حرف حق: اردو صحافت کی دو صدیاں اور ایک جشن کی کہانی

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 28-05-2022
حرف حق: اردو صحافت کی دو صدیاں اور ایک جشن کی کہانی
حرف حق: اردو صحافت کی دو صدیاں اور ایک جشن کی کہانی

 

 

awazthevoice

پروفیسر اخترالواسع،نئی دہلی

 اردو صحافت کے دو سو سال کیا پورے ہوئے گویا اردو والوں کی عید ہو گئی۔ پہلے دہلی میں اور اس کے بعد کلکتہ میں اردو صحافت کا دو سالہ جشن بڑے تزک و احتشام سے منایا گیا۔ کلکتہ میں یہ جشن کچھ زیادہ ہی بڑے پیمانے پر منایا گیا اور ایسا ہونا فطری بھی تھا کیوں کہ 27 مارچ 1822کو ہری ہر دت اور سدا سکھ لعل کی کوششوں سے نکلنے والے ’’جامِ جہاں نماں‘‘ کا اجراء یہیں سے ہوا تھا۔ کلکتہ کیسا خوش نصیب شہر ہے کہ فارسی کا پہلا اخبار بھی یہیں سے نکلا اور اردو کا بھی۔ اردو اخبار کے اجراء کے ساتھ اردو، انگریزی اور بنگالی کے بعد ایسی تیسری زبان بن گئی جس میں اخبار شائع ہوتے تھے۔

اردو صحافت کی کوئی تاریخ کلکتہ کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتی۔ اردو صحافت کے دو سو سال پر بات کی جائے تو آپ کلکتہ کی اہمیت کو نظرانداز نہیں کر سکتے۔ بلا شبہ مولوی محمد باقر اور مرزا بیدار بخت نے پہلی جنگ آزادی کے موقعے پر اپنے خون سے ایک نئی تاریخ رقم کی اور ہماری اردو صحافت کی کہانی کو ایک نئی سرخی عطا کی لیکن امام الہند مولانا ابواکلام آزاد نے ’’الہلال‘‘ کے ذریعے جو صور پھونکا اس نے نہ صرف سوتے ہوئے ہندوستانیوں کو جگا دیا بلکہ سامراجی حکومت کے ایوانوں کو بھی متزلزل کر دیا۔ ’’الہلال‘‘ پھر ’’البلاغ‘‘ اور پھر ’’پیغام‘‘ مولانا آزاد کے ذریعے جاری کردہ وہ اخبارات تھے جن کا ذکر کیے بغیر ہماری جدوجہد آزادی کی تاریخ مکمل ہی نہیں ہو سکتی۔ اسی طرح قاضی عبدالغفار جیسے صاحب قلم جری اور بے باک صحافی نے اسی شہر سے روزنامہ اخبار ’’جمہور‘‘ نکالا جو رئیس الاحرار محمد علی جوہر کے جذبہ صادق، حب الوطنی اور آزادی کی تڑپ کی اسی روایت کا تسلسل تھا جس کی داغ بیل انہوں نے روزنامہ ’’ہمدرد‘‘ کے ذریعے ڈالی تھی۔

کلکتہ میں آزادی کے بعد بھی اردو صحافت کی صحت مند اقدار کی توسیع میں احمد سعید ملیح آبادی، رئیس الدین فریدی،سالک لکھنوی، رئیس احمد جعفری، وسیم الحق، سید منیر نیازی، شمس الزماں، ابراہیم ہوش، اقبال اکرامی، وقار مشرقی، حرمت الاکرام، جاوید نہال، کریم رضا مونگیری، احسن مفتاحی، سجاد نظر، سلیمان خورشید، بدر نظامی اور راقم لکھنوی نے بھرپور رول انجام دیا۔

اردو صحافت اپنے آغاز سے کئی ادوار سے گزری ہے اور اس نے مختلف میدانوں میں اپنے پرچم لہرائے ہیں۔ ہماری تحریک آزادی شمالی ہند میں اگر دیکھا جائے تو اردو اخبارات کے صفحات پر ہی لڑی گئی۔ کلکتے کے اخباروں کا تو تذکرہ آیا لیکن مولانامحمد علی جوہر کے ’ہمدرد‘ مولانا ظفر علی خاں کے ’زمیں دار‘ مولانا حسرت موہانی کے ’اردوئے معلی‘ منشی محبوب عالم کے ’پیسہ‘ حیات اللہ انصاری کا ’قومی آواز‘ لالہ لاجپت رائے کا ’وندے ماترم‘ بجنور سے ’مدینہ‘ لاہور سے ’ملاپ‘ ’پرتاب‘ ’تیج‘ ’انقلاب‘ اور ’پیام‘ جب کہ دہلی سے ’ریاست‘ اور ’الجمعیتہ‘ جنگ آزادی میں اپنا کردار ادا کر رہے تھے۔

اردو صحافت کا کوئی ایک ہی رنگ یا علاقہ محدود نہیں ہے بلکہ وہ اپنی تمام توانائیوں کے ساتھ ہر میدان اور پورے ہندوستان میں جلوہ گر ہے۔ آپ ’انقلاب‘ بمبئی کے بانی عبدالحمید انصاری، ’سیاست‘ حیدرآباد کے بانی عابد علی خاں مرحوم، ’سالار‘ بنگلور کے سربراہ کے۔ رحمن خاں، ’الجمعیتہ‘ کے ناز انصاری کو سلام کئے بغیر نہیں رہ سکتے جنہوں نے اردو صحافت کے حوالے سے آنے والے زمانے کے ایجابی مزاج کو سمجھ لیا تھا اور اس سے نہ صرف اپنے کو ہم آہنگ کیا بلکہ دوسروں کو بھی راستہ دکھایا۔

آزادی کے بعد وہ تمام لوگ جو پاکستانی پنجاب اور وہاں کے دوسرے علاقوں سے نقل مکانی کرکے ہندوستان آئے تھے اور یا پھر ہندوستان پنجاب میں پہلے سے ہی رہ رہے تھے وہ بولتے پنجابی، سندھی، سرائیکی اور پشتو تھے لیکن اپنا کاروبار اور دیگر کام کاج اردو ہی میں کرتے تھے۔ انتہا یہ کہ وید، پُران، رامائن، گیتا اور گرو گرنتھ صاحب کا پاٹھ بھی مذہبی مواقع یا اپنے روزمرہ میں اردو میں ہی کرتے تھے۔

اس لئے اردو اخبارات جیسے پرتاپ، ملاپ، تیج، ہند سماچار ان سے سب کے روزمرہ میں شامل تھے۔ آزادی کے بعد جیسے جیسے وہ نسل ختم ہوتی گئی اردو صحافت کو بھی بڑا نقصان ہوا۔

اردو صحافت، جیسا کہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے، یک رخی کبھی نہیں رہی۔ اس کی علمی و ادبی صحافت کی اپنی ایک شان رہی ہے اور ’اودھ پنچ‘ ہو یا ’سچ اور صدق جدید‘ ’معارف‘ ہو یا ’تحریک بیسویں صدی‘ ’شگوفہ‘ ’فکرونظر‘ ’نقدونظر ‘’سوغات‘ ’شب خون‘ ’رسالہ جامعہ‘ ’برہان‘ ’اسلام اور عصرجدید‘ ’نیا دور‘ اور ف۔س۔اعجاز کا ’انشا‘ ہو، انہوں نے اس روایت کو آگے بڑھایا جو کبھی سرسید، ان کے رفقا منشی نول کشور دیا نرائن نگم شروع کی تھی۔

اسی طرح فلم کی دنیا میں شمع، روبی دہلی، کہکشاں ممبئی، فلم ویکلی کلکتہ نے اپنے اپنے انداز سے ایک چھاپ چھوڑی اور پھر پردۂ سیمیں پر غبار کی مانند غائب ہو گئے۔اس کے علاوہ بچوں اور خواتین کے لئے بھی خصوصی رسالے نکلے اور انہوں نے غیرمعمولی مقبولیت حاصل کی۔ بچوں کے لئے ’کھلونا‘ ’کلیاں‘ ’پیامِ تعلیم‘ اور اب ’گل بوٹے‘ نیز این سی پی یو ایل کا شائع کردہ ’بچوں کی دنیا‘ انتہائی مقبول ہیں۔ اسی طرح خواتین کے لئے ’اخبارالنساء‘ ’خاتون‘ ’بانو‘ ’خاتونِ مشرق‘ ’حریم‘ اور بعد ازاں ’بتول‘ ’حجاب‘ اور ’پاکیزہ آنچل‘ نے خوب دھوم مچائی۔

کلکتہ نے ’’جشن جامِ جہاں نما‘‘ کا عظیم الشان اہتمام مغربی بنگال اردو اکادمی کے اپنے فعال اور جواں سال وائس چیئرمین جناب ندیم الحق صاحب(ایم پی راجیہ سبھا) کی قیادت میں کیا تھا، انہوں نے اور ان کے ساتھ تمام اراکین اردو اکیڈمی نے کوئی کمی نہیں چھوڑی اور اردو اکیڈمی کے اپنے مولانا ابوالکلام آزاد آڈیٹوریم میں افتتاحی اجلاس اور سہ روزی بین الاقوامی سیمینار کے مختلف پروگرام جہاں منعقد کیے تو وہیں تاریخی نیشنل لائبریری کلکتہ کے باہری حصے اور کھلی فضا میں ایک تاریخ ساز پروگرام ایسا منعقد کیا جس کی صدارت تو جناب محمد ندیم الحق صاحب کر رہے تھے لیکن جس میں حکومتِ مغربی بنگال کے وزراء جناب فرہاد حکیم، جناب جاوید احمد خاں اور جناب محمد غلام ربانی کی موجودگی میں نہ صرف اردو کے ہندوستان گیر سطح پر نامور صحافیوں جناب وجے کمار چوپڑا، ہند سماچار، جناب معصوم مرادآبادی، جدید خبر، جناب ایس ایم اشرف فرید، قومی تنظیم، جناب شاہد لطیف، انقلاب، جناب جی کے مخدومی، کشمیر عظمیٰ، جناب پرویز حفیظ، دی ایشین ایج، جناب عارف عزیز، ندیم، جناب زاہد علی خاں، سیاست، جناب احمد سعید ملیح آبادی، آزاد ہندکو اعزازات سے سرفراز کیا گیا بلکہ اردو والوں کی وسیع الظرفی، خیر سگالی اور لسانی ہم آہنگی کے نتیجے میں کلکتہ کے اردو سمیت مختلف زبانوں کے سینئر صحافیوںجناب پوسن گپتا (بنگلہ)، جناب وشومبھر نیور (ہندی)، جناب تمل ساھا (انگریزی)، جناب بچن سنگھ سَرل (پنجابی)، جناب محمد وسیم الحق (اخبار مشرق) کو بھی ایوارڈ سے نوازا گیا اور ندیم الحق صاحب کی قیادت میں مغربی بنگال اردو اکادمی نے یہ ثابت کر دیا کہ زبانیں سنواد (مکالمہ) کے لیے ہوتی ہیں نہ کہ وِواد (تنازعے) کے لیے اور زبانوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا ہے بلکہ ہر مذہب کو زبانوں کی ضرورت ہوتی ہے۔

جیسا کہ اوپر کہا جا چکا ہے کلکتہ کے جشن میں دوسری زبانوں کے ممتاز ترین صحافیوں نے بھی بین الاقوامی سیمینار میں اپنے خیالات کا اظہار کیا، تجربوں کو بتایا اور جس سے یہ بھی پتا چلا کہ صحافت کسی بھی زبان کی ہو وہ اتنی آسان نہیں جتنی دور سے ہمیں نظر آتی ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ:بہت کٹھن ہے ڈگر پَن گھٹ کی

اس جشن کے سہ روزہ بین الاقوامی سیمینار میں کلیدی خطبہ پڑھنے کا دعوت نامہ راقم الحروف کو ملا تھا جس نے اس کو اردو اخبارات کے ایک قاری کی عزت افزائی سمجھتے ہوئے قبول کیا اور اپنے کلیدی خطبے کے آخر میں یہ بھی کہا کہ ہماری آنے والی نسلیں بھی اردو صحافت کا تین سو سالہ، چار سو سالہ اور پانچ سو سالہ جشن اسی جوش، جذبے اور ولولے کے ساتھ منا سکیں۔ اس کی بھی فکر ہمیں آج ہی کرنی ہوگی اور وہ اس طرح کہ ہم اپنے بچے اور بچیوں کو اردو رسم خط کے ساتھ لکھنا پڑھنا سکھائیں اور اس قابل بنائیں کہ وہ اردو تہذیب اور ثقافت کی علامت کے طور پر دنیا میں جانے جائیں نیز ہم اس کو اپنی زندگی کا لازمی مشن بنا لیں کہ اردو کا ایک اخبار ہم ضرور منگائیں گے اور فخر سے اپنے ڈرائنگ روم میں اسے رکھیں گے۔ اگر ایسا ہو جاتا ہے تو جو کہ ہونا ہی چاہیے تو یہی ہری ہر دت اور سدا سکھ لعل جیسے اردو کے پہلے اخبار جامِ جہاں نما کے بانی اور ایڈیٹر کو ہمارا سچا خراج عقیدت ہوگا۔

(مضمون نگار جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پروفیسر ایمریٹس (اسلامک اسٹڈیز) ہیں۔)