کیا مولانا آزاد مسلح انقلابی تھے؟

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 10-11-2021
کیا مولانا آزاد مسلح انقلابی تھے؟
کیا مولانا آزاد مسلح انقلابی تھے؟

 

 

awaz the voice

ثاقب سلیم، نئی دہلی

 آزاد ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم مولانا ابوالکلام آزاد کوسیاسی اعتبار سے اکثر مہاتما گاندھی کے فلسفہ عدم تشدد کے پیروکار کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ انہیں ایک اسلامی اسکالر کی شکل میں بھی دیکھا جاتا ہے، اگرچہ انہوں نے متعدد دفعہ انڈین نیشنل کانگریس کے صدر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں اور آزادی ہند سے قبل انگریزوں کے ساتھ مذاکرات میں ہندوستان کی نمائندگی کی۔

مولاناابوالکلام آزاد فلسفہ عدم تشدد پر یقین رکھے تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بہت سارے مورخین نے محمد علی جناح کے ان الزامات کو دہرایا ہے کہ آزاد ایک 'ہندو' کانگریس کے علامتی مسلم رہنما تھے۔ تاہم مولانا  آزاد کے تعلق سے یہ تمام تصورات ان کی شبیہ کو بگاڑنے کی مانند ہیں۔

حالاں کہ سچائی یہی ہے کہ وہ ایک ایسے ویژنری رہنما تھے جنہوں نے بیک وقت اسلام اور ہندوستان دونوں کی خدمت کی تھی۔ وہ ایک ایسے باعظمت رہنما تھے جنہوں نے اپنے ہم مذہبوں کے سامنے ہمیشہ سچائی کو پیش کیا۔ وہ ایک ایسے انقلابی شخص تھے، جنہوں نے غیر ملکی حکمرانوں کے خلاف ہتھیار اٹھایا تھا۔ وہیں وہ ایک ایسے سیاستداں تھے،جنہوں نےآئینی طریقوں سے ملک کی خدمت کی۔

اگرچہ لوگوں نے ان کی شخصیت کے متعدد پہلوؤں پر روشنی ڈالی ہے وہیں یہ حقیقت بھی نظر انداز کر دی گئی کہ مولانا ابوالکلام آزاد دراصل ایک انقلابی رہنما تھے، جو برطانوی حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے پرتشدد طریقوں پر یقین رکھتے تھے۔اگرچہ لوگوں نے ان کی شخصیت کے متعدد پہلوؤں پر روشنی ڈالی ہے وہیں یہ حقیقت بھی نظر انداز کر دی گئی کہ مولانا ابوالکلام آزاد دراصل ایک انقلابی رہنما تھے، جو برطانوی حکومت کا تختہ لٹنے کے لیے ہتھیاروں کے استعمال پر یقین رکھتے تھے۔

ان کے اپنے الفاظ میں: 'میرا خیال تھا کہ ہندوستانیوں کو یہ حق ہے کہ وہ چاہیں تو آزادی ہند کے لیے تلوار اٹھا سکتے ہیں تاہم ملکی حالات کے تحت گاندھی جی کا طریقہ زیادہ درست ہے۔

انہوں نے مزید کہا تھا کہ عدم تشدد سے لڑنے کا ہمارا فیصلہ حالات کی مجبوری میں کیا گیا ہے اور اگر آزادی بذور شمشیرلڑی گئی تو میں اس ضرورحصہ لوں گا۔ جب 1905 میں بنگال کی تقسیم کے خلاف سودیشی تحریک چلی تھی، انہوں نے برطانوی سلطنت کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ اس وقت مولانا آزاد کولکاتہ میں تھے۔

ان دنوں انہوں نے اپنی اسلامی، ادبی اور فلسفے کی تعلیم مکمل کی تھی۔ وہ مسلمانوں میں پھیلی ہوئی دقیانوسی سوچ سے مایوس تھے۔ تاہم انہوں نے مسلمانوں کو دقیانوسی سوچ سے نکالنے کے لیے اپنے قلم کو سہارا بنایا۔

انہوں اس سلسلے میں لکھا کہ یہ وہ وقت تھا جب کہ میں نے قلمی نام 'آزاد' اختیار کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ یہ ظاہر کیا جا سکے کہ میں اب اپنے رسمی وروایتی عقائد سے منسلک نہیں ہوں۔

وہیں ان دنوں آزاد نوجوان تھے،تعلیم یافتہ بھی تھے، اس وقت وہ بنگال کے سیاسی صورت حال سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے ۔ خیال رہے کہ اس وقت جگانتر اور انوشیلن سمیتی، بنگال میں غیر ملکی حکمرانوں کے خلاف مسلح جدوجہد کی قیادت کر رہی تھی۔

تاہم ان تنظیموں کے ارکان صرف ہندو تھے اور کوئی مسلمان اس کا رکن نہیں تھا۔ آزاد نے محسوس کیا کہ ایک ایسے وقت میں، جب قوم ایک نئی صبح سے روبرو ہونے والی تھی، مسلمان، جنہیں اس آزادی کی جدوجہد کی قیادت کرنی چاہیے، یا تو وہ خاموش تھے یا برطانوی سلطنت کے ساتھ تعاون کر رہے تھے۔

آزاد نے مسلمانوں کو متبنہ کیا تھا کہ اگر مسلمانوں نے اپنے رویہ میں تبدیلی نہ لائی تو مورخ انہیں کبھی معاف نہیں کرے گا، بلکہ وہ لکھے گا کہ جب ہندوستان ترقی اور مکمل آزادی کی طرف گامزن ہوا تو ہندو اپنی جانیں قربان کرنے کے لیے پیش پیش تھے، لیکن مسلمانوں نے اپنے آپ کو غاروں کے اندر چھپا لیا تھا۔

جب آزاد نے اس قسم کی بات لکھی تو ان کی فریاد رائیگاں نہیں گئی۔ ان کی پکار پر مسلمان اٹھ کھڑے ہوئے۔ آزاد خود اروبندو گھوش سے ملے اور ان کے مسلح انقلابی گروپ میں شامل ہو گئے۔ اس انقلابی گروپ متعدد دوسرے مسلمان بھی شامل ہو گئے۔ یہ ہندوستان کی جدوجہد آزادی کے ایک نئے باب کا آغاز تھا، اب ہندو اور مسلمان خفیہ انقلابی گروپ کے جھنڈے تلے شانہ بشانہ لڑ رہے تھے۔

آزادی ہند کے مقبول انقلابی رہنما اربندو گھوش کا آزاد پر گہرا اثر ہوا۔ آزاد کے خلاف سی آئی ڈی کی تیار کردہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ انہوں نے اربندو گھوش کے مانیک ٹولہ گیتا اسکول کے طرز پر ایک مدرسہ دارالارشاد قائم کیا۔ مدرسہ پرمسلمان طلباء میں برطانیہ مخالف اور قوم پرست جذبات پھیلانے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔

آزاد چاہتے تھے کہ زیادہ سے زیادہ مسلمان جدوجہد آزادی میں شامل ہوں۔ 1912 میں مسلمانوں میں قوم پرستی کا پیغام پھیلانے کے لیے انہوں نے ہفتہ وارالہلال شروع کیا۔ جلد ہی، قارئین کی تعداد26000 تک پہنچ گئی، جواس زمانےکے حساب سے بہت زیادہ تھی۔

اسی وقت آزاد نے ایک مسلح انقلابی گروپ حزب اللہ کوبھی منظم کیا۔ اس گروپ میں 1700 سے زائد ممبران تھے، جنہوں نے آزادی کے لیے اپنی جان قربان کرنے کا حلف اٹھایا تھا۔ سن 1916 میں برطانوی انٹیلی جنس نے ریشم کے کپڑے پر لکھے ہوئے تین خفیہ خطوط برآمد کیے۔

ان خطوط سے انگریزوں کو ہندوستان میں اپنی سلطنت کی جڑیں ہلتی ہوئی نظر آئیں اور انہیں ہندوستانیوں کی خفیہ سازشوں کا بھی علم ہوا۔افغانستان میں راجہ مہندر پرتاپ، برکت اللہ اور عبید اللہ سندھی کی قیادت میں ایک عارضی حکومت پہلے سے ہی قائم ہو چکی تھی۔ حکومت فوج تیار کر رہی تھی اور اسے ترکی، جرمنی اور چند دوسرے ممالک کی حمایت حاصل تھی۔

اس عارضی حکومت نے یہ منصوبہ بنایا تھا کہ ہندوستان میں انگریزوں پر حملہ کرنا تھا۔ اس کے بعد تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی کہ آزاد اس منصوبہ کے کلیدی کردارہیں۔ جب عبید اللہ اپنے مشن کے لیے افغانستان جا رہے تھے تو آزاد نے اس مشن کے لیے فنڈز اکٹھا کیے تھے۔ آزاد اس مشن کے اصل منصوبہ سازوں میں سے ایک تھے جنہوں نے انگریزوں کو خوفزدہ کر دیا تھا۔

تحقیقات کے دوران انگریزوں کو پتہ چلا کہ مولانا ابوالکلام آزاد ایک انقلابی تنظیم چلا رہے ہیں، وہ انگریز مخالف اخبارات اور کتابیں شائع کر رہے ہیں اور اپنے اداروں کے ذریعے حب الوطنی کی تبلیغ کر رہے ہیں۔

دریں اثنا مولانا آزاد کو رانچی میں گرفتار کر لیا گیا۔ یہ 1916 کا سال تھا۔ اس وقت تک مہاتما گاندھی اور جواہر لعل نہرو آزادی ہند کی جدو جہد میں پوری طرح سے فعال نہیں ہوئے تھے۔ اگرچہ اس منصوبے پر کامیابی کے ساتھ عمل نہ کیا جا سکا تاہم آزادی ہند کی جدوجہد میں مسلمان سب سےآگےآگئے۔

سن 1920 میں رہائی کے بعد مولانا آزاد نے مہاتما گاندھی سے ملاقات کی اور عدم تشدد کی تحریک کے خیال سے متاثر ہوئے۔دراصل یہ خیال ٹالسٹائی( Tolstoy) کے طریقہ کار سے مشابہ تھا جسے آزاد نے پہلے ہی پڑھا ہوا تھا۔

یہی وہ وقت تھا جب آزاد نے یہ مانا کہ ہندوستانی ہتھیاروں کے سہارے آزادی کی جنگ نہیں جیت سکتے ہیں، اس لیے عدم تشدد ہی آزادی ہند کی جدوجہد حاصل کرنے میں معاون ہے۔