شبِ برأت کی شرعی حیثیت و فضیلت

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 18-03-2022
شبِ برأت کی شرعی حیثیت و فضیلت
شبِ برأت کی شرعی حیثیت و فضیلت

 


اللہ رب العزت نے بعض چیزوں کو بعض پر فضیلت و رتبہ سے نوازا ہے۔ جیسا کہ مدینہ منورہ کو تمام شہروں پر فضیلت حاصل ہے، وادیِ مکہ کو تمام وادیوں پر، بئر زمزم کو تمام کنوؤں پر، مسجد حرام کو تمام مساجد پر، سفرِ معراج کو تمام سفروں پر، ایک مؤمن کو تمام انسانوں پر، ایک ولی کو تمام مؤمنوں پر، صحابی کو تمام ولیوں پر، نبی کو تمام صحابہ پر، رسول کو تمام نبیوں پر اور رسولوں میں تاجدارِ کائنات حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاص فضیلت کے حامل ہیں۔

اللہ رب العزت نے اسی طرح بعض دنوں کو بعض پرفضیلت دی ہے۔ یوم جمعہ کو ہفتہ کے تمام ایام پر، ماہ رمضان کو تمام مہینوںپر، قبولیت کی ساعت کو تمام ساعتوں پر، لیلۃ القدر کو تمام راتوں پر اور شب برأت کو دیگر راتوں پر فضیلت دی ہے۔

 اَحادیث مبارکہ سے شعبان المعظم کی 15 ویں رات کی فضیلت و خصوصیت ثابت ہے جس سے مسلمانوں کے اندر اتباع و اطاعت اور کثرت عبادت کا ذوق و شوق پیدا کرنے کی ترغیب ملتی ہے۔ عرفِ عام میں اسے شبِ برأت یعنی دوزخ سے نجات اور آزادی کی رات بھی کہتے ہیں، لفظ شبِ برأت اَحادیث مبارکہ کے الفاظ ’’عتقاء من النار‘‘ کا با محاورہ اُردو ترجمہ ہے۔ اس رات کو یہ نام خود رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عطا فرمایا کیوں کہ اس رات رحمتِ خداوندی کے طفیل لاتعداد انسان دوزخ سے نجات پاتے ہیں۔

اس فضیلت و بزرگی والی رات کے کئی نام ہیں

لیلۃ المبارکۃ: برکتوں والی رات۔

 لیلۃ البراء ۃ: دوزخ سے آزادی ملنے کی رات

 لیلۃ الصَّک: دستاویز والی رات

 لیلۃ الرحمۃ: اللہ تعالیٰ کی رحمت خاصہ کے نزول کی رات۔

 (زمخشری، الکشاف، 4/ 272)

شبِ برأت کے پانچ خصائص

 شبِ برأت کو اﷲ تعالیٰ نے درج ذیل پانچ خاص صفات عطا فرمائیں۔ جنہیں کثیر ائمہ نے بیان کیا

اس شب میں ہر حکمت والے کام کا فیصلہ کردیا جاتا ہے۔

اس رات میں عبادت کی بہت زیادہ فضیلت ہے۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: {اس رات میں جو شخص سو رکعات نماز ادا کرتاہے، اﷲ تعالیٰ اس کی طرف سو (100) فرشتے بھیجتا ہے۔ (جن میں سے) تیس فرشتے اسے جنت کی خوشخبری دیتے ہیں۔ تیس فرشتے اسے آگ کے عذاب سے محفوظ رکھتے ہیں۔ تیس فرشتے آفاتِ دنیاوی سے اس کا دفاع کرتے ہیں۔ اور دس فرشتے اسے شیطانی چالوں سے بچاتے ہیں۔

رحمتِ الٰہی کا نزول ہوتا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: {یقینا اﷲ تعالیٰ اس رات بنو کلب کی بکریوں کے بالوں کی تعداد کے برابر میری اُمت پر رحم فرماتا ہے۔

 گناہوں کی بخشش اور معافی کے حصول کی رات ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: {بے شک اس رات اﷲ تعالیٰ تمام مسلمانوں کی مغفرت فرما دیتا ہے، سوائے جادو ٹونہ کرنے والے، بغض و کینہ رکھنے والے، شرابی، والدین کے نافرمان اور بدکاری پر اصرار کرنے والے کے۔

 اس رات اﷲ تعالیٰ نے اپنے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مکمل شفاعت عطا فرمائی اور وہ اس طرح کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شعبان کی تیرھویں رات اپنی امت کے لیے شفاعت کا سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تیسرا حصہ عطا فرمایا گیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شعبان کی چودھویں رات یہی سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دو تہائی حصہ عطا کیا گیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شعبان کی پندرہویں رات سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تمام شفاعت عطا فرما دی گئی سوائے اس شخض کے جو مالک سے بدکے ہوئے اونٹ کی طرح (اپنے مالک حقیقی) اﷲ تعالیٰ سے دور ہو جاتا ہے (یعنی جو مسلسل نافرمانی پر مصر ہو)۔

شبِ برأت میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عملِ مبارک

امام بیہقی نے ’شعب الایمان‘ میں حضرت عائشہ صدیقہ سے طویل حدیث مبارکہ بیان کی

’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رات کے کسی حصے میں اچانک ان کے پاس سے اٹھ کر کہیں تشریف لے گئے۔ حضرت عائشہ j بیان کرتی ہیں: میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے گئی تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جنت البقیع میں مسلمان مردوں، عورتوں اور شہداء کے لیے استغفار کرتے پایا، پس میں واپس آگئی۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے تو حضرت عائشہ j نے تمام صورتحال بیان کی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ابھی جبریل میرے پاس آئے اور کہا: آج شعبان کی پندرہویں رات ہے اور اس رات اللہ تعالیٰ قبیلہ کلب کی بکریوں کے بالوں سے بھی زیادہ تعداد میں لوگوں کی مغفرت فرماتا ہے مگر مشرکین، دل میں بغض رکھنے والوں، رشتہ داریاں ختم کرنے والوں، تکبر سے پائنچے لٹکانے والوں، والدین کے نافرمان اور عادی شرابی کی طرف اللہ تعالیٰ اس رات بھی توجہ نہیں فرماتا (جب تک کہ وہ خلوص دل سے توبہ نہ کرلیں)۔ اس کے بعد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز میں کھڑے ہو گئے۔ قیام کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک طویل سجدہ کیا۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں: مجھے گمان ہوا کہ حالت سجدہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال ہوگیا ہے۔ میں پریشان ہو گئی اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تلوئوں کو چھوا اور ان پر ہاتھ رکھا تو کچھ حرکت معلوم ہوئی۔ اس پر مجھے خوشی ہوئی۔ اس وقت حالت سجدہ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ دعا پڑھ رہے تھے۔

{أَعُوْذُ بِعَفْوِکَ مِنْ عِقَابِکَ وَأَعُوْذُ بِرِضَاکَ مِنْ سَخْطِکَ وَأَعُوْذُ بِکَ مِنْکَ جَلَّ وَجْهُکَ لَا أُحْصِي ثَنَآئً عَلَيْکَ أَنْتَ کَمَا أَثْنَيْتَ عَلٰی نَفْسِکَ}

( بيهقی، شعب الايمان، 3/ 383-385)

’اے اللہ میں تیرے عفو کے ساتھ تیرے عذاب سے پناہ چاہتا ہوں، تیری رضا کے ساتھ تیرے غضب سے پناہ چاہتا ہوں اور تیرے کرم کے ساتھ تیری ناراضگی سے پناہ چاہتا ہوں۔ میں کماحقہ تیری تعریف نہیں بیان کرسکتا۔ تو ایسا ہی ہے جیسے تو نے خود اپنی تعریف بیان کی ہے‘‘۔

 صبح جب حضرت عائشہ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ان دعائوں کا تذکرہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے عائشہ! یہ دعائیں خود بھی یاد کر لو اور دوسروں کو بھی سکھائو۔ مجھے جبریل نے (اپنے ربّ کی طرف سے) یہ کلمات سکھائے ہیں اور انہیں حالت سجدہ میں بار بار پڑھنے کو کہا ہے۔‘‘