اپنے ہر شعر پر والی کوئی پہچان لگا

Story by  عمیر منظر | Posted by  [email protected] | Date 21-12-2025
اپنے ہر شعر پر والی کوئی پہچان لگا
اپنے ہر شعر پر والی کوئی پہچان لگا

 



ڈاکٹر عمیر منظر

ایسوسی ایٹ پروفیسر

مانو لکھنؤ کیمپس

آزادی کے بعد لکھنؤ کے جن شعرا نے اپنا اعتبار قائم کیا اور ہندستان کے عام شعری حلقوں میں اپنے اثرات مرتب کیے ان میں ایک نمایاں نام والی آسی بھی تھا۔والی آسی نرے شاعر نہیں تھے وہ ادبی اعتبار سے بہت باخبر انسان تھے۔ادب کے دوسرے حوالوں پر بھی ان کی گہری نگاہ تھی۔غزل کے علاوہ نعتیہ شاعری کے میدان ساجد صدیقی کے اشتراک سے ان کی مرتبہ دوکتابیں نعتیہ ادب کے فروغ کا ذریعہ ثابت ہوئیں۔یہ کام انھوں نے آزادی کے بعد دس پندرہ برسوں کے دوران ہی کرلیا تھا۔پہلی کتاب ”ارمغان نعت“بنیادی طورپر نعتوں کا ایک نہایت عمدہ انتخاب ہے جس میں عربی،فارسی اور قدیم اردو کی نعتوں کے انتخاب کے ساتھ ساتھ جدید اردونعت کا سلسلہ محسن کاکوروی سے شروع کیا گیا ہے۔کتاب کے آخری نعت گو کے طورپر کلیم عاجز کی نعت شامل ہے۔ اس کے علاوہ انھوں نے مکتبہ دین و ادب سے ایک خوب صورت سلسلہ ”گل افشانیاں“کے نام سے کیا تھا۔دراصل نعت گو شعرا کا ایک بامعنی انتخابی سلسلہ تھا۔اس نوع کے انتخاباتکم وبیش پچاس صفحات پر مشتمل ہوتے تھے جس میں صاحب کلام کے تعارف کے علاوہ ان کا کلام اور کچھ متفرق اشعاربھی شامل ہوتے۔والی آسی کی یہ کتابیں تقریباً نایاب ہیں۔ مرزا غالب کے لطیفے اور جواہر پارے بھی انھوں نے ساجد صدیقی کے اشتراک سے مرتب کیا۔اس کے علاوہ مہاتماگاندھی سے متعلق اردو میں شعرا نے بطور خراج عقیدت جونظمیں کہی ہیں انھیں بھی مرتب کیا ہے۔1969میں یہ کتاب شائع ہوئی اور تقریباً سو (100)کے قریب شاعروں کاکلام اس میں موجود ہے۔ابھی تک ان کاکوئی شعری مجموعہ نہیں آیا ہے۔مکتبہ دین و ادب کے نام سے ان کی جو ایک شعری تربیت گاہ تھی اس نے بے شمارلوگوں کو فیض پہنچایا اور خود ان کے تعارف کا ایک معتبرذریعہ بنی۔ان حوالوں سے یہ بات سمجھی جاسکتی ہے کہ والی آسی کو صرف مشاعروں کے تناظر میں نہیں دیکھا جاسکتا۔

اس سے ا نکار نہیں کیا جاسکتا کہ والی آسی کے فکر وفن کے بہت سے پہلو ان کی شاعری کے حوالے سے ہی سامنے آتے ہیں۔”موم“ اور”شہد“کے مطالعہ سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ والی آسی کا مطالعہ بہت وسیع ہے۔وہ اردو کی کلاسیکی شاعری پر گہری نگاہ رکھتے ہیں۔ولی و سرا ج اور میر و غالب کے اشعار کی بہت سی فنی باریکیوں سے ہنرمندی کے ساتھ استفادہ کا کمال انھیں حاصل ہے۔مشکل اور مشہور زمینوں میں اچھے شعر کہنے کا جوکھم بھی وہ اٹھا چکے ہیں۔یہ بات مزید ان کے حق میں جاتی ہے کہ انھوں نے جس گھر اور ماحول میں آنکھ کھولی وہ اردو شعر وادب کا ماحول تھا۔ان کے والد مولانا عبدالباری آسی الدنی تمام اصناف سخن پر طبع آزمائی کرچکے تھے۔ ان کی کتابوں کی تعداد دودرجن سے زائد ہے۔انھوں نے ظریف شاعروں کا ایک تذکرہ بھی تالیف کیا تھا۔ان کے شاگردوں میں شوکت تھانوی اور مجروح سلطان پوری کے نام شامل ہیں۔اس تناظر میں بھی والی آسی کو دیکھاجانا چاہیے۔

والی آسی کاشمار مشاعروں کے مقبول شعرا میں کیا جاتا رہا ہے۔ آج سے کم و بیش تین دہائی قبل جب مشاعرے ادبی تربیت گاہ تصور کیے جاتے تھے ملک و بیرون وہ نہایت سرگرمی کے ساتھ مدعو اور پسند کیے جاتے تھے۔راقم الحروف کو بھی اسی زمانے میں انھیں متعدد بار سننے کا موقع ملا۔اس وقت جن شعرا کو ان کے ایک خاص آہنگ اور لہجے کی وجہ سے پسند کرتا تھا ان میں والی آسی کے علاوہ،شاعر جمالی، رئیس انصاری اور چند برس بعداسی فہرست میں ایک نام منور رانا کا اضافہ ہوگیا۔حالانکہ اب اس میں بہت تبدیلی آچکی ہے۔اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ آزادی بعد لکھنؤ کے سرگرم اوراہم شعرا کی فہرست والی آسی کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتی۔ان کے مجموعہ کلام،، موم“ اور ”شہد“کے مطالعہ سے بھی اس کا بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے۔

والی آسی کا کلام متعدد خوبیوں کا حامل قرار دیا جاسکتاہے۔چونکہ انھوں نے کثرت سے مشاعرے پڑھے بلکہ وہ مشاعروں کی ضرورت بن گئے تھے اس لحاظ سے ان کے کلام میں روانی اور آسانی کے ساتھ مضمون باندھنے کا ہنر خوب ملتاہے۔وہ اپنی بات خوبی کے ساتھ ترسیل کرتے تھے۔اندازو اسلوب بھی متاثر کن ہے۔سامنے کے تجربات کو ایک خاص شعری آہنگ عطا کرکے اسے دوچند کردیتے ہیں۔

مرے فسانے کو یوں لازوال اس نے کیا

کہ نام میرا ہوا اور کمال اس نے کیا

 

سمجھ رہے تھے جو اب تک وہ اب نہ سمجھا جائے

یہ عرض ہے کہ ہمیں بے سبب نہ سمجھا جائے

 

سنو یہ غم کی سیہ رات جانے والی ہے

ابھی اذان کی آواز آنے والی ہے

 

اندر اندر تو بہت ٹوٹ چکے ہیں لیکن

سربازار بکھرنا بھی نہیں چاہتے ہیں

یہ اشعار ان کی فنی ہنر مندی اور گہرے مشاہدے کے بھی حامل قرار دیے جاسکتے ہیں۔پہلا شعر خاص لکھنوی لہجے سے عبارت ہے۔اپنی یافت کو دوسرے کے حصے میں ڈالنا۔وہی سیلقہ مندی دوسرے شعر کا بھی جوہر ہے۔لفظ عرض خاص توجہ طلب ہے۔تیسرے شعر میں اذان یقین کے معنی میں ہے۔آخری شعر ضبط اور تحمل کا استعارہ قرار دیا جاسکتا ہے۔

حالات حاضرہ اور عام انسانی مسائل کو بیان کرنے میں بھی انھیں خاصی مہارت تھی۔ان کے پڑھنے کا ایک خاص انداز بھی تھا ایسا محسوس ہوتا تھا کہ جیسے کوئی بہت ڈوب کرشعر پڑھ رہا ہے۔وہ جو کچھ بیان کررہا ہے اس کو بہت گہرائی سے اس نے محسوس کیا ہے یا اس پروہ گذرچکاہے۔ان کے بہت سے اشعار زبان زد خاص و عام کا بھی درجہ رکھتے ہیں۔

وقت ہر ظلم تمہارا تمہیں لوٹا دے گا

وقت کے پاس کہاں رحم و کرم ہوتاہے

 

ہم خون کی قسطیں تو کئی دے چکے لیکن

اے خاک وطن قرض ادا کیوں نہیں ہوتا

 

دن بھر غموں کی دھوپ میں جلنا پڑا مجھے

راتوں کو شمع بن کے پگھلنا پڑا مجھے

 

تکلف سے تصنع سے اداکاری سے ملتے ہیں

ہم اپنے آپ سے بھی کتنی تیاری سے ملتے ہیں

 

شہرتیں سب کے مقدر میں کہاں ہوتی ہیں

تم یہ ہر روز نیا بھیس بدلتے کیوں ہو۔

یہ اشعار اپنے خاص انداز اورلب ولہجے کے سبب اپنی ایک الگ تاثر رکھتے ہیں۔پہلے شعر میں ایک آفاقی سچائی کو بیان کیاہے بلکہ اسے عوامی روزہ مرہ کی حیثیت حاصل ہے۔ہر خاص وعام کو یہ بات معلوم ہے والی آسی نے بہت سہل انداز میں اسے شعری قالب عطا کردیا۔دوسرا شعر ہندستان کے مخصوص پس منظر میں بہت اہمیت کا حامل ہے۔اپنی مٹی سے محبت کے تناظر میں اس شعر نے بہت شہرت پائی۔مشاعروں کے عام ماحول میں بھی اسے بہت پسند کیا گیا۔تیسرا شعر عام انسانی سرگرمی اور پریشانی سے عبارت ہے۔شعر کی سادگی کے سبب بھی اسے والی آسی کے مشہور شعروں میں شمار کیا جاتا ہے۔مشاعروں میں شعرا کا تعارف کرانے والے اس غزل کے دواشعار کو ملا کر بھی بعض شعرا کا تعارف کراتے تھے اور مشاعروں کی بھاگ دوڑ کا ایک نقشہ سامنے آجاتا تھا۔دوسرا شعر یہ ہے

ہر ہر قدم پہ چاہنے والوں کی بھیڑ تھی

ہر ہر قدم پہ بھیس بدلنا پڑا مجھے

درج بالا آخری دو شعر بھی عام انسانی تجربوں کا بیان ہیں۔دراصل یہ چیزیں بہت متاثر کن ہوتی ہیں اور اگر انھیں سلیقے سے الفاظ کا لباس عطا کردیا جائے تو یہ ایک تخلیقی تجربہ بن جاتا ہے۔ایسے بہت سے مراحل ہیں جہاں عام انسانی صورت حال کو بہت کام یابی کے ساتھ والی آسی نے برتا ہے۔پانچویں شعرکی ایک دوسری صورت بھی ان کے یہاں ملتی ہے جس سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ ان کے یہاں روایت سے مملو اشعار ہی ہیں ہیں بلکہ جدید رنگ وآہنگ میں بھی انھیں خاصی مہارت تھی۔

چھتری لگا کے گھر سے نکلنے لگے ہیں ہم

اب کتنی احتیاط سے چلنے لگے ہیں ہم

تکلف اور تصنع کے مقابلے میں چھتری اور اداکاری کی جگہ احتیاط کو دیکھا جاسکتا ہے۔جیسا کہ سطور بالا میں ذکر آچکا ہے کہ وہ ادب کے کسی ایک حوالے کے اسیر نہیں ہیں۔یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ان کے یہاں جدت کا بھی ایک رنگ ہے اور اسے محض فیشن کے طور پر نہیں دیکھا جاسکتا ہے بلکہ وہ شعری رسومیات سے ہم آہنگ ہے۔

وہ جاڑوں کی اک سرمئی شام تھی

کہ جب آرزؤں کے پیکر جلے

جاڑوں کی سیہ راتیں تم سے نہ کٹ پائیں

یادوں کے کچھ انگارے دہکائے ہوئے رکھنا

والی آسی نے غزل کے وہ مضامین جو شعرا عام طورپر باندھتے رہتے ہیں عمدہ طریقے سے باندھاہے۔ہجر و وصال اور عشق ومحبت تو غزل کا بنیادی مضمون ہے۔اس نوع کے اشعار ان کے یہاں کم نہیں ہیں۔

کچھ دن ترا خیال تری آرزو رہی

پھر ساری عمر اپنی ہمیں جستجو رہی

 

کرتے رہے ہیں دل کو لہو ساری عمر ہم

آب آنسوؤں کا رنگ بدل جانا چاہیے

 

کہیں ایسا نہ ہو بھولے ہوئے غم یا د آجائیں

نہ اتنے پیار سے دیکھا کرو تصویر پھولوں کی

 

مرا غم بھی امانت ہے کسی کی

میں اپنا غم چھپاتا پھر رہا ہوں

 

محبت کے وفا کے دوستی کے

عجب آداب ہوتے جارہے ہیں

 

نہ اٹھا شور دل کے ٹوٹنے کا

کوئی ہنگامہ ہونا چاہیے تھا۔

اس طرح کے بے شمار اشعار ان کے مجموعہ کلام میں موجود ہیں جن کو روایت کے گہرے جذبے سے مملو ہیں۔یہ مضامین ہماری غزلیہ روایت کا توانا حصہ ہیں مگر والی آسی کا کمال ہے کہ انھوں نے اس نوع کے اشعار کو ایک تازگی کے ساتھ برتا ہے۔

والی آسی کی غزلیں کسی ایک روایت اور جذبے کی اسیر نہیں کہی جاسکتی ہیں۔ان کے یہاں لفظیات کا بھی تنوع ہے اور مضامین کے بیان میں بھی وسعت ہے۔چھوٹی اور مختصر بحریں بھی ہیں اور طویل بھی۔یہ ان کی فن کاری اور مشاقی دونوں کی دلیل ہے جس کا مرحلہ ہر شاعر طے کرلے ضروری نہیں ہے۔