنسپل کے عہدہ پر فائض رہے۔ پھر میتھلا یونیورسیٹی کے رجسٹرار کا انہوں نے عہدہ سنبھالا۔ فیل وقت وہ سی ایم کالج دربھنگہ کے پرنسپل ہیں۔ ان کی اہم کتابوں میں تنقیدی بصیرت، تنقید کے تقاضے، مثنوی در شہوارمع تنقیدی مطالعہ، اقبال کی عصری معنویت، بہار میں اردو تحقیق و تنقید، آئینہ حیران ہے، زرد موسم کی نظمیں قابل ذکر ہے۔ اس کے علاوہ 2001 سے وہ ریسرچ جنرل جہان اردو کے نام سے نکال رہے ہیں، جس کے 98 شمارہ منظر عام پر آ چکیں ہیں۔ ڈاکٹر مشتاق احمد کی خوبی یہ ہے کہ وہ جس کام کو کرنے کا ارادہ کرتے ہیں اس کے پیچھے لگ جاتے ہیں اور جب تک وہ کام مکمل نہیں ہو تب تک وہ مسلسل اپنے کام میں مصروف رہتے ہیں۔ مشتاق احمد کا کہنا ہے کہ دراصل درس و تدریس اور تحقیق کا کام مسلسل محنت کا کام ہے اور جب تک کوئی شخص پوری مستعدی سے اس کام کو نہیں کرے گا ایمانداری سے نہ ہی تحقیق کا کام مکمل ہو سکے گا اور نہ ہی طلباء کے مستقبل کو سنوارا جا سکے گا۔ اسی لیے میرا طریقہ رہا ہے کہ جس کام کو میں ہاتھ میں لیتا ہوں اسے آخری دم تک پورا کرنے کی کوشش میں مصروف رہتا ہوں۔

طالب علموں کے درمیان ڈاکٹر مشتاق احمد

مشتاق احمد کا کہنا ہے کہ میں ایک جامع ثقافت میں یقین کرنے والا شخص ہوں۔ میرا ماننا ہے کہ سماج میں بھائی چارہ اور امن آشتی کے ساتھ تعلیم پر توجہ دینی چاہئے اور بغیر کسی تفریق کے سبھی طرح کے طلباء کو یکساں مواقع حاصل ہونا چاہئے۔ اس خیال کے مدنظر میں نے اب تک طلباء کو تعلیم دینے اور ان کی تعلیمی مدد کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ جس کالج میں بھی پرنسپل کے عہدہ پر رہے وہاں انہوں نے مفت کوچنگ کا انتظام کیا۔ بلخصوص مسلم طلباء کے لیے انہوں نے کئی طرح کی حکمت عملی اپنائی اور تعلیمی بیداری لانے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بی پی ایس سی، داروغہ اور اردو ٹیچر کی تقرری میں ان کے کوچنگ سے سیکڑوں بچہ کامیاب ہو چکیں ہیں اور یہ سلسلہ ہنوز جاری رہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنے طلباء کو اعلیٰ سے اعلیٰ مقام تک پہنچانے کی کامیاب جدوجہد کرتے رہے ہیں۔ ڈاکٹر مشتاق احمد کے مطابق ہر شخص کو سماجی اصلاح اور سماجی بیداری کے کاموں میں دلچسپی لینی چاہئے۔ مشتاق احمد کا کہنا ہے کہ سماجی کاموں میں خاص طور سے مسلم معاشرہ میں تعلیمی اور سماجی اصلاح کی جائے۔ اس حوالہ سے میں نے کافی کام کیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ سماجی ترقی اور تعلیمی بیداری کا کام وہ اپنے طالب علمی کے زمانہ سے ہی کرتے آ رہے ہیں۔

awazurduمرحوم شاعر راحت اندوری کے ساتھ ڈاکٹر مشتاق احمد 


جو کام بھارت کے مسلمانوں کو کرنا چاہئے

ڈاکٹر مشتاق احمد کا کہنا ہے کہ دوران طالب علمی سے ہی میں نے گاؤں اور دیہی علاقوں میں تعلیم کے تئیں لوگوں کو بیدار کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ میری یہ فکر رہی ہے کہ بھارت کے مسلمانوں کے لیے سب سے اہم کام جو ہو سکتا ہے وہ یہ کہ وہ تعلیم کے سلسلے میں اپنی شناخت قائم کرے۔ انہوں نے کہا کہ بات اکثر یہ ہوتی ہے کہ مسلمان تعلیمی اعتبار سے بدحال ہیں یا سماجی سطح پر وہ کافی پیچھے ہیں تو اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے تعلیم کو ہی نظر انداز کر دیا ہے۔ میرا ماننا ہے کہ تعلیم کو اپنی زندگی کا ترجیحی معاملہ بنایا جائے۔ تبھی وہ اپنی ایک شناخت قائم کر سکتے ہیں ساتھ ہی ساتھ ان کی معاشی مشکلوں کا حل نکل سکتا ہے۔ ان کی ضرورتیں پوری ہو سکتی ہے اور ان کا مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔ ڈاکٹر مشتاق احمد کا کہنا ہے کہ اس حوالہ سے میں نے دربھنگہ میں کافی کام کیا ہے۔ میں اپنے طلباء سے بھی یہ اپیل کرتا رہا ہوں کہ جو لوگ ہمارے کالج سے یا ہمارے مفت کوچنگ سے پاس کر کے ملازمت میں جا رہے ہیں وہ جہاں بھی رہے لیکن تعلیمی بیداری کی شمع ضرور روشن کرتے رہے۔ ڈاکٹر مشتاق احمد کا کہنا ہے کہ تعلیم کے بغیر نہ ہی سماج ترقی کر سکتا ہے اور نہ ہی ملک۔ انہوں نے کہا کہ اس بات پر مسلم دانشوران اور سماجی رہنماؤں کو خاص طور سے توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

کتابوں کی محبت بلندیوں پر پہنچاتی ہے

ڈاکٹر مشتاق احمد نے کہا کہ طلباء کو اپنی زندگی میں بدلاؤ لانے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ جب میں طالب علم تھا تو پڑھائی کو لیکر کافی سنجیدہ رہا۔ اپنا وقت کبھی بھی ضائع نہیں کیا۔ مشتاق احمد کا کہنا ہے کہ وقت ہی انسان کی زندگی ہے اور طلبا کو وقت ضائع نہیں کرنا چاہئے بلکہ انہیں اپنے گول پر اور اپنے مقصد کے حصول پر خاص توجہ دینا چاہئے۔ مشتاق احمد کا کہنا ہے کہ کتابوں سے میری ایسی محبت تھی کی اپنے ابتدائی تعلیم کے دوران بھی میں خوب رسالہ پڑھا کرتا تھا۔ جب کالج میں پہنچا تو میرا زیادہ تر وقت لائبریری میں گزرتا تھا۔ انہوں نے کہا طالب علم کو کتابوں سے محبت ہونی چاہئے۔ بلاشبہ کتابوں کی محبت انہیں کامیابی کی بلندیوں پر پہنچائے گی۔ انہوں نے کہا کہ میں طلباء کو یہ پیغام دینے کی کوشش کرتا ہوں اور اس میں کافی حد تک میں نے کامیابی بھی حاصل کی ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ کافی بچیں کالج کے مفت کوچنگ کے انتظام سے سرکاری ملازمت کا حصہ بن چکیں ہیں۔

خاندانی پش منظر

ڈاکٹر مشتاق احمد کی شادی 11 اکتوبر 1990 میں ہوئی۔ ان کی اہلیہ ڈاکٹر رابعہ بیگم بھی پی ایچ ڈی ہیں اور راجیندر گرلس ہائی اسکول میں ٹیچر کے عہدہ پر فائض ہیں۔ ڈاکٹر مشتاق احمد کے تین بچہ ہیں۔ بڑی بیٹی بائیو ٹکنالوجی میں علی گڑھ مسلم یونیورسیٹی سے پی ایچ ڈی کیا ہے اور ایک جونیئر سائنٹیسٹ کی حیثیت سے وہ کام کر رہی ہیں۔ ان کے ایک فرزند جے این یو سے پی ایچ ڈی کر رہے ہیں اور دوسرے نے ایم بی بی ایس کیا ہے اور ایم ایس کی تیاری کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر مشتاق احمد کے مطابق وہ تعلیم و تحقیق کے ساتھ دینی، ملی اور فلاحی کاموں میں مصروف عمل ہیں۔

awazurdu

ڈاکٹر مشتاق احمد کی ز۔دگی کے دو اہم پڑاو ۔۔ اول شادی اور دوسرا پی ایچ ڈی