طالبان: ہندوستان کی فراست کا امتحان

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 24-07-2021
طالبان کتنے سچے کتنے جھوٹے
طالبان کتنے سچے کتنے جھوٹے

 

awazurdu

ایم ودود ساجد

افغانستان میں جس امن کے حصول کیلئے امریکہ نے طالبان سے مذاکرات کئے تھے اس کے امکانات پرخون آشام اندھیرا چھاگیا ہے۔طالبان افغان فورسز سے لڑ تے ہوئے کابل کے قریب آگئے ہیں۔میڈیا رپورٹس کے مطابق421میں سے 200سے زیادہ ضلع مراکزطالبان نے ’فتح‘کرلئے ہیں۔وہ قندھار کے بھی قریب آگئے ہیں۔قندھار 2001تک طالبان کی اولین حکومت کا مرکز تھا۔بعض مبصرین کا اندازہ ہے کہ طالبان افغانستان کے 50 فیصد حصہ پر قابض ہوگئے ہیں اور انہوں نے ’رعایا‘کو مختلف احکامات دینے شروع کردئے ہیں۔34میں سے 29 صوبوں میں انہوں نے بہت سی سرکاری عمارتوں کو تباہ کردیا ہے۔

گزشتہ 20جولائی کو کابل میں صدارتی محل کے احاطہ میں عین اس وقت جب افغان صدر اشرف غنی نماز عید ادا کر رہے تھے راکٹوں کے حملہ نے صورت حال کو مزید پیچیدہ کردیا ہے۔اس واقعہ کی ویڈیو پوری دنیا میں وائرل ہورہی ہے۔جس وقت دوسری رکعت کے رکوع سے امام اٹھنے ہی والا تھا راکٹ کی زور دار آواز گونج اٹھی۔چھ سات صفوں میں نماز ادا کرنے والے بیشتر لوگ نماز ادا کرتے رہے اور ان کے اوپر راکٹ حملہ کی بھیانک آواز کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ایک دو لوگ خوف کے مارے نماز توڑ کر سرکل میں گھومے لیکن جلد ہی وہ بھی نماز میں دوبارہ شامل ہوگئے۔

راکٹ حملوں کو مختلف حلقوں نے اپنے اپنے انداز سے معانی پہنائے ہیں۔کچھ حلقوں نے طالبان پر انگشت نمائی کی لیکن بعد میں اطلاع آئی کہ ان راکٹ حملوں کی ذمہ داری داعش کے ایک دھڑے نے قبول کی ہے۔کچھ حلقوں نے راکٹ حملوں کو خود افغان صدر اشرف غنی کا ڈرامہ قرار دیا۔اگر یہ کوشش افغان فورسز نے ہی کی ہے تو یہ بات فہم سے بالاتر ہے کہ انہیں اس کا کیا فائدہ ہوگا۔اس لئے کہ بظاہر افغان فورسز اب تک پسپا نظر آرہی ہیں اور طالبان ان پر حاوی ہوتے جارہے ہیں۔امریکی(ناٹوسمیت) فورسز وہاں سے پوری طرح نکل گئی ہیں۔ترکی کے فوجی صرف کابل ہوائی اڈے کے تحفظ تک محدود ہیں۔اس کے امکانات معدوم ہی ہیں کہ امریکہ اشرف غنی کی مدد کیلئے طالبان کے مقابلہ پر واپس آجائے گا۔

اگر مذکورہ راکٹ حملے داعش نے کئے ہیں تو اس کی ذمہ داری سے طالبان بھی بری نہیں ہوسکتے۔کیونکہ امریکہ سے طالبان نے جو امن معاہدہ کیا ہے اس کے مطابق طالبان نے وعدہ کیا ہے کہ وہ افغانستان کی سرزمین پر کسی دوسری دہشت گرد طاقت کواپنی سرگرمیاں انجام دینے کی اجازت نہیں دیں گے۔یہ یقین کرنا مشکل ہے کہ افغانستان کے کسی بھی گوشے میں موجود ’غیر ملکی دہشت گرد‘گروپوں پر طالبان کا کوئی اثر نہیں ہے یا وہ طالبان کی دسترس سے باہر ہیں۔

امریکہ نے اسی الزام کے تحت تو طالبان کی حکومت کو اکھاڑ پھینکا تھا کہ انہوں نے القاعدہ کو افغانستان میں پناہ دی تھی۔پھر اگر طالبان معاہدہ کی امن شقوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے افغان فورسز کے ساتھ کشت وخون کرکے انہیں پسپا کرسکتے ہیں تو داعش جیسے غیر ملکی دہشت گردگروپوں کا قلع قمع کیوں نہیں کرسکتے جو خود ان کیلئے بھی وبال جان بن سکتے ہیں۔؟

آپ کو یاد ہوگا کہ امریکہ نے 20 برس قبل 9/11 کے حملہ کا الزام القاعدہ پرعاید کیا تھا۔اس وقت کہتے ہیں کہ القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کو طالبان کے سربراہ ملا محمد عمر کا تحفظ حاصل تھا۔حالانکہ بعد میں اسامہ بن لادن کو امریکی فورسز نے پاکستان کے ایبٹ آباد میں دریافت کرکے ہلاک کردیا تھا۔بہر حال امریکہ نے 2001میں طالبان کی حکومت کے خاتمہ کیلئے افغانستان پر چڑھائی کردی اور اس کے لئے ناٹو کو بھی ساتھ لے لیا۔ناٹو فورسز کی سرگرمیوں سے 2002میں طالبان کے اقتدارکا خاتمہ ہوگیا اور الیکشن کے ذریعہ ایک منتخب حکومت قائم ہوگئی۔

امریکی کانگریس کے ریسرچ ونگ کے مطابق امریکہ نے اس جنگ پر 144ملین ڈالر خرچ کئے۔اس دوران اس کے 22ہزار فوجی مارے بھی گئے۔یہ کوئی چھوٹی تعداد نہیں ہے۔ امریکہ میں اس پر عوامی ناراضگی بھی پھیلی۔لہذا پچھلے صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے اعلان کردیا تھا کہ اب امریکی فوجیں افغانستان سے نکلنا چاہتی ہیں۔اب سر دست تین مسئلے سامنے تھے۔امریکی افواج کے انخلاء کے بعد افغانستان کی سیکیورٹی کا کیا ہوگا؟ افغانستان کی منتخب حکومت کا کیا ہوگا؟ اور یہ کہ خود امریکی مفادات کے تحفظ کی کون ضمانت دے گا؟

ان تینوں نکات کو سامنے رکھ کر امریکہ نے خود طالبان سے ہی مذاکرات کی پیشکش کردی۔قطر نے امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات منعقدکرانے میں تعاون دیا۔بظاہر طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانا کوئی آسان کام نہ تھا۔بہر حال کئی مشکل مرحلوں کے بعد آخر کار ایک سمجھوتہ پر دستخط ہوگئے۔

شروع میں طالبان اور امریکہ کے درمیان ہونے والے مذاکرات میں افغان حکومت کا کوئی نمائندہ شامل نہیں ہوا۔لیکن ستمبر2020میں پہلی بار طالبان اور افغان حکومت کے نمائندے دوحہ میں ملے اور دونوں کے درمیان براہ راست امن کے قیام کیلئے بات چیت ہوئی۔اب سوال یہ ہے کہ جب امن مذاکرات میں افغان حکومت اور طالبان دونوں شامل تھے تو پھر طالبان کی طرف سے حکومت کی فورسز کے خلاف یہ خونی کارروائی کیوں ہورہی ہے؟کیوں طالبان علاقوں پر علاقے اپنے تصرف میں لے رہے ہیں؟کیوں وہ پارلیمانی یا صدارتی انتخابات کا انتظار نہیں کر رہے ہیں؟دونوں کی مدت پانچ سال ہوتی ہے۔افغان صدر اشرف غنی 2020میں ہی منتخب ہوئے ہیں۔میرا خیال ہے کہ طالبان جمہوری اقدار میں یقین نہیں رکھتے۔وہ عسکری کارروائی کے ذریعہ افغانستان کے اقتدار پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔یہ صورتحال کم سے کم افغانستان کے پڑوسی ملکوں کیلئے اطمینان بخش نہیں ہے۔

یہ بات درست ہے کہ افغانستان کے ہر خطہ میں طالبان نے اپنی تنظیم بہت مضبوط کرلی ہے۔لیکن اس سے یہ واضح نہیں ہے کہ خود افغان عوام بھی طالبان کو پسند کرتے ہیں یا نہیں؟

اگر طالبان جمہوری عمل میں حصہ نہیں لینا چاہتے تو اس کا مطلب یہی ہے کہ انہیں ڈر ہے کہ افغان عوام انہیں جمہوری طورپر بخوشی اقتدارنہیں سونپیں گے۔یہاں امریکہ کا کردار بھی مشکوک نظر آتا ہے۔اس نے کاغذ پر جو سمجھوتہ کیا ہے ایسا لگتا ہے کہ اس کے سوا بھی کوئی اور خفیہ سمجھوتہ ہوا ہے جس پر طالبان اور امریکہ کے درمیان اتفاق ہوگیا ہے۔وہ یہ کہ طالبان امریکہ کو محفوظ راہداری اور نکلنے کا معقول بہانہ دیں گے اور بعد میں وہ جس طرح چاہیں گے اقتدار پر قبضہ کرلیں گے۔

یہ بھی ممکن ہے کہ افغان صدر اشرف غنی کے مستقبل کی بھی کوئی ضمانت نہیں لی گئی اوران کا مستقبل طالبان پر چھوڑ دیا گیا ہے۔البتہ اشرف غنی کے سیاسی حریف اور حکومت کی طرف سے طالبان کے ساتھ مذاکرات میں شامل ہونے والے عبداللہ عبداللہ کے تحفظ پر طالبان سے بات کرلی گئی ہے۔

عبداللہ عبداللہ صدارتی انتخابات میں امیدوار تھے اور انہوں نے اشرف غنی کو ملنے والے 50.64 فیصد ووٹوں کی معتبریت پر سوال اٹھاتے ہوئے ان نتائج کو ہی مسترد کردیا تھا۔یوں بھی ایک فیصد سے بھی کم کی سبقت مشکوک ہی ہے۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ عبداللہ عبداللہ کی سیاسی قبولیت بھی کچھ کم نہیں ہے۔کل ملاکر افغانستان کی صورتحال مزید ابتری کی جانب ہے۔طالبان کے حامی الزام لگاتے رہے ہیں کہ مغربی میڈیا طالبان کو بدنام کر رہا ہے۔اس پہلو پر مغربی میڈیا کا بہت زیادہ دفاع نہیں کیا جاسکتا۔

اس کا ریکارڈ اس کی معتبریت کو مشکوک بناتا ہے۔اس لئے ممکن ہے کہ مغربی میڈیا طالبان کے تعلق سے مبالغہ آمیزی کر رہا ہولیکن سوال پھر وہی ہے کہ طالبان اگر اس مہذب دنیا میں جمہوری راستوں سے الگ کوئی راستہ چنیں گے تو باقی دنیا سے ان کے سفارتی رابطے کس طرح استوار ہوں گے۔

طالبان کے نمائندہ سہیل شاہین نے ایک بیان جاری کرکے کہا ہے کہ قیام امن کیلئے اشرف غنی کو صدر کا عہدہ چھوڑنا پڑے گا۔انہوں نے طالبان کی زیادتیوں کی رپورٹس کو بھی مبالغہ آمیز اور گمراہ کن قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ افغانستان میں خواتین اور بچیوں کو پوری آزادی ہے۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ طالبان اقتدار پر اجارہ داری میں یقین نہیں رکھتے۔

طالبان نے کہا ہے کہ وہ ترکی کو بہ حیثیت مسلم ملک کوئی نقصان نہیں پہنچانا چاہتے لیکن اسے ہمارے اقتدار اعلی کا احترام کرتے ہوئے فوراً کابل چھوڑ دینا چاہئے۔اس پر ترکی کے صدر نے خود طالبان کو ہی بالجبرحاصل کردہ اقتدارکو چھوڑ دینے کو کہہ دیا ہے۔ترکی معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کابل ہوائی اڈے کی حفاظت کے لئے وہیں ٹھہر گیا ہے۔

اب اصل مسئلہ ہندوستان کے سامنے ہے کہ وہ کیا ردعمل ظاہر کرے۔ہندوستان نے افغانستان کی تعمیر نو کیلئے کروڑوں ڈالر صرف کردئے ہیں۔طالبان کی حیثیت کو تسلیم کرکے اس سے رشتے استوار کرنے میں بھی کچھ خطرات ہیں اوراگر تعلقات قائم نہ کئے تب بھی خطرات کم نہ ہوں گے۔ہندوستان کے سفارتی مشن کو2008, 09 اور 2010میں نشانہ بنایاجن میں کئی ہلاکتیں ہوئیں۔سچی بات یہ ہے کہ افغانستان کے حوالہ سے ہندوستان کی سفارتی صلاحیت کا امتحان سامنے ہے۔ ہمارے وزیر خارجہ ایس جے شنکر اس محاذ پر ابھی تک ضبط کا مظاہرہ کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔لیکن آج نہیں تو کل ہندوستان کو کوئی واضح موقف تو اختیار کرنا ہی ہوگا۔