ہندوستان میں حفظان صحت ابھی تک چیلنج کیوں ؟

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 15-05-2021
 ہمیں ہمارے ملک  کے  معالجین  اور حفظان صحت  کے نظام  کے  قابل تحسین رول کی قدر   کرنی  چاہئے
ہمیں ہمارے ملک کے معالجین اور حفظان صحت کے نظام کے قابل تحسین رول کی قدر کرنی چاہئے

 

 

پروفیسر دھیرج شرما ، ڈائریکٹر ، آئی آئی ایم روہتک

میڈیا میں دکھائی جانے والی بستر کے لئے اسپتالوں کے باہر جدوجہد کر رہے عوام کی دل چیر دینے والی تصویریں اب معمول کی بات ہو گئی ہے ۔ مشہور شخصیات کو بھی گلہ ہے کہ انہیں اس دوران بستر کے لئے گھنٹوں انتظار کرنا پڑا۔ ویسے تو ہمارے ملک کا موازنہ برطانیہ اور امریکہ کے ساتھ کیا جاتا ہے ۔ لیکن ہمارے ملک ہندوستان میں صحت کا نظام بلا شبہ  لاپرواہی کا شکار ہے ۔ نظام کے نذدیک انفرادی تکلیف کی کوئی حیثیت نہیں ہے لہذا تڑپتے ہوئے مریضوں کو اسپتالوں میں بستر کے لئے گھنٹوں انتظار کرنا پڑتا ہے۔

دہلی اور اس سے ملحقہ علاقوں پر مشتمل ایک حالیہ تحقیق میں اس بات کی پڑتال کی گئی کہ ام طور پر ایک مریض کو اسپتال پہچنے کے کتنی دیر کے بعد بسترنصیب ہوتا ہے ۔ اسپتال میں داخل ہونے والے 284 کوو ڈ مریضوں کے سیمپل میں یہ انکشاف ہوتا ہے کہ ایک شخص کو اسپتال میں داخل کروانے میں اَوسَطاً 2 گھنٹےکا وقت لگتا ہے ۔ یہ اعداد و شمار صرف نان ٹراما اسپتالوں کے ہیں۔ اب اس اَوسَطاً 2 گھنٹے سے بھی کم وقت کی جانچ پڑتال کرنے کی ضرورت ہے۔ مزید یہ کہ کیا کوئی بھی اعلی درجے کے اسپتال جیسے ایمس ، پی جی آئی ، وغیرہ میں داخل ہوسکتا ہے یا پھر کیا کوئی براہ راست امریکہ اور برطانیہ کے کسی اسپتال میں داخل ہوسکتا ہے۔ 100 فیصد جواب دہندگان اسپتال آنے سے قبل کسی بھی میڈیکل ڈاکٹر یا اسپتال میں نہیں گیۓ تھے۔ 64 فیصد نے ٹیلیفونک مشورے لئے اور بقیہ افراد کو ان کے خدمت گاروں ، کنبہ کے افراد نے اسپتال جانے کا مشورہ دیا تھا کیونکہ ان کی علامات میں مزید بگاڑ پیدا ہو رہا تھا ۔ اب یہاں یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ کیا یہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ یا برطانیہ کے تناظر میں ممکن ہے یا نہیں۔

برطانیہ میں اے اینڈ ای (حادثات اور ہنگامی صورتحال) کے علاقے میں اوسطا انتظار کا وقت 1997 سے قبل چھ گھنٹے کا ہوتا تھا۔ وزیر اعظم ٹونی بلیئر نے قومی صحت سروس کے لئے ایک اہم ہدف متعین کیا جس میں مریض حادثات اور ہنگامی صورتحال کے محکمہ میں انتظار کے زیادہ سے زیادہ وقت کو چار گھنٹے کرنا تھا ۔ اگرچہ یہ اس وقت ایک مشکل کام تھا لیکن یہ پتہ چلا کہ اگر اسے حاصل کر لیا جاتا ہے تو یہ برطانیہ میں قومی حفظان صحت کے لئے غیر معمولی کامیابی ہوگی۔ نتائج ویسے تو اتنے حوصلہ افزا نہیں تھے۔ دی گارڈین میں جان کارول (2003) کے لکھے گئے مضمون میں اور بعد میں 2009 میں کیلیمین اور فریڈمین کے مقالے میں میں حوالہ دیا گیا تھا ، انگلینڈ میں حادثات اور ہنگامی صورتحال کے محکمہ کے دوتہائی افراد نے انتظار کے اوقات میں بہتری کے اعداد و شمار کو جعلی قرار دیا تھا۔ دوسرے الفاظ میں انتظار کا وقت اصلاحات کے بعد بھی زیادہ رہا۔ ہارورڈ بزنس ریویو کے ایک مضمون کے مطابق جو نیکوس ساوا اور ٹولگا تیزکن نے سن 2019 میں لکھا تھا ، ریاست ہائے متحدہ امریکا میں مریضوں کی ایمرجنسی میں داخلے کے لئے اوسطا انتظار کا وقت ڈیڑھ گھنٹے کا ہے۔ اسی مضمون میں یہ بھی انکشاف ہوا کہ ایمرجنسی میں آنے والے ہڈیوں کے مریضوں کو اوسطا 54 منٹ انتظار کرنا پڑا۔ اسپتال میں داخلہ لینے اور اس کی خدمات حاصل کرنے سے قبل کا ہر ایک منٹ کسی شخص کے لئے انتہائی مشکل اور تکلیف دہ ہوتا ہے ۔ مجھے نہیں پتہ کہ ہمارے پاس اس معاملے کو حل کرنے کے لئے دنیا کے دیگر حصوں میں کوئی تیز رفتار نظام موجود ہے یا نہیں۔

دوسرا ، کیا مریض براہ راست یوکے اور امریکہ کے کسی اسپتال میں جاسکتا ہے؟ برطانیہ اور امریکہ دونوں کے پاس ریفرل سسٹم ہے۔ دوسرے لفظوں میں جو بھی اس کے اہل ہیں اس کے پاس بنیادی نگہداشت کا معالج (عمومی معالج) ہوگا۔ بنیادی نگہداشت کا یہ معالج مریض کو تشخیص اور مزید علاج کے لئے ریفر کرتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں ، مریض معالجین کے ذریعہ ہی اسپتالوں میں بھیجا جاتا ہے۔ یہ صرف ہنگامی حالات میں ہوتا ہے جب مریض براہ راست اسپتال میں آسکتا ہے۔ تاہم ، ہندوستان کے تناظر میں ، زیادہ تر مریض جو او پی ڈی میں آتے ہیں وہ اسپتالوں میں آنے سے پہلے پرائمری ہیلتھ کیئر سنٹرز ، جنرل فزیشنز ، محلہ کلینک وغیرہ میں نہیں جاتے ۔ ہندوستان میں ڈاکٹر روزانہ سرکاری اور غیر سرکاری اسپتال میں سیکڑوں او پی ڈی مریضوں کی دیکھ بھال کرتے ہیں ۔ یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ہندوستان میں حفظان صحتکے نظام میں دوسرے ممالک کے مقابلے کم امتیاز برتا ہے۔ جب کہ ہندوستانی او پی ڈی میں مریض آتے ہیں اور گھنٹوں انتظار کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود ہمارے ہندوستانی ڈاکٹر ان کو مایوس نہیں کرتے ۔ ہمارے بیان کردہ 100 فیصد جواب دہندگان فون پر یا ذاتی طور ملاقات کے بعد کچھ ہی گھنٹوں کے اندر طبی مشورہ حاصل میں کامیاب ہوگئے۔ جب وقت کا تخمینہ لگانے کے لئے ان سے پوچھا گیا تو 94فیصد نے بتایا کہ وہ ایک گھنٹہ سے بھی کم وقت میں فون پر ڈاکٹر سے مشوره لینے میں کامیاب ہو گیۓ اور 88 فیصد اسی دن ڈاکٹر کے ساتھ ملاقات کا وقت طے کرنے کے قابل تھے۔ واضح رہے کہ کچھ جدید ممالک کے مریضوں کے لئے بھی اسی دن یا اگلے دن ڈاکٹر کی تقرری حاصل کرنا آسان نہیں ہے۔ گیارہ ممالک کا کامن ویلتھ فنڈ انٹرنیشنل ہیلتھ پالیسی سروے ان بالغوں کا فیصد بتاتا ہے جو ضرورت پڑنے پر اسی دن یا اگلے دن کی تقرری حاصل کرنے کے اہل تھے 

یہ دلچسپ بات ہے کہ ان ممالک میں زیادہ تر آبادی (امریکہ اور برطانیہ کے علاوہ) تقریبا دہلی کے برابر یا اس سے بھی کم ہے۔ برطانیہ کی آبادی صرف راجستھان جتنی ہے۔ صحت کی دیکھ بھال کی فراہمی ہماری آبادی اور محدود وسائل کی وجہ سے مستقبل قریب میں بھی ایک چیلینج رہے گی لیکن اس میں ان کا کوئی قصور نہیں جو خدمات فراہم کررہے ہیں۔ حالانکہ اس میں بہتری ، اضافے اور جدت لانے کے طریقوں کو تلاش کرنے کے لئے کوشش جاری رکھنی چاہئے لیکن اس کے ساتھ ہی ہمیں ہمارے ملک کے معالجین اور حفظان صحت کے نظام کے قابل تحسین رول کی بھی قدر  کرنی چاہئے ۔