شری موہن بھاگوت کا بیان: سچ کا اظہار

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 10-07-2021
موہن بھاگوت کا بیان
موہن بھاگوت کا بیان

 

AWAZURDU

 پروفیسر اخترالواسع

گزشتہ ہفتے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ یعنی آر ایس ایس کے سربراہ شری موہن بھاگوت کے مسلمانوں سے متعلق بیان کو روا روی میں نہیں لینا چاہیے۔ شری بھاگوت نے جو کچھ بھی کہا وہ حقیقت پسند بھی تھا اور معنی خیز بھی۔ انہوں نے ماب لنچنگ کو ہندتو کے خلاف قرار دیا۔ انہوں نے ہندوستان میں بسنے والے تمام لوگوں کا ڈی این اے ایک ہی بتایا، چاہے وہ کسی بھی مذہب کے ماننے والے ہوں۔

آر ایس ایس کے سربراہ نے کہا کہ ہم ایک جمہوری ملک میں رہتے ہیں، اس پر ہندوؤں یا مسلمانوں کا غلبہ نہیں ہو سکتا۔ صرف ہندوستانی ہی غلبہ حاصل کر سکتے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر ایک ہندو کہتا ہے کہ کسی مسلمان کو یہاں نہیں رہنا چاہیے تو وہ ہندو نہیں ہے۔ انہوں نے ہجومی تشدد کے خلاف قانون کو بلا تفریق کام کرنے کا بھی مشورہ دیا۔

جہاں تک مسلمانوں کا سوال ہے گزشتہ سات برس کے لگاتار سب و شتم نے یہ تو ثابت کر دیا کہ گھر واپسی ہو، لو جہاد ہوگؤ رکشا ہو، ہجومی تشدد ہو، تبدیلی مذہب ہو، ان تمام حربوں سے مسلمانوں کو ایک حد سے زیادہ خوفزدہ نہیں کیا جا سکتا۔ موہن بھاگوت صاحب اس سے پہلے بھی ایک آدھ موقعے پر خیرسگالی کی بات کر چکے ہیں اور ایسا نہیں کہ مسلمانوں نے اپنی طرف سے بھلمنساہت کا ثبوت نہ دیا ہو۔ یہاں تک کہ مولانا سید ارشد مدنی، صدر جمعیۃ علماء ہند، جو ابھی ۲/جولائی کو امیرہند بھی منتخب ہوئے ہیں، خود آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت صاحب سے ملنے جھنڈیوالان دہلی میں گئے تھے۔

خود وزیر اعظم نے بھی، جو آر ایس ایس کے پرچارک رہ چکے ہیں، ۴۱۰۲ء کا انتخاب جیتنے کے بعد، سب کا ساتھ سب کا وکاس کی بات کہی تھی اور ۹۱۰۲ء میں چناؤ جیتنے کے بعد اس میں سب کا وشواس کو بھی جوڑ دیا، جس سے یہ امید بندھی تھی کہ اب شاید اچھے دن آنے والے ہیں لیکن جو کچھ سامنے آیا وہ ناخوشگوار حد تک تکلیف دہ تھا۔

شری موہن بھاگوت نے بلا تفریق مذہب سارے ہندوستانیوں کا ڈی این اے ایک ہونے کی جوبا ت کہی ہم مسلمان تو شروع سے یہی کہتے آ رہے ہیں۔ ہمارے عقیدے کے مطابق ہندوستان ہمارا مادر وطن ہی نہیں بلکہ پدری وطن بھی ہے کیوں کہ ہم مسلمانوں کے عقیدے کے مطابق جب حضرت آدمؑ جنت سے زمین پر بھیجے گئے تو ان کا پہلا مسکن سرزمین ہند ہی تھی۔

مسلمان اس ملک پر بلا شبہ آٹھ سو سال تک حکومت کرتے رہے لیکن انہوں نے حکومت کی طاقت کا سہارا لے کر اپنی اقلیت کی حیثیت کو اکثریت میں کبھی تبدیل کرنے کی کوشش نہیں کی۔ انہوں نے ایک استبدادی سماج میں بلاشبہ حکمرانی کی تو وہ اس ملک کی اکثریت کے اشتراک سے کی اور اس کے لئے بیربل، ٹوڈرمل اور سوائی مان سنگھ کے نام ثبوت کے طور پر کافی ہیں۔

اسی طرح اس حقیقت سے بھی کوئی منکر نہیں ہو سکتا کہ اس ملک کی پہلی جنگ آزادی بہادر شاہ ظفر کی قیادت میں جن جیالوں نے لڑی اس میں بڑی تعداد غیر مسلموں ہی کی تھی جن میں جھانسی کی رانی، تانتیا ٹوپے، نانا جی پیشوا اور منگل پانڈے کے نام سرِ فہرست ہیں۔

غیر ملکی استعمار سے بعد ازاں بھی جنگ آزادی ہندو اور مسلمانوں نے مل کر لڑی۔ پہلی آزاد ہند حکومت جو جلا وطنی میں کابل میں قائم ہوئی اس کے صدر ایم اے او کالج کے پروردہ اور سرسید احمد خاں کے تربیت یافتہ راجا مہیندر پرتاپ تھے، تو وزیر اعظم مولانا برکت اللہ بھوپالی اور وزیر خارجہ دارالعلوم دیوبند کے سند یافتہ مولانا عبیداللہ سندھی تھے۔

اب جب کہ تقسیم وطن کو ۴۷/سال ہوا چاہتے ہیں اور شروع سے مسلمانوں کی ایک بڑی اکثریت نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ ترک وطن نہیں کریں گے اور ہندوستان جنت نشان کو پاکستان پر ترجیح دیں گے تو ان کے اس جذبے کی قدر کرنے کے بجائے انہیں طنز و تشنیع کا نشانہ اور ہجومی تشدد کا شکار بنایا جا رہا ہے۔

ہمیں بلا شبہ اپنے ہندو بھائیوں کے بعض معاملات میں حساسیت کا پورا احساس ہے۔ مثلاً شمالی ہندوستان کے ایک بڑے حصے کے رہنے والے گؤ کشی کے خلاف ہیں اور اسی لئے مسلمان بھی اس پر راضی ہیں کہ گؤ کشی سے پرہیز کرنا چاہیے۔ بابر سے سرسید تک، حمید الدین ناگوریؒ سے خواجہ حسن نظامی تک نے گؤکشی سے ہمیشہ پرہیز کی تلقین کی لیکن مسلمان گائے کے دودھ کا کاروبار بھی نہ کریں،وہ زراعت کے جانوروں کے لئے گائے کے ذریعے افزائش نسل کا بھی کام نہ کریں، ایسا تو نہیں ہونا چاہیے۔

ان باتوں کو اعادہ یہاں اس لئے نہیں کیا جا رہا کہ ہم اپنے زخموں کو ایک بار پھر کرید کر ہرا کرنا چاہتے ہیں بلکہ ان کو دوہرانے کی وجہ صرف اتنی ہے کہ شری موہن بھاگوت نے بہت کچھ نہ کہہ کر سب کچھ کہہ دیا ہے۔ہم نہ تو ان کی کہی ہوئی باتوں کو جھٹلائیں گے اور نہ اس کو منافقت پر محمول کریں گے اس لئے کہ ہمیں اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ شری بھاگوت کو کسی دکھاوے کی اور بناوٹی باتیں کرنے کی کوئی ضرورت ہے-

بلکہ ہم تو یہ چاہیں گے کہ آر ایس ایس کے چیف جو بی جے پی کے بھی نظریاتی سربراہ اور سپریم لیڈر ہیں، وہ اس بات کو حکومت کے ذریعے یقینی بنائیں کہ اقلیتوں کے ساتھ کوئی بھید بھاؤ نہیں ہوگا۔ اقلیتوں کو دستورِ ہند میں جو بنیادی حقوق عطا کئے گئے ہیں ان کی پاسداری بھی ہو اور ان کے تحت اس ملک کی اقلیتوں کو اپنی تعلیم و ترقی اور ملک کی تعمیر میں حصہ لینے کی پوری آزادی ہو۔

اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے اعتبار و اعتماد کی بحالی کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ دریدہ دہن لوگ جو ”جوتے مارو سالوں کو“ کا نعرے لگوا رہے تھے، دہلی پولیس کے ڈپٹی کمشنر کی موجودگی میں مسلمانوں اور سرکار کو دھمکا رہے تھے، مسلمانوں کے خلاف زہر اگل رہے تھے، اور آج بھی شری موہن بھاگوت کے برعکس مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کرتے پھر رہے ہیں، ان پر سخت کارروائی نہیں ہوتی ہے۔

لکشا دیپ کے ایڈمنسٹریٹر کو وہاں فساد پھیلانے سے نہیں روکا جاتا۔ جو لوگ جیلوں میں بند ہیں انہیں ضمانت پر رہا نہیں کیاجاتا۔ اس رہائی کا مقصد یہ بالکل نہیں ہے کہ قصوواروں کوسزانہ ملے لیکن ان کا جرم ثابت ہونے تک انہیں جیلوں میں رکھنا کہاں تک درست ہو سکتا ہے؟ شری موہن بھاگوت اور وزیر اعظم شری نریندر مودی کو عملی سطح پر ایک نئی شروعات کرنی چاہیے۔ وہ جو کچھ زبان سے کہہ رہے ہیں اس کو حقیقت میں سامنے آنا چاہیے۔

(مضمون نگار مولانا آزاد یونیورسٹی جودھپو رکے صدر اور جامعہ ملیہ اسلامیہ میں پروفیسر ایمریٹس ہیں۔)