آزادی کے 75 سال: ہندوستان کو بحیثیت ایک قوم تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 18-03-2021
ہندوستان اس سال اپنی  آزادی کی 75 ویں سال گرہ مناۓ  گا
ہندوستان اس سال اپنی آزادی کی 75 ویں سال گرہ مناۓ گا

 

 عاطر خان

چیف ایڈیٹر آواز دی وائس

اردو کے مشہور شاعر مرزا غالب نے کسی زمانے میں رنج اور افسوس میں ڈوبا ہوا ایک شعر لکھا تھا جس میں انہوں نے گلہ کیا کہ ان کے محبوب کو ان کی محبت کا احساس ہونے میں ایک عرصہ لگ گیا ۔ شعر کچھ یوں ہے کہ

آہ کو چاہیے ایک عمر اثر ہونے تک

کون جیتا ہےتیری زلف کے سرہونے تک

غالب نے یوں تو دل کی گہرایوں میں ڈوبا ہوا یہ شعر اپنے محبوب کے لئے لکھا تھا ، لیکن محب وطن لوگوں کے لئے ان خطوط میں ایک پیغام مضمر ہے کہ محبت کا ہر رشتہ صبر کی بنیاد پر ہی استوار ہوتا ہے ۔ ہندوستان کی آزادی کی 75 ویں سال گرہ کے اس عظیم موقع پر وزیر اعظم نریندر مودی کی سربراہی والی حکومت نے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے جو یوم آزادی کی اس خصوصی تقریب کے انعقاد کے حوالے سے اپنی سفارشات پیش کرے گی۔ اس خصوصی تقریب کے پیش نظر مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی 259 سرکردہ شخصیات کی ایک فہرست تیار کی گئی ہے۔

سرکردہ شخصیات کی یہ فہرست اس حوالے سے بھی خاصی دلچسپ ہے کہ اس میں سیاست سے تعلق رکھنے والے متعدد تجربہ کار سیاست دان جیسے ایل کے اڈوانی ، ایچ ڈی دیوی گوڈا ، سونیا گاندھی ، ملائم سنگھ یادو ، پرکاش سنگھ بادل وغیرہ شامل ہیں۔ اس فہرست میں کابینہ کے وزراء اور سیاسی پس منظر رکھنے والی شخصیات اور مختلف مذاہب یا مختلف ذاتوں سے تعلق رکھنے والے معروف افراد کے نام شامل کئے گئے ہیں اور ان کا اعلان ایک گزٹ کی شکل میں سرکاری طور پر کیا گیا ہے۔ ویسے تو کچھ شکی مزاج لوگ یہ استدلال ضرور کریں گے کہ کچھ اہم نام خارج کردیئے گئے ہیں۔ لیکن اس طرح کی شکایات کا کبھی خاتمہ نہیں ہوگا۔ یہاں یہ بات قبل غور ہے کہ کم از کم اس طرح کی فہرست تیار کرنے کی کوشش تو کی گئی ۔

یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ہندوستان کی آزادی کی جدوجہد میں شامل افراد کا تعلق مختلف مذاہب ، ذات، برادری اور ثقافت سے تھا۔ اس خصوصی تقریب کے لئے تیار ناموں کی فہرست دیکھ کر لامحالہ یہ تاثر ملتا ہے کہ فہرست کافی سوچ سمجھ کر تیار کی گئی ہے تاکہ عوام کے اذہان میں ہندوستانیت کے جذبے کو جاں گزیں کیا جا سکے ۔ اس فہرست میں قومی سلامتی کے مشیر جناب اجیت ڈووال جیسی شخصیات شامل ہیں ، جنہوں نے ہندوستان کی سلامتی کے لئے اپنی زندگیاں وقف کر دیں ۔ آزادی کے بعد ایسے لوگوں نے مستقل طور پر ملک اور قوم کے لئے اپنی زندگی کی تمام تر رنگینیاں اور عیش و عشرت قربان کر دیں ۔ ا س جامع فہرست میں نجمہ ہپت اللہ ، عارف محمد خان ، غلام نبی آزاد ، فاروق عبد اللہ ، مظفر حسین بیگ ، مولانا وحید الدین خان ، سیدنا مفضل سیف الدین، دلیپ کمار ، امجد علی خان ، کے کے محمد ، سید زین العابدین ، اے آر رحمان ، استاد ذاکر حسین اور عظیم ایچ پریم جی جیسے متنوع پس منظر سے تعلق رکھنے والے نامور مسلمانوں کے نام شامل ہیں۔ مسلم ناموں کا انتخاب اس حقیقت کا غماز ہے کہ کسی بھی دوسری اقوام کی طرح مسلمانوں نے بھی اپنے ملک کے لئے نمایاں خدمات انجام دی ہیں ۔

جہاں ایک طرف ہم اپنی ہندوستانیت کے احساس کو مزید تازہ کرنے کے آرزومند ہیں ،ہمیں یہ بات بھی ملحوظ رکھنی ہوگی کہ ہم اپنے یادگار ماضی کو فراموش نہ کریں۔ جب ہم آزادی کے بعد کے ہندوستان کے سفر پر نظر ڈالتے ہیں کہ ہمیں یہ اندازہ ہوتا ہے کہ یہ سفر کتنے ناقابل فراموش واقات سے مزین ہے ۔ مہاتما گاندھی کے علاوہ ، جنھیں ہم اتنے شوق سے بابائے قوم کے طور پر بیان کرتے ہیں ، ہندوستان کی قومیت کا نظریہ بنیادی طور پر اشرافیہ کے ایک طبقے نے پیش کیا جو جدیدیت ، یورپی نوآبادیاتی توسیع ، ریاست ، قوم پرستی ، جمہوریت اور معاشی ترقی کے مغربی نظریات سے بہت زیادہ متاثر تھے۔ معروف اسکالر سنیل کھلنانی نے اپنی کتاب ”آئیڈیا آف انڈیا“ میں ہندوستان کی جنگ آزادی کے تعلق سے حقائق کو نہایت خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ سب سے پہلے تو آزاد ہندوستان کی تاریخ کو ایک ریاست کی تاریخ کے طور پر دیکھا جا سکیا ہے :ایک ایسی ریاست جو دوسری جنگ عظیم کے اختتام کے بعد یوروپی سلطنت سے نکلنے والی متعدد ریاستوں کے مقابلے میں سب سے بڑی ہے۔

گذشتہ ڈیڑھ صدی کے دوران ہندوستانی سرزمین پر جدید ریاست کی آمد اور 1947 کے بعد مستحکم وجود کی حیثیت سے اس جدید ریاست کی ترقی اور استحکام ایک مسلمہ حقیقت ہے ۔ یہ تاریخ اس تبدیلی کی طرف بھی اشارہ کرتی ہے جہاں کبھی مختلف مقامی طریقوں سے اتھارٹی حاصل کرنے والی حکومت ایک واحد ، خودمختار ریاستی وجود میں بدل جاتی ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو ہندوستانی ریاست کی کامیاب کارکردگی نے بیرونی اور تقابلی معیارات پر ہونے والی اس کی تشخیص کو آج کے زمانے کے لئے موزوں بنا دیا ہے- ان تقابلی معیارات میں برطانوی راج سے وراثت میں ملنے والی علاقائی حدود کو برقرار رکھنے کی اس کی صلاحیت ، اپنی خودمختاری اور اپنے شہریوں کی سلامتی کو یقینی بنانا ، معاشی ترقی کے ایجنٹ کی حیثیت سے اس کی شاندار کارکردگی اور اپنے شہریوں کو مواقع فراہم کرنے کی اس کی طاقت جیسے نکات کو شامل کر سکتے ہیں ۔ جدید یوروپی ریاستوں کے برعکس ، جنہوں نے جدید قومی ریاستوں کی یہ خصوصیات بتدریج حاصل کیں ، ہندوستان جیسی نئی ریاست کو ایک جھٹکے میں ان خصوصیات کو اپنانا پڑا۔ اس طرح ان جدید معیارات پر کھرا اترنا بلا شبہ اس کے شہریوں کے لئے بہت اہم ہے۔ لیکن جدید ریاست کی ان ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہونے کے عمل کے دوران کئی بار ریاستی اداروں کو ناقابل عمل حقیقتوں سے بھی نبرد آزما ہونا پڑتا ہے ۔ اس لئے ہندوستانیوں کو چاہئے کہ جدید ریاست سے وابستہ سیاسی ، معاشرتی اور معاشی توقعات میں حقیقت پسندی کو ملحوظ رکھیں۔

اس سے پہلے کہ ہم توقعات پر جائیں ، آئیے ہم ہندوستان کے قومی ریاست بننے کے سفر کا ایک اجمالی جائزہ لیتے ہیں۔ مادر وطن ہندوستان کو اپنی تخلیق کے ابتدائی ایام میں غذائی قلت کا سامنا کرنا پڑا۔ وسیع پیمانے پر فاقہ کشی اور غربت کو ان 75 سالوں میں بہت حد تک کم کیا جا چکا ہے۔ ہم ایک لمبا سفر طے کرچکے ہیں لیکن کسی بھی فرد کے غربت سے نہ مرنے دینے کا خواب ہنوز شرمندۂ تعبیر ہے ۔ حالانکہ اس حوالے سے متعدد شخصیات نے کئی فیصلہ کن اقدامات کئے ہیں جن میں سر فہرست ہیں ایم ایس سوامی ناتھن جو ہندوستان میں جنم لینے والے سبز انقلاب کے روح رواں سمجھے جاتے ہیں- ان کی غیر معمولی کاوشوں نے ہندوستان کو خوراک کے حوالے سے خود کفیل بنایا اور زراعت کے روایتی طریقوں میں جدیدیت کی خوبصورت آمیزش کی ۔ اس سفر کے دوران ایسے متعدد انقلابات ہوئے جس کی بہتات کے باعث ہم ایک اہم انقلاب کو تقریبا بھول گئے اور وہ ہے آپریشن فلڈ ، جسے مایا ناز سماجی کاروباری اور خادم خلق ورجیس کورین نے شروع کیا تھا۔ اس انقلاب نے قومی سطح پر دودھ کے لئے گرڈ کو یقینی بنایا جس کے نتیجے میں آج ہم اپنے گھر کی دہلیز پر دودھ کی مستقل اور بلاتعطل فراہمی سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔

حالیہ دنوں میں ہم ایک زندہ لیجنڈ ای سریدھرن کی مثال دے سکتے ہیں ، جنہوں نے ہندوستانی ریلوے کو اپنی غیر معمولی اور قابل ذکر خدمات دے کر کئی پیچیدہ ریل نیٹ ورک تشکیل دیے اور میٹرو ریل کی کامیابی کی داغ بیل ڈالی ۔ ان کوششوں نے عوام زندگی میں خاطر خواہ آسانیاں پیدا کر دیں ۔ ہندوستانی ایرواسپیس میں سابق صدر اے پی جے عبد الکلام کی گراں قدر خدمات کو کون فراموش کرسکتا ہے؟ ملک کی ایٹمی صلاحیت کو استوار کرنے اور جدید میزائل ٹیکنالوجی کی تعمیر میں ان کی خدمات غیر معمولی ہیں۔ جدید سیٹیلائٹ کے میدان میں بھی ہندوستان کی کامیابی ناقابل یقین ہے۔ اب تو ہندوستان چندریان پروجیکٹ کی تیاری کر رہا ہے۔ ہندوستانی جمہوریت کی عمر اتنی ہی ہے جتنی اس کی آزادی کی عمر ہے۔ اس جمہوریت کے تحفظ میں فنون اور ثقافت نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ آزادی کے بعد کے عہد میں انہیں خوب فروغ ملا ۔ آزادی کے فورا بعد ہی چھ فنکاروں کے ایک گروپ جس میں کے ایچ آرا ، ایس کے باکرے ، ایچ اے اے گاڈے ، ایم ایف حسین ، ایس ایچ رضا اور فرانسس نیوٹن سوزا شامل تھے، نے ممبئی میں ایک ایسے کلب کو قایم کیا جس نے ہندوستان میں فنون لطیفہ کی بنیاد رکھی۔

ہری شنکر پرسائی ، سومیترنندن پنت ، ریتوک گھٹک ، سبرامانیا بھارتی ، راہی معصوم رضا اور ساحر لدھیانوی جیسے مصنفین نے آزادی کے بعد کے ادب میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ستیجیت رے ، بمل رائے ، گرو دت ، شیام بینیگل ، وی شانتارام ، ادور گوپال کرشنن ، بلراج سہانی ، دلیپ کمار اور امیتابھ بچن جیسے فنکاروں پر تمام ہندوستانی قوم نازاں ہے ۔ استاد مشتاق حسین ، احمد جان تھیکروا ، استاد الله رکھا خان ، پنڈت روی شنکر ، ہری پرساد چورسیا ، پنڈت شیو کمار شرما ، آر ڈی برمن جیسے موسیقاروں نے بھی بڑی خدمات دیں۔ گلوکار محمد رفیع ، منا ڈے ، لتا منگیشکر ، کشور کمار ، مکیش ، آشا بھوسلے ، یسوداس اور جگجیت سنگھ کی خوش کن پیشکش سے آج بھی ہم محظوظ ہوتے ہیں ۔ یہ لوگ تو ہندوستان کے برانڈ امبیسڈر بن چکے ہیں۔

آزادی کے بعد جب ہم کئی اعتبارات سے خود کفیل ہوگئے جس کے بعد ہم نے بحیثیت قوم اپنی شناخت کے بارے میں سوچنا شروع کیا۔ ایک سیاسی ، معاشرتی اور معاشی طور پر متحرک قوم کی حیثیت سے ہماری شناخت۔ آزادی کے بعد کی کئی دہائیوں تک ہندوستان کی سیاسی ، معاشرتی اور معاشی سمت کا تعین نہرو کی کانگریس نے کیا ۔ نہرو ایک ماڈرنسٹ تھے اور بہت سے لوگ انہیں ایک صاحب بصیرت سیاست دان کی حیثیت سے جانتے ہیں۔ وہ انگریز حکوممت کے دوران نو بار جیل جا چکے تھے ۔ لیکن چین کے ساتھ 1962 کی جنگ میں فیصلے کی غلطی پر انھیں اکثر تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ جب ہندوستان نے اپنی قومی شناخت کے اثبات کی کوشش کی تو اس قسم کے مسائل کا جنم لینا ناگزیر تھا۔ سن 2020 میں ہم نے چین کے ساتھ سرحدی تصادم کی شکل میں ایک تازہ آزمائشی دور دیکھا۔ دونوں اطراف سے ہلاکتوں کے بعد حالات نارمل ہوئے اور اب دونوں ممالک مسائل کے پرامن حل کی راہ پر گامزن ہیں ۔

یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ پچھلے چھ سالوں میں ہندوستان نے خود کو دنیا کے سامنے ایک ایسی قوم کی حیثیت سے پیش کیا ہے جو اس نے پہلے کبھی نہیں کیا تھا۔ اس عمل میں موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی کی کوششیں نمایاں رہی ہیں ۔ جیمینی بھگوتی نے اپنی کتاب دی پرومس آف انڈیا میں لکھا ہے کہ مودی کے پاس دنیا کے دوسرے ممالک تک پہنچنے کے لئے انتہائی ناقابل یقین اعلی اور پائیدار توانائی ہے اور جس کا استعمال انہوں نے اپنے دور اقتدار کے آغاز ہی سے ہی شروع کر دیا تھا ۔ انہوں نے ایسے ممالک کا بھی دورہ کیا جہاں ایک طویل عرصے تک کوئی وزیر اعظم نہیں گیا تھا- ان ممالک میں فجی ، نیپال ، ماریشس اور آسٹریلیا جیسے ممالک شامل ہیں۔ انہوں نے جی 20 ، ایس سی او ، برکس جیسے دو طرفہ اور کثیرالجہتی فورموں میں امریکہ ، جرمنی ، فرانس ، برطانیہ اور جاپان کے حکومتوں کے سربراہوں کے ساتھ متواتر اعلی سطحی بات چیت کرنے میں کامیابی حاصل کی ۔

غریبوں کے لئے براہ راست نقد رقم کی منتقلی اور جی ایس ٹی کے کامیاب نفاذ کے لئے مودی جی کی کوششیں قابل تحسین ہیں ۔ ان کے "آیوشمان بھارت" اور "سوکش بھارت" جیسے اقدامات کی بہت تعریف کی گئی ۔ ان کے دور حکومت میں توانائی کے شعبے میں اصلاحات لانے کی کوششیں کی جارہی ہیں تاکہ ہر گھر کو "گھر گھر بجلی اسکیم" کے تحت بجلی مل سکے اور اوجولا یوجنا کے تحت کھانا پکانے کے لئے توانائی مل سکے۔ تاہم مودی کی سب سے بڑی کامیابی ہندوستان کا ڈیجیٹائزیشن ہے۔ اور حال ہی میں عالمی وبائی مرض کورونا سے تدبر کے ساتھ نمٹنا اور ویکسی نیشن مہم کا آغاز کرنا ان کی کامیابیوں کی فہرست میں شامل ہیں ۔ ا ب ہم آپ کو اس دور میں واپس لے چلتے ہیں جب نہرووین کانگریس اندرا کی کانگریس میں تبدیل ہوگئی ، جس نے ہمیں ایمرجنسی جیسے تاریخ کے ناقابل فراموش واقعات بھی دیئے۔ حالانکہ اندرا گاندھی نے 1971 میں پاکستان پر تاریخی فتح حاصل کرکے ہندوستان کا سر فخر سے اونچا کردیا۔ اس جنگ کے نتیجے میں بنگلہ دیش معرض وجود میں آیا ۔ جب جغرافیائی سالمیت کی بات آتی ہے تو ہندوستان کسی سمجھوتے کا متحمل نہیں ہو سکتا ۔ ہندوستان نے اس کی خاطر چار جنگیں لڑیں ہیں ۔ لیکن بالاکوٹ میں 2019 کا تازہ ترین حملہ ایک غیر معمولی واقعہ تھاجس کے نتیجے میں ہمسایہ ملک پاکستان جو کہ ایٹمی صلاحیتوں کا بھی مالک ہے، اس انتہائی جرات مندانہ فوجی پیش قدمی سے حیران رہ گیا ۔ ان تمام لڑائیوں میں ہندوستان فاتح بن کر ابھرا ۔

آزادی کے فورا بعد ہی عظیم وژن کے حامل رہنما سردار پٹیل نے ہندوستان کو مضبوط اور مستحکم قوم بنانے میں ایک اہم کردار ادا کیا۔ ان کی استقامت کی وجہ سے ہزاروں دیسی ریاستوں کو ایک قومی ریاست کے تصور میں ضم کرنے میں کامیابی حاصل ہوئی۔ سن 1980کی دہائی میں راجیو گاندھی نے وزیر اعظم کی حیثیت سے ملک کا اقتدار سنبھالا جس کے بعد ملک میں کچھ اہم تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ انہیں ہندوستان میں کمپیوٹر انقلاب کا موجد سمجھا جاتا ہے۔ سرکاری افسران اور بیورکریسی کی سخت مزاحمت کے باوجود انہوں نے اس کام کو انجام تک پہنچایا ۔ بعد میں وہ ایک دہشت گردانہ حملے میں مارے گئے ۔ ان کے دور میں کانگریس پر تنقید کی گئی کہ سکھوں کے قتل عام کو روکنے کے لئے انہوں نے کوئی خاطر خواہ کام نہیں کیا۔

آزادی کے ابتدائی عشروں میں قومی سیاست پر ہندی بولنے والے وزرائے اعظم کا غلبہ رہا ۔ بعد میں جناب دیوی گوڑا ہندوستان کے ایسے پہلے وزیر اعظم بنے جو ہندی میں بات نہیں کرسکتے تھے ۔ بالآخر انہوں نے زبان سیکھنے کی کوشش کی ۔ اتفاق سے وہ 75 سالہ جشن آزادی کی خصوصی تقریب کے لئے حکومت کے ذریعہ تیار کردہ لوگوں کی فہرست میں شامل ہیں۔ ہمارے پاس بطور وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی جیسے عظیم قائدین بھی رہے ہیں ، جنھیں جوہری تجربات جیسے جرات مندانہ اقدامات کرنے کے لئے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ اس قدم نے ہندوستان کی حیثیت کو ایک مضبوط ریاست کے طور پر مسلم کیا۔ ایک ایسی مضبوط ریاست جو خود کی سالمیت کی بات آنے پر کسی بھی بین الاقوامی دباؤ کی آگے نہیں جھکتی ۔ اس نے ہندوستان کے سپر پاور بننے کے عمل کا آغاز کیا جو ابھی تک جاری ہے۔ جوہری تجربات کے بعد بھارت کو بین الاقوامی پابندیوں کی وجہ سے کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا لیکن ہم نے حالات کے نشیب و فراز سے مسلسل ترغیب حاصل کی۔

واجپئی حکومت نے ایک اور انقلاب کی داغ بیل ڈالی اور ملک میں قومی شاہراہوں کا جال بچھا د یا۔ وقت اور حالات سے سبق لیتے ہوئے 1991 میں ہم نے مخلوط معیشت کے نہرو کے تصور سے آزاد معیشت کی جانب قدم بڑھایا اور اس کامیابی کا سہرہ جاتا ہے اس وقت کے وزیر اعظم نرسمہا راؤ کوجن کی دورندیش پالیسیوں نے ایک نئے دور کا آغاز کیا۔ وہ ایک اعلی درجے کے ذہین اور مدبر سیاست دان تھے متعدد غیر ملکی زبانوں پر بھی قدرت حاصل تھی ۔ آزادی کے بعد سے ہی ہندوستان متعدد نمایاں سیاسی سرگرمیوں کا گواہ بنا ۔ یہاں کے لوگوں نے متعدد سیاسی جماعتوں کو بااختیار بنایا۔ پارٹیوں کی ایک بڑی تعداد نے خود کو ذات پات اور مذہب کی بنیاد پر استوار کیا۔ وی پی سنگھ نے منڈل کمیشن کی سفارشات کو متعارف کرایا جس کا مقصد سرکاری ملازمتوں میں ذات پات کی بنیاد پر ریزرویشن دیتے ہوئے پسماندہ افراد کو برابری کا موقعہ دینا تھا۔ سماجوادی اور بی ایس پی جیسی سیاسی جماعتیں انھیں ذات پات کے ووٹ بینک کی بنیاد پر اقتدار میں آ ئیں۔ اس کے علاوہ ہندوستان کے وفاقی نظام میں مزید تحریک دیکھی گئی۔ مرکز پر حکومت کرنے والی جماعتوں اور ریاستوں میں بر سر اقتدار جماعتوں کے مابین تفریق بالکل واضح ہوگئی۔

ڈاکٹر من موہن سنگھ کی حکومت کے دوران کانگریس نے ملک کی تعمیر میں خاطر خواہ خدمات انجام دیں ۔ انہیں امریکہ کے ساتھ تاریخی جوہری ڈیل اور رائٹ ٹو انفارمیشن قانون جیسے جرات مندانہ اقدامات کے لئے یاد رکھا جائے گا۔ حال ہی میں عام آدمی پارٹی ، جو انا ہزارے جیسے انسداد بدعنوانی کے سرکردہ کارکن کی تحریک کا ضمنی نتیجہ تھی ، ایک سیاسی جماعت کی حیثیت سے پختگی اختیار کرگئی ہے۔ اس سے قبل مرکز میں بی جے پی کے ساتھ اس کے متعدد تنازعات تھے لیکن اب اس نے سیاسی چفقلش پر توجہ دینے کے بجائے گڈ گورننس پر توجہ دینا شروع کردی ہے۔ معاشرتی طور پر ہندوستان کا سفر اطمینان بخش نہیں رہا ۔ کچھ معروف اسکالرز کا خیال ہے کہ آزادی کے بعد سے اکثریتی ہندو برادری کے خدشات اور توقعات کو مناسب طریقے سے مدنظر نہیں رکھا گیا جس کے نتیجے میں آخر کارہمیں ہندو قوم پرستی کا ابھار دیکھا ۔ سن 1992 میں صدیوں سے ایک جغرافیائی حدود میں آباد ہندو اور مسلم برادری کے مابین مضبوط رشتوں کو بابری مسجد کے انہدام نے پارا پارا کر دیا ۔ فرقه وارانہ مخاصمت کی وجہ سے ممبئی فسادات ہوئے ۔ 2002 میں گودھرا میں ایک ٹرین کو نذر آتش کیا گیا تھا جس میں 58 ہندو یاتری ہلاک ہوگئے جس کی وجہ سے گجرات میں پرتشدد ہنگامے ہوئے ۔

وقت کے ساتھ ان تمام زخموں کا علاج ہورہا ہے اور شکر ہے کہ اب متنازعہ ڈھانچے سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد بابری مسجد کے تنازعہ کو دوستانہ ماحول میں حل کیا گیا ۔ 2000 کے بعد سے ایک پریشان کن رجحان ابھر کر سامنے آیا۔ ہندوستانی مسلمانوں کو دہشت گردی کی طرف مائل کیا گیا جس میں پاکستان اور کچھ دیگر بین الاقوامی انتہا پسند اسلامی تنظیموں نے بڑا کردار ادا کیا۔ بھارت نے اس مسئلے کو ختم کیا اور اپنی خودمختاری کے تحفظ کے لئے اس کی کوششیں جاری ہیں ۔ انیس سال بعد ملک شہری ترمیمی قانون کے خلاف ہونے والے مظاہروں کا شکار ہوا۔ ابھی حال ہی میں ہم نے پُر تشدد کسانوں کو نئے زرعی قوانین کے خلاف احتجاج کرتے دیکھا ہے۔ یہ تعطل ابھی تک جاری ہے۔

لہذا اگر آپ ہندوستان کے سفر کو دیکھیں تو یہ حیرت انگیز ہے۔ اس کی نا مواقف حالات کو مات دے کر دوبارہ کھڑے ہونے کی صلاحیت دنیا کے لئے حیرت کا باعث رہی ہے۔ اگرچہ ناقص سیاسی نظم و نسق کی وجہ سے پوری دنیا میں متعدد جمہوری جماعتیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں ، لیکن ہندوستان کی پوزیشن ایک متنوع ملک کی حیثیت سے ابھی بھی مسلم ہے۔ آزادی کی 75 ویں سالگرہ کے موقع پر حکومت کی مختلف ذات پات ، مذہب یا مسلک سے تعلق رکھنے والے افراد کی فہرست تیار کرنے کی کوشش قابل تحسین ہیں۔ قوم اسی وقت مضبوط ہوگی جب ہر ہندوستانی کو یہ احساس ہوگا کہ ہمارا وجود ہندوستان کی وجہ سے محفوظ ہے۔ ایک خوشحال زندگی ایک مضبوط قومی تعمیر کے عمل کا حصہ بننے میں مضمر ہے۔ ہندوستانیوں کو فراموش کرنے اور معاف کرنے کے لئے شعوری طور پر کوشش کرنی پڑے گی۔

سن 2019 کے عام انتخابات میں 90 کروڑ ووٹرز تھے۔یہ دنیا میں ووٹروں کی سب سے بڑی تعداد تھی ۔ ووٹنگ 67.11 فیصد رہی جو ہندوستان کے عام انتخابات میں اب تک کی سب سے بڑی ووٹنگ شرح ہے۔ انتخابات کے نتیجوں سے ایک اہم سبق یہ ملتا ہے کہ اگر کانگریس نے اپنی جاگیردارانہ روش ترک نہیں کی تو اس کے خاتمہ نا گزیر ہے ۔ جو کہ جمہوریت کے لئے اچھا شگون نہیں ہے کیوں کہ متحرک جمہوریت کے لئے کم از کم دو مضبوط قومی جماعتوں کی ضرورت ہے۔ ہندوستان کی معاشرتی ، معاشی اور خارجہ پالیسی کے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لئے نظام کو درست کرنے کی کوشش کرنی ہوگی ۔ چند سیاسی اشرافیہ کی تبدیلی سے کچھ حاصل کا امکان کم ہے ۔ اس حوالے سے ہندوستانی قیادت کو زیادہ مدبرانہ اقدامات اٹھانے پڑیں گے ۔ کچھ حلقے مساوات کے لئے بنیادی تبدیلیوں میں تیزی لانا پسند کرتے ہیں لیکن یہ ایک غیر منصفانہ اور ناقابل عمل اقدام ہوگا۔ امریکی ، برطانوی اور فرانسیسی جمہوری ریاستیں ہندوستان سے کہیں زیادہ پرانی ہیں۔ لیکن یہ ترقی یافتہ ممالک بھی جو مساوی مواقع کی سرزمین ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں ، انہیں بھی ابھی بہت آگے جانا ہے۔ اس لئے ہندوستان کو بحیثیت ایک قوم تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ ابھی تو ہمیں صرف 75 سال ہی ہوئے ہیں۔ ہر بہتر اور اعلی مقصد اپنے حصول کے لئے وقت کا تقاضہ کرتا ہے۔