ٹیگور اور ترقی پسند اردو ادب

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 27-09-2022
ٹیگور اور ترقی پسند اردو ادب
ٹیگور اور ترقی پسند اردو ادب

 

 

ڈاکٹر محمدفاروق اعظم

ابتدا میں عر و ادب کے دانشوروں نے ٹیگور کو دنیا ئے ادب کا عظیم شاعر روما نی شاعر ،صوفی صفت شاعر ،مناظر قدرت اور حسن کا متوالا شاعر ،میٹھے میٹھے مدھر گیت گانے والا شاعر ،لوریاں سناکر اور تھپک کر نیند کی دنیا میں لے جانے والا شاعر کے طور پر پیش کیا تو کہیں ان کی دیگرتخلیقات میں محض عشق مجازی اور عشق حقیقی ،رومانیت، روحانیت ، ترک دنیا اور ترکِ نفس وغیرہ تلاش کیا۔

پھر وقت کی رفتار کے ساتھ ٹیگور کی شاعری کی اور بھی کئی پرتیں کھلتی گیئں اور ناقادانِ ادب اور دانشورِ ادب نے ان کی شاعری میں عوامی محرکات کی کئی جہتیں تلاش کیں۔یوں تو ٹیگور ایک دولت مند گھرانے میں پیدا ہوئے تھے،ذاتی زندگی میں انہیں غربت،بھوک،افلاس کا کوئی تجربہ حاصل نہیں تھا لیکن اتنے بڑے اور رئیس گھرانے کا فرد ہوتے ہوئے بھی انہوں نے زمینداروں کے ،مظالم کے خلاف آواز اٹھائی،ہمارے ملک کے کسانوں اور محنت کشوں کی بھر پور حمایت کی۔عام لوگوں کے مسائل ،غربت ، افلاس اور پھر زندگی کے لئے،آزادی کے لئے عوامی جدو جہد زندگی کا بھر پور ساتھ دیا۔

اس طرح ٹیگور ایک باغی شاعر تھے۔ایک ایسا شاعر جس نے خود اپنے طبقے کے خلاف بغاوت کی۔اپنے زمیندار طبقے سے بغاوت اور کسانوں سے ہمدردی کے سلسلے میں ان کی پہلی اور بے مثال نظم ’’ دو بیگہہ زمین ‘‘ کو تاریخی حیشیت حاصل ہے۔ ٹیگور نے یہ نظم ۱۸۹۶میں کہی تھی جبکہ اس دور میں ترقی پسند تحریک کا نام ونشان بھی نہ تھا۔

ہندو ستان کی تاریخِ ادب میں شاید ہی اس سے قبل کسانوں پر مظالم،زمینداروں کی لوٹ ، کسانوں کی مجبوری اور بے بسی پر ایسی نظم کہی گئی ہو۔ اس نظم میں زمیندار ٹیگور خود کسان بن کر مظلوم کسانوں کی کھل کر حمایت کرتے ہیں۔

ٹیگور نے اس نظم کے علاوہ اور بھی دیگر نظموں اور کئی مضامین میں اپنے عہد کے زمینداروں کے ظلم کے خلاف آواز بلند کی ہے۔۹۴ــــــــــ۔۱۸۹۳میں ان کی کہی نظم ’’ اے بار پھر او مورے ‘‘ ( اب مجھے لوٹا دو) ان کی سیاسی بیداری کا علان ہے جس میں بنگال کے گائو ں میں بسنے والے دبے کُچلے عام لوگو ں کی ترجمانی کی ہے ۔ ایک اور مشہور نظم ’’ اکیّا تان ‘‘ میں دنیا بھر کے کسانوں اور مزدوروں کی فتح مندی کے گن گائے ہیں ملا حظہ فرما ئیے ـ: ؎

ـ میں اس شاعر کی آواز سننے کے لئے بیقرار ہوں

وہ جو کسان کا ساتھی ہے

وہ جو ان کی باتیں کرتا ہے

وہ جو میدانِ عمل میں ان کا دوست ہے

وہ جو مٹی سے قریب ہے

میں اس شاعر کی آواز سننے کے لئے بیقرار ہوں۔

بے شک ٹیگور کے یہ اشعار ترقی پسند شاعری کی نمائندگی کرتے ہیں۔یوں تو ٹیگور کی تحریرات نے دنیا کی اکثر زبانوں اور تحریکات پر اثر ڈالا لیکن میراموضوع ٹیگور اقر ترقی پسنداُردو ادب ہے اس لئے ترقی پسند اُردوادب پر ٹیگور کے اثرات کا جائزہ لینا مقصود ہے۔

بات کسانوں کی ہو یا مزدوروں کی ، عوامی جدوجہد کی یا انقلاب و آزادی کی ترقی پسند اُردو ادب اور ٹیگور میں قدر مشترک تھیں شاید یہی وجہ ہے کہ بیشتر ترقی پسند شعراء و ادباء ٹیگور سے حد درجہ متاشر نظر آتے ہیں۔ سجا د ظہیر ، سردار جعفری ، مخدوم محی الدین ، جوش ملیح آبادی ، مجازلکھنوی ، مجروح سلطان پوری ، پرویز شاہدی ، پریم چند ، فراق گورکھپوری جیسے شعراو ادباء کی تخلیقات پر ٹیگور کے اثرات واضح طور پر نمایاں ہیں۔

روحِ ادب ، مقالاتِ زریں ، اوراق سحراور اشارات، جوش کی وہ تصانیف ہیں جن پر ٹیگور کا اثر صاف دکھائی دیتا ہے۔جوش ؔ اس سلسلے میں خود لکھتے ہیں:

ابتدا میں شررؔ اور سرشارؔ کی نثر اور داغؔ اور انیس ؔ کی شاعری سے متاثر ہوا۔ آگے بڑھا تو مومنؔ،میرؔ،غالبؔ اور نظیرؔ اکبر آبا دی نے متاثر کیا ۔ پھر ٹیگوریت نے دل میں گھر کیا ۔ ‘‘( رسالہ’’ نیا دور ‘‘کراچی شمارہ نمبر ۴۴۔۴۳)

پریم چند کے یہاں آ زادئی نسوِاں ،کاشتکاروں اور مزدوروں سے ہمدردی ،روس انقلاب اور اشتراکیت کے علاوہ ٹیگور کے بھی اثرات ان کے پیش خیمہ بنے جن کا اعتراف خود پر یم چند نے کیاہے کہ ’’ٹیگور کی کہانیاں پڑھ کر انہیں افسانے لکھنے کی تحر یک ہوئی‘‘۔

اُردو کے ترقی پسند ناقد احتشام حُسین نے ٹیگور کے اثرات کا جائزہ لینے کے بعد یہ نتیجہ نکالا کہ:

ٹیگور کے اثرات قبول کرنے والے اُردو کے مصنفین  دو حصّوں میں تقسیم کئے جاسکتے ہیں ایک تو وہ ہیں  جنہیں ٹیگور کے فلسفے نے متاثر کیا دوسرے وہ ہیں جن کو ان کی انسان دوستی اور امن پسندی واتحاد  کے جذبے نے متاثرکیا

اُردو شاعری میں رومانیت کی بات ہو یا ترقی پسندی کی ٹیگورکے تصورات و خیالات کے نقوش ہر جگہ نظر آتے ہیں۔ جہاں تک موضوعات کا معاملہ ہے تو ’’نئے انسان کے تصور ‘‘ کے موضوع پر مختلف شعرا نے مختلف اظہار بیان کیا ہے ۔ ٹیگور کا خیال ہے ۔

وہ عظیم ہستی آگے آئے گی

جو دھرتی کی  دھول کو لرزا دے گی ۔

آسمان میں نقارے بج رہے ہیں  

انسان کی دنیا میں فتح کے ڈھول بجائے جارہے ہیں

اس عظیمِ ہستی کی پیدائش کی گھڑی آن پہنچی ۔

اور یہ خیال جوشؔ کے یہاں آغاز بیداری کے عنوان سے اس طرح ادا ہوا ہے

رکاب چوم رہے ہیں نجوم و شمس و قمر

یہ کون تو منِ جوہر پہ ہو رہا ہے سوار

قدم قدم بچھے جارہے ہیں سروسمن

یہ گلستاں میں در آیا کون جانِ بہار

 

اور اقبال ؔ یوں کہتے ہیں ؎

قدم در جستجو ئے آدمی زن

خدا ہم در تلاش ٓدمی ہست

گویا یہ وہ ترقی پسند خیالات تھے جن کے نقوش پر با ضابطہ ترقی پسند مصنفین کی بنیاد پڑی اور لکھئنو میں ۱۹۳۶ میں اس کی پہلی کانفرس ہوئی ۔ ٹیگور کو بھی اس اجلاس میں دعوت دی گئی لیکن وہ شریک نہیں ہو سکے ۔ ۱۹۳۰ء روس کے دورہ کے بعد روس کے حالات سے ٹیگور جس طرح متاثر ہو ئے تھے اس کا تقاضا یہ تھا کہ وہ ترقی پسند مصنفین کی رہبری کرتے لیکن رہبری نہ صحیح معنوی قیادت ٹیگور کے حصّے میں آئی اور اردو کی اس نسل نے کسی نہ کسی طرح ٹیگور سے اپنا رشتہ جوڑے رکھا اور ٹیگور کی حرکت و عمل کا یہ تصور ترقی پسند ادب بن کر اُ بھرا۔ میں اس مضمون کا اختتام ٹیگور کے اس افتتاحیہ خطبہ ’’ ادیب کے فرائض‘‘ پرکرنا چاہوںگا جو ترقی پسند تحریک کی پہلی کانفرس میں پڑھا گیا جو ترقی پسند ادیبوں کو دعوتِ فکر دیتا ہے۔

’’ تخلیقِ ادب میں تنہائی جتنی مفید ہے اتنی ہی مضر بھی ہے۔ یہ سچ ہے کہ تنہائی میں ادیب اپنے نفس سے ہم گوش ہوتا ہے، مطالعے اور مشاہدے کا اصل رمز وہاں ملتا ہے اور دھیان بٹانے کے لئے کسی قسم کا شور و شغب وہاں نہیں ہوتا ۔ اسی وجہ سے عز لیت پسندی میری طبیعت ثانیہ ہو گئی ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ سماج سے الگ تھلگ رہنے والا ادیب بنی نوع انسان سے آشنا نہیں ہوسکتا ۔بہت سے لوگوں سے مل کر جو تجربہ حاصل ہوتا الگ رہ کر ادیب اس سے محروم ہوجاتا ہے۔

سماج کو جاننے پہچاننے کے لئے اور اس کی ترقی کی راہ کا پتہ دینے کے لئے یہ نا گزیر ہے کہ ہم سماج کی نبض پر ہاتھ رکھیں اور اس کی دھڑکنوں کو سنیں۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب ہم انسانیت کے غم گسار اور ہمدم ہوجائے انسان کی روح کو صرف اسی صورت میں ہی پہچان سکتے ہیں۔ ادب اورانسانیت جب باہم ایک دوسرے کے رفیق ہوجائیں گے تو رہنما یان خلق کو مستقبل کی اصل راہ ملے گی اور پھر وہ سمجھیں گے کہ بیداری کا صور کیا ہے اور زمانہ کس نغمے کو سننے کے لئے بے چین ہے اسی وقت انہیں عوام کے جذبات کا علم ہوگاظاہر ہے کہ عوام سے الگ رہ کر ہم بیگانہ محض رہ جائیں گے۔ادیبوں کو انسانوں سے مل جل کر انہیں پہچاننا ہے۔

میری طرح گوشہ نشیں رہ کر ان کا کام نہیں چل سکتا۔زمانئہ دراز تک سماج سے الگ رہکر اپنی ریاضیت میں میں نے جو بہت بڑی غلطی کی ہے اب میں اسے سمجھ گیا ہوں اور یہی وجہ ہے کہ یہ نصیحت کر رہا ہوں ۔میرے شعور کا تقاضا ہے کہ انسانیت اور سماج سے محبت کرنا چاہئے اگر ادب انسانیت سے ہم آہنگ نہ ہو تو وہ ناکام اور نا مراد رہے گا ۔ یہ حقیقت میرے دل میں چراغِ حق کی طرح روشن ہے اور کوئی استدلال اسے بجھا نہیں سکتا۔

ملک اور قوم کی بہی خواہی کو ذاتی اغراض پر ترجیح دینے کا جذبہ ہر چھوٹے بڑے میں پیدا کرنا ادیب کا فرض عین ہونا چاہیے۔ قوم، سماج اور ادب کی بہبودی کی سوگند جب تک ہر انسان نہ کھائے گا ، اس وقت تک دُنیا کا مستقبل روشن نہیں ہو سکتا ۔ اگر تم یہ کرنے کے لئے تیار ہو تو تمھیں پہلے اپنی متاع کھلے ہاتھوں لٹانی ہوگی اور پھر کہیں تم اس قابل ہوگے کہ دُنیا سے کسی معاوضے کی تمّنا کرو لیکن اپنے کو مٹانے میں جو لُطف ہے، اس سے تم محروم نہ رہ جائو۔

یاد رکھو کہ تخلیق ادب بڑے جوکھوں کا کام ہے حق اور جمال کی تلاش کرنا ہے تو پہلے ’انا‘ کی کینچلی کو اتارنا ہو گا۔کلی کی طرح سخت ڈنٹھل سے باہر نکلنے کی منزل طے کرو ۔پھر دیکھو کہ ہوَا کتنیِ صاف ہے، روشنی کتنیِ سہانی ہے اور پانی کتنا لطیف ہے۔‘‘

( رابندر ناتھ ٹیگور)