تصوف اور بھکتی تحریک نے ہندوستانیوں کے دلوں کو جوڑے رکھا

Story by  غوث سیوانی | Posted by  [email protected] | 1 Years ago
تصوف اور بھکتی تحریک نے ہندوستانیوں کے دلوں کو جوڑے رکھا
تصوف اور بھکتی تحریک نے ہندوستانیوں کے دلوں کو جوڑے رکھا

 

 

غوث سیوانی،نئی دہلی

عہدوسطیٰ میں بہت سے سیاسی اتارچڑھائو آئے مگر جس چیز نے جنوب ایشیائی ملکوں کے عوام کو ایک دھاگے میں باندھے رکھا وہ روحانیت کا پیغام تھا۔ یہاں صوفیہ کے پیغام کو خاصی مقبولیت حاصل ہوئی۔ جنھوں نے اسے قبول کیا، انھوں نے اپنے ظاہر و باطن میں تبدیلی کا احساس کیا مگر جنھوں نے اسے سیدھے طور پر نہیں اپنایا، انھوں نے بھی اس کے اثرات ضرور قبول کئے۔ اس کے زیر اثر ہی ’’بھکتی تحریک‘‘ کی ابتدا ہوئی۔ یہی سبب ہے کہ تصوف و بھکتی تحریک کے اثرات یہاں کے سماج پر گہرے ہیں۔

قرون وسطی کے ہندوستان کی ثقافتی تاریخ میں ’’بھکتی تحریک‘‘ کی خاص اہمیت ہے۔ ہندو مذہبی اصلاح پسندوں کی طرف سے شروع کی گئی اس تحریک نے بر صغیر کے معاشرے پر خاصا اثر ڈالا۔ یہ صوفیہ کی تحریک تصوف کے زیر اثر سامنے آئی اور اسی تحریک کے بطن سے سکھ ازم نے جنم لیا۔ اس کی بنیاد میں صوفیہ کی وہ تعلیمات تھیں جنھیں تصوف کی بنیاد کہا جاتا ہے جیسے توحید، توکل، تجرد، تقویٰ، مساوات انسانی اور خدمت خلق وغیرہ۔

بعض رسموں میں مماثلت بھی نظر آتی ہے جیسے، مندروں میں کیرتن، خانقاہوں اور درگاہوں میں قوالی اور گردواروں میں گربانی۔ اس قسم کی کئی باتیں قرون وسطی (800 - 1700) کی تاریخ و تہذیب میں یکساں دکھائی دیتی ہیں۔

ہندوؤں کی قدیم مذہبی کتابوں میں توحید کی تعلیم موجود ہے جسے امتداد زمانہ کے سبب لوگوں نے بھلا دیا تھا مگر صوفیہ کی تعلیمات نے اسے ازسرنو زندہ کیا۔ ہندوستانی سماج میں کئی ایسے اہل علم اور مصلح پیدا ہوئے جنھوں نے ہندوؤں کے اندر بھی توحید پر زور دیا۔ اس انقلابی مہم کے لیڈر تھے شنکر اچاریہ جو ایک عظیم مفکر اور جانے مانے فلسفی تھے۔ اس مہم کو چیتنیہ مہاپربھو، نامدیو، تکارام، جے دیو نے آگے بڑھایا۔ ان تمام مہموں کا مقصد بت پرستی کو ختم کر کے انسان کو توحید کے نکتے پر لانا تھا۔

بھکتی تحریک کے لیڈر رامانند نے رام چندر جی کو بھگوان کے طور پر لے کر اس کو مرکوز کرنے کی کوشش کی حالانکہ ان کے بارے میں بہت کم معلومات ہے، لیکن ایسا مانا جاتا ہے کہ وہ 15 ویں صدی کے اوائل میں رہے ہوں گے۔ چیتنیہ سولہویں صدی کے دوران بنگال میں ہوئے۔ انھوں نے الگ الگ دیوتاؤں کے بجائے ایک کرشن کی بھکتی کی تعلیم دی۔

شری رامانج نے ویشنو مت پر زور دیا جو کام انھوں نے جنوبی ہند میں کیا وہی کام رامانند نے شمالی ہندوستان میں کیا۔ مذہب کو کسی ایک نکتے پر لانے کی کوشش اور ایک خدا کی عبادت ان سبھی بزرگوں کی تعلیم کا حصہ تھی جو انھوں نے تصوف کے زیر اثر اپنائی تھی۔ جس طرح صوفیہ نے انسان کو انسان بن کر رہنے کی تعلیم دی تھی، مساوات انسانی کا درس دیا تھا اور خلق خدا کو ’’عیال اللہ‘‘ مانا تھا، اسے ان سبھی سنتوں نے بھی اپنایا تھا۔

قرون وسطیٰ کے ہندوستان میں صوفیہ کے آستانوں پر پیغام توحید کا نغمہ قوالی کی شکل میں گونجا کرتا تھا اور فارسی و ہندوی شعراء کے کلام میں جو مواد پایا جاتا تھا وہی بھگت نامدیو، سنت کبیر داس، میرا اور سور داس کے کلام میں بھی دیکھنے کو ملا۔ انھوں نے اپنی رچناؤں کے ذریعے خدا کی حمد اور اس کی بھکتی پر زور دیا۔ پہلے سکھ گرو، اور سکھ مذہب کے بانی گرو نانک دیو جی بھی بھکتی تحریک کی ہی کوکھ سے آئے تھے۔ وہ سنت اور سماجی مصلح تھے۔

انہوں نے ہر قسم کے ذات پات کے بھید بھاؤ اور مذہبی تعصب کی مخالفت کی۔ انہوں نے خدا کو ایک مانا اور ہندو و مسلم سماج میں موجود تنگ نظری کے خلاف آواز اٹھائی۔ تاریخی شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ صوفیہ کی تعلیمات نے ہندوستان کے معاشرے پر گہرے اثرات مرتب کئے اور یہاں کے عوام و خواص کے ظاہر و باطن کو متاثر کیا۔ تصوف ایک ایسی قوت کے طور پر ابھرا جو سماج کو جوڑے رکھ سکتا تھا۔

ملک کے اب تک کے سیاسی حالات پر نظر ڈالیں تو سیاسی افراد کی جانب سے عوام اور ملک کو بانٹنے کی کوششیں لگاتار ہوتی رہی ہیں مگر جس بات نے اس ملک کو جوڑے رکھا، وہ صوفیہ کی تعلیمات میں موجود محبت و اخوت کا وہ درس ہے جسے برصغیر کے باشندوں نے جانے انجانے میں اپنے باطن کا حصہ بنا رکھا ہے۔

وہ امن میں یقین رکھتے ہیں، وہ عدم تشدد سے اپنے مسائل کو حل کرنا چاہتے ہیں اور تشدد و نفرت کو ناپسند کرتے ہیں۔ سیاست دانوں کی طرف سے عوام کو تقسیم کرنے کی کوششیں ہوتی ہیں اور سیاسی فائدے کے لئے بھائی چارہ کو توڑنے کی سازشیں بھی کی جاتی ہیں مگر ان کا اثر زیادہ مدت تک باقی نہیں رہتا۔

یہاں وقتی جذبات کے تحت دنگے فساد بھی ہو جاتے ہیں مگر جلد ہی لوگوں کو اپنی غلطی کا احساس ہو جاتا ہے اور وہ دوبارہ امن و آشتی کے راستے پر چل پڑتے ہیں۔ یہ سب صوفیہ کی تعلیم کا ہی اثر ہے جو اس خطے کو اکیسویں صدی میں بھی متحد رکھے ہوئے ہے۔ علاج اپنا کراتے پھر رہے ہو، جانے کس کس سے محبت کیوں نہیں کرتے، محبت کر کے دیکھو نا