
ڈاکٹر عمیر منظر
ایسوسی ایٹ پروفیسر
شعبہ اردو/ مانو لکھنؤ کیمپس
مہرانی باغ دہلی کی شاید وہ ایک سہہ پہر تھی جب سنجیو سراف نے اپنی کوٹھی پر یہ کہا کہ مجھے اردو شاعری کی ایک ویب سائٹ تیار کرنی ہے۔میں نے بلا سوچے سمجھے حامی بھر لی پھر انہوں نے کچھ دیر بعد اس کی وضاحت یوں کی کہ اردو شاعری سے مجھے بہت دلچسپی ہے۔پرانی فلموں کے نغموں نے اس میں مہمیزکا کام کیا ہے۔بے شمار نغمے مجھے یاد ہیں۔فارغ اوقات میں ان سے دل بہلاتا رہتا ہوں۔لیکن اردو کے بہت سے الفاظ میری سمجھ میں نہیں آتے۔شاعری بھی پریشان کرتی ہے۔میرے سامنے بہت ساری مشکلات ہیں میں چاہتا ہوں کہ اب میرے بعد جو کوئی اردو کا عاشق آئے تو اسے ان پریشانیوں کا سامنا نہ کرنا پڑے۔اسی لیے میں ایسی ویب سائٹ بنانا چاہتا ہوں کہ وہ لوگ جن کی مادری اردونہیں ہے وہ شاعری کے اس پورے منظر نامے کو سمجھ سکیں اور لطف بھی اٹھا سکیں۔بات آئی گئی اور ہو گئی۔کچھ دنوں بعد انہوں نے دوبارہ توجہ دلائی اور پھر ایک دن وہ مجھے اپنے ساتھ لے کر نوئیڈا ’پالی پلیکس‘ کے آفس گئے۔یہ کمپلیکس اچھا لگا۔اسے دیکھ کر خوشی ہوئی،چند لوگوں سے وہاں پر ملاقات بھی ہوئی لیکن کسے معلوم تھا کہ اسی آفس میں ریختہ کی بھی بنیاد پڑنے والی ہے۔
کچھ ہی دنوں میں مجھ پر یہ بات اچھی طرح واضح ہو گئی کہ جناب سنجیوسراف شاعری سے جنون کی حد تک لگاؤ رکھتے ہیں۔ انہوں نے ایک مرتبہ دوران گفتگو یہ بھی کہا تھا کہ زندگی میں بہت ساری خواہشیں تھیں جو پوری ہو گئیں اب جو کچھ ہے یہی اردو ہے۔اسی میں کچھ کام کرنا چاہتا ہوں۔شاعری میرا عشق ہے۔اگریہ کام بھی سلیقے سے ہو جائے تو کیا کہنے۔واقعہ یہ ہے کہ یہ سلیقہ جس محبت سے انھوں نے نبھایا ہے اس کی مثالیں اتنے بڑے اور عالی شان پیمانے پر کم ہی ملیں گی۔جشن ریختہ زبان سے عشق کے اسی سلیقے کا نام ہے۔ریختہ کے توسط سے انٹر نیٹ پر اردوکی جو شاندارا اور جاندار دنیا نظر آرہی ہے پہلے ایسا نہیں تھا۔2010سے پہلے تک انٹر نٹ پر اردو کی دنیا بالکل ویران تھی۔کہیں کچھ نظر ہی نہیں آتا تھا۔حالانکہ دلی میں رفتہ رفتہ ٹکنالوجی کی دنیا زور پکڑ رہی تھی۔جامعہ ملیہ اسلامیہ کے وائس چانسلر جناب سید شاہد مہدی نے کمپیوٹر کو رواج دینے،طلبہ خصوصاً ریسرچ اسکالر کے فلو ر پر انٹر نٹ کی سہولت عام کرنے کا بیڑا اٹھایا اور اس میں وہ کام یاب بھی رہے مگر ہم لوگوں کے لیے چند سائٹیں ہی تھیں جہاں بیشتر کچھ رومن میں ہی تھا۔مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب پہلی بار سنجیو صراف صاحب کے ساتھ میں اور دھرمیندر ساہا اطلاعاتی ٹکنالوجی پر اردو کو تلاش کررہے تھے تھے تو دوچار ادھوری قسم کی ویب سائٹ تھیں اور وہ بھی برسوں پہلے کی اپڈیٹ تھیں۔شاید اس میں سب سے نمایاں ”اردو پوئٹری“ کے نام سے تھی۔گزشہ پندرہ برس کا عرصہ انٹر نیٹ پر اردو کے غیر معمولی عروج کا جو زمانہ ہے یہ دراصل ایک ایسے شخص کے خواب کی تعبیر ہے جسے اُس وقت اردو زبان کے نادیدہ عاشقوں میں شمار کیا جاتا تھا۔

ریختہ کے ابتدائی دنوں میں ہی سنجو صراف کے بعد دھرمیندرساہا سے ملاقات ہوئی۔جیسے جیسے ان سے ملاقاتیں بڑھتی گئیں کام کا دائرہ بھی بڑھتاگیا۔پیشے سے وہ ایک میکینکل انجینئر ہیں۔ نہایت سنجیدہ،بردبار اور ٹھہر ٹھہر کر گفتگو کرنے والے۔ان کی اپنی دلچسپیاں بھی رہی ہوں گی مگر اب تو سب کچھ ریختہ کے لیے وقف ہے۔ریختہ سے ان کے ذوق و شوق کی کہانی ایک الگ ہی پس منظر رکھتی ہے جس میں منظر کم اور پس منظر زیادہ ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ کہانی کا یہ کردار پس منظر میں زیادہ اور منظر میں کم ہے۔

پہلے پہل جب ان سے ملاقات ہوئی اور ویب سائٹ کا ڈول ڈالا جا رہا تھا تو وہ مجھے ٹیکنالوجی کے بارے میں سمجھاتے اور مجھ سے اردو کے ادیبوں شاعروں اور شعروں کے بارے میں دریافت کرتے۔ اس طور سے اگر دیکھا جائے تو وہ زیادہ کامیاب رہے۔میرا خیال ہے کہ گزشتہ ایک دہائی کے دوران انہوں نے اپنے بنیادی مضمون پر کم اور شعر و شاعری کے میدان میں زیادہ توجہ دی ہے۔اور اب تو ان کی آرزوؤں اور منگوں کا ایک بڑا دائرہ جشن ریختہ سے عبارت ہو گیا ہے۔ہر برس کچھ نہ کچھ نیا کرنے اور ریختہ کو بہتر سے بہتر بنانے کی ایک دھن ہے جو ہر دم سوار رہتی ہے۔مجھے نہیں معلوم کہ وہ اس کمپنی (پالی پولیکس)سے کب وابستہ ہوئے اور ان کا بنیادی کام کیا تھا۔حالانکہ کہ وہ ایک میکینکل انجینئر ہیں۔اور اس میں انھیں بڑی مہارت بھی ہے۔انھو ں نے NITدرگار پور سے بی ٹیک کیا تھا۔
حکومتِ ہند کا یہ اہم قومی ادارہ، جو اعلیٰ معیار کی ٹیکنیکل تعلیم فراہم کرتا ہے۔بہترین پلیسمنٹ: شاندار ریکارڈ، جہاں Google، Intel، Qualcomm جیسے بڑے ادارے بھرتی کرتے ہیں؛ کمپیوٹر سائنس، ECE اور میٹالرجی کے شعبوں میں اکثر بہترین پلیسمنٹ ہوتے ہیں۔یہ ادارہ CSE ، ECE، مکینیکل، الیکٹریکل اور میٹالرجیکل انجینئرنگ کے لیے خاص طور پر مشہور ہیں۔ NIRF کی درجہ بندی میں ادارہ انجینئرنگ اور مجموعی رینکنگ میں اچھی پوزیشن رکھتا ہے۔
مگر 2011سے وہ اردو کے ایک اہم سپاہی کے طورپر کام کررہے ہیں۔کسی زبان کو جاننا اور سیکھنا شوق سے عبارت ہے مگر اس کی دلچسپیوں کو اختیار کرلینا اور اس کلچر سے ہم آہنگ کرلینا ایک الگ کارنامہ ہے۔گزشہ ندرہ برسوں میں وہ اردو کے ہو کر رہ گئے ہیں۔اردو والوں سے ربط و تعلق بڑھا ہے۔

ریختہ کے سلسلے میں 2011میں سب سے زیادہ گفتگو،بات چیت،کام کی نوعیت اور طریقے کے بارے میں دھرمیندر ساہاسے ہوئی۔اس کام کو عملی شکل کس طرح اور کیسے دی جائے۔کاموں کا ابتدائی خاکہ ہم دونوں ہی مل کر تیار کرتے اور پھر اس پر گفتگو کرتے۔ابتدا میں کام کے تعین کے سلسلے میں جب میں نے انھیں بتایا کہ ابتدا سے مرزا غالب تک کے منتخب شعرا کا کلام پہلے پہل کمپوز کرایا جائے گا اور پھر انھیں اپلوڈ کریں گے۔اس کی باقاعدہ فہرست بنائی گئی اور کام شروع ہوا۔پہلے مرحلے میں ولی، آبرو،شاہ حاتم،احسن اللہ خاں بیان،قائم چاند پوری،مومن خاں مون،خواجہ میر درد،شاہ نصیر،سودا،ذوق،ریاض خیر آبادی بیخود دہلوی برق اور دیگر شعرا کا کلام منتخب کرکے کمپوز کرایا گیا۔ابتدا ئی دنوں میں ہی دھرمیندر ساہا نے EXL شیٹ تیار کرکھی تھی جس سے کافی سہولت رہتی تھی کتنا کام ہوا یہ ان کے سامنے رہتا۔دسمبر 2012کی ایک شیٹ سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس وقت تک ہم لوگ 360شعرا کا کلام اپلوڈ کرچکے تھے۔ان سارے کامو ں کی نگرانی دھرمیندر ساہا ہی کرتے تھے۔جب میں لکھنؤ آگیا تب بھی وہ برابر توجہ دلاتے رہتے۔اور ان کی یہی توجہ اور کام کرنے کے ایک منظم طریقہ کار نے بہت سے راستوں کو کھولا بلکہ ابتدئی دنو ں میں بہت سارے لوگ صرف کام کی وجہ سے متوجہ ہوئے۔شمس الرحمن فاروقی،پروفیسر شمیم حنفی جیسی ممتاز شخصیات نے ابتدا میں ہی ریختہ کے کاموں کو سراہا بلکہ اس کے دست و بازو بن گئے۔
ویب سائٹ کے حوالے سے پہلے پہل جو تحریریں اردو اخبارات کی زینت بنیں ان میں ایک آرٹیکل پروفیسر اخترالواسع کا تھا جس کا عنوان تھا”اک حقیقت نے کیا خواب سا جادو مجھ پر“۔پہلے یوم تاسیس کے موقع سے پروفیسر اخترالواسع نے کہا تھا کہ کوزے میں دریا کو بند کرنا کل تک ایک قول محال سمجھا جاتا تھا لیکن ریختہ کے ذریعہ اردو زبان وادب کے ایک نہیں بلکہ تمام دریاؤں کو ایک کوزے میں جمع کردیا گیا ہے۔اسی کا نام ریختہ ہے۔پروفیسر اخترالواسع نے یہیں پر بس نہیں کیا بلکہ دلی اردو اکادمی کے وائس چیرمین کی حیثیت سے انھو ں نے سنجیو صراف کو منشی نول کشور فروغ اردو ایوارڈ سے سرفراز بھی کیا۔یہ چیزیں ریختہ کے لیے بہت سازگار ثابت ہوئیں اور اس نے رفتہ رفتہ ایک مستحکم زمین تیار کرلی۔یہاں تک کہ اب یہ ایک ادارہ جاتی حیثیت اختیار کرچکا ہے۔فی زمانہ اردو ادب کا کوئی تصور ریختہ کے بغیر ممکن نہیں۔