قدسیہ بیگم: بھوپال کی پہلی مسلم خاتون حکمران

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | 2 Years ago
قدسیہ بیگم
قدسیہ بیگم

 

 

 ثاقب سلیم/ نئی دہلی

بھوپال میں برطانوی حکومت کے سیاسی نمائندے لانسلٹ ولکنسن نے ، بھوپال کی خواتین حکمرانوں کی کڑی میں پہلی حکمران قدسیہ بیگم کے بارے میں اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایک سپاہی کو اکثر یہ احساس ہوتا ہے کہ بعض اوقات وہ آپے سے باہر ہو جاتی تھیں اور ان سے ملنا کسی شیرنی سے ملنے سے بھی زیادہ خوفناک ہوتا تھا ۔

بیگم نے 1819 میں تاریخ رقم کرتے ہوئے بھوپال کے تخت پر بیٹھیں ، اس وقت ان کی بیٹی سکندر بیگم شادی کی عمر کو بھی نہیں پہنچی تھیں۔ یہ طے ہوگیا تھا کہ سکندر بیگم کا شوہر بالآخر حکمران بن جائے گا ، لیکن اس وقت تک قدسیہ بیگم کو حکمرانی کے تمام تر اختیارات حاصل ہوں گے ۔

عائشہ کی مثال سے بنی حکمران شاہی خاندان کے تمام مرد ارکان اور اسلامی اسکالرز (مفتیوں اور قاضیوں) کے دستخط شدہ تحریری دستاویز کے طور پر اس کی تشریح کی گئی جس میں اس مروجہ عقیدے کو چیلنج کیا گیا تھا کہ اسلام نے خواتین کو سیاسی حقوق نہیں دئے ۔ اسلامی اسکالرز کا مؤقف تھا کہ ابتدائی اسلامی تاریخ میں حضرت عائشہ جیسی خواتین نے مردوں پر سیاسی اقتدار حاصل کیا ، اس طرح قدسیہ بھی تخت کی جائز دعویدار ہوسکتی ہیں ۔

بھوپال پر حملہ

سن 1799 میں پیدا ہونے والی قدسیہ بیگم نے اپنی زندگی کے اوائل میں سیاسی معاملات میں خواتین کی طاقت سے آشنائی حاصل کی ۔ جب 1812 میں ناگپور اور گوالیار کی فوجوں نے بھوپال کا محاصرہ کیا تو اس دوران ناگپور کی فوج نے شہر کو تقریبا تاراج کر دیا تب خواتین نے جمع ہوکر ان پر حملہ کیا۔ پتھروں ، اینٹوں اور لاٹھیوں کے ساتھ۔

جر ت اور دلیری کی نادر مثال پیش کرتے ہوئے بھوپال کی خواتین نے کسی فوجی تربیت یا ہتھیار کے بغیر دشمنوں کو نکال باہر دیا۔ اس واقعہ کا قدسیہ پر دیرپا اثر ہوا - اس واقعہ نے ان کو یقین دلایا کہ عورتیں بھی مردوں کی طرح حکمرانی کرسکتی ہیں۔

بیٹی کے منگیتر کی بغاوت

بھوپال کے حکمران نواب نظر محمد خان ، قدسیہ بیگم سے شادی کے تین سال کے اندر ہی انتقال کر گئے اور اپنی اکلوتی بیٹی سکندر بیگم کو اپنا جانشین بنا دیا ۔ بیگم نے اپنے چار چیف ایڈوائزر حکیم شہزاد مسیح ، راجہ خوشاوت رائے ، میاں کرم محمد خان اور بخشی بہادر محمد خان کی مشاورت سے نذیر محمد خان کے بھتیجے منیر خان کے ساتھ اپنی بیٹی سکندر بیگم کی منگنی کر دی ۔

تاہم منیر خان اپنے والد امیر محمد خان کے زیر اثر ، بیگم کے اقتدار کے خلاف متحرک باغیوں کی مدد کرنے لگے۔ اس سازش کا انکشاف اس وقت ہوا جب مسیح پر قاتلانہ حملے کی کوشش کی گئی۔ اس کے بعد منیر نے ایک بار پھراپنے آدمیوں کو اکٹھا کیا اور اس بار بخشی بہادر نے اس کا مقابلہ کیا۔ بخشی کی سربراہی میں بیگم کی افواج نے فتح گڑھ قلعہ کا محاصرہ کیا ، جہاں منیر روپوش تھا۔ اگرچہ منیر اور اس کے والد کو معاف کردیا گیا ، تاہم بیگم نے منیر خان اور سکندر بیگم کی منگنی توڑ دی۔

بغیر پردے کی نواب

اس کے بعد منیر خان کے چھوٹے بھائی جہانگیر محمد خان نے سکندر بیگم سے منگنی کی ، کیوں کہ جہانگیر کے والد نے جہانگیر سے اپنی ولدیت کے دعوے کو ترک کرنے پر اتفاق کیا تھا۔ نو سالہ جہانگیر کو پڑھانے کے لئے ٹیوٹرز مقرر کیے گئے تھے۔ دوسری طرف ، بیگم نے بھوپال کے ممکنہ حکمران کی حیثیت سے سکندر بیگم کو تربیت دینے کے لئے ٹیوٹرز بھی مقرر کیے تھے۔

ادھر ، قدسیہ بیگم کے وفادار مشیر حکیم شہزاد مسیح کی موت ہوگئی اور جہانگیر نے بھی بغاوت شروع کردی۔ یہ وہ وقت تھا جب قدسیہ بیگم نے پردہ ترک کردیا ، کیونکہ ان کا ماننا تھا کہ پردے کے پیچھے رہ کر حکمران ہونا اندھیرے میں کام کرنے کے مترادف ہے۔

بیگم نے گھوڑسواری سیکھی ، عوامی عدالتوں کا اہتمام کرنا شروع کیا اور پردے کے پرانے تصورات کو عوامی طور پر چیلنج کیا۔ وہ صرف ایک ہیڈ سکارف پہنتی تھیں وہ بھی اس وقت جب مردوں سے ملنا ہوتا تھا ۔ ان رسومات کے خلاف اتنا کچھ کرنا ہی کافی نہیں تھا ، انہوں نے اپنی بیٹی کو پردہ چھوڑنے کا حکم دے کر اسے آگے بڑھایا۔ بیگم کا خیال تھا کہ ایک دن سکندر بھی حکمرانی کرے گی ۔

سکندر بیگم نواب بن گئیں

قدسیہ بیگم کو اب جہانگیر خان کی طرف سے ایک چیلنج ملنے لگا تھا۔ سن 1835 میں سکندر بیگم اور جہانگیر کی شادی پر انگریزوں کی رضامندی کی ضرورت تھی۔ اس وقت جہانگیر کی عمر 16 سال تھی۔ جہانگیر سے ایک معاہدہ پر دستخط کرنے کو کہا گیا جس کی روح سے جہانگیر دوسری عورت سے شادی نہیں کرے گا۔ جب جہانگیر نے کھلے عام بغاوت کی تب بھی بیگم قدسیہ حکمران تھیں۔ انگریزوں نے جہانگیر کے تخت سے متعلق دعوے کی تائید کی ، کیوں کہ وہ سمجھتے تھے کہ خواتین کو حکمرانی نہیں کرنا چاہئے۔

عقیدے کی جنگ اور برطانوی مداخلت کے بعد 1837 میں بیگم جہانگیر خان کے حق میں تخت سے دستبردار ہو گئیں ۔ لیکن تقدیرکو کچھ اور ہی منظور تھا کیونکہ چھ سال بعد جہانگیر کی بھی موت ہوگیی اور ایک بار پھر ایک خاتون 'سکندر بیگم' بھوپال کے تخت پر براجمان ہو گئیں ۔

خواتین بھی کسی سے کم نہیں ہیں

اس طرح ، ریاست پر حکمرانی کرنے والی پہلی خاتون کے طور پر قدسیہ بیگم نے 1819 سے 1837 تک حکومت کی- ان کی اٹھارہ سالہ حکمرانی نے بھوپال کی آئندہ خاتون نوابوں کے لئے راہ ہموار کی۔ پردے کے نظام ، فوجی مہارتوں ، سیاسی تدبر ، عمدہ انتظامیہ اور ریاستی انتظامیہ کی سخت دیکھ بھال نے دنیا کو یہ ثابت کردیا کہ ایک خاتون حکمران مرد حکمران سے کم نہیں ہوتی ۔