اردو زبان کا حال اور مستقبل اور ہم

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 16-01-2023
اردو زبان کا حال اور مستقبل اور ہم
اردو زبان کا حال اور مستقبل اور ہم

 

 

پروفیسر اخترالواسع

                اردو کا وطن بلاشبہ سارا ہندوستان ہے لیکن وطن میں بے وطن ہونے کا جیسا دکھ اس نے جھیلا ہے وہ خدا نہ کرے کہ کسی اور زبان کے حصے میں آئے۔ جہاں تک اردو کی ناقدری کا سوال ہے، اس میں سرکاریں اور اردو والے دونوں بڑی حد تک خود ہی ذمہ دار ہیں۔ اردو کسی بھی ہندوستانی علاقے میں پہلی اور دوسری زبان کا درجہ نہ رکھتی ہو لیکن یقینا وہ ہندوستان کی تقریباً ہر بڑی ریاست میں شاید معدودے چند کو چھوڑ کر تیسری زبان کی حیثیت سے ہر جگہ موجود رہی ہے۔

بیسویں صدی کے آخر میں تقسیمِ ملک کے المیے کی وجہ سے اور کچھ اردو سے لسانی عداوت کی بنا پر اس کے ساتھ جو ناروا سلوک رکھا گیا وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ لیکن اکیسویں صدی کا سورج طلوع ہونے کے بعد بلکہ اس سے کچھ پہلے ہی سے اردو کی ڈوبتی کشتی کو بھنور سے نکالنے کا کام بھی انہیں لوگوں نے کیا جن کو عام طور سے اردو کی اس وقت کی صورتحال کا ذمہ دار قرار دیا جا رہا تھا۔

وہ زبان جسے مسلمانوں کی زبان قرار دیا جا رہا تھا اس میں ملٹی ایڈیشن راشٹریہ سہارا( اردو)  اخبار نکالنے کا کام سہارا شری سبرتو رائے نے انجام دیا تو اردو کا چوبیس گھنٹے کا پہلا ای ٹی وی چینل شری رامو جی راؤ نے شروع کیا۔ پھر تو سرکاری ڈی ڈی اردو کے علاوہ شری سبھاش چندرا کا زی ٹی وی اردو اور شری امبانی کا ٹی وی-18 اردو اس کی جیتی جاگتی مثال ہیں۔ اسی طرح اردو صحافت اور ہندی صحافت کا کامیاب اشتراک بھی اس بیچ میں دیکھنے کو ملا۔

                اس کے باوجود بھی اردو والے اردو کے ساتھ اچھا سلوک نہ ہونے کی شکایت بڑے زور شور سے کرتے ہیں لیکن اس میں سب سے تکلیف دہ مرحلہ یہ ہوتا ہے کہ ان کا مزاج و کردار باکل وہی جو کسی شاعر نے یوں بیان کیا ہے:

ساحل کے تماشائی ہر ڈوبنے والے پر

افسوس تو کرتے ہیں امداد نہیں کرتے

                وہ خود اردو پڑھنے اور اپنے بچوں کو پڑھانے کے لیے تیار نہیں اور جب ان سے پوچھا جائے کہ وہ دوسروں کی شکایت کرنے کے بجائے اپنی بے عملی کو کیوں نہیں دیکھتے تو ان کا سیدھا سادا جواب یہ ہوتا ہے کہ اردو روزگار سے جڑی ہوئی زبان نہیں ہے لیکن وہ یہ نہیں جانتے ہیں کہ چار چیزوں کا رشتہ پیٹ سے نہیں دل سے ہونا چاہیے۔ ایک ماں، ایک ملک، ایک مذہب اور ایک مادری زبان۔

                خیر اس وقت اردو زبان کے حال اور مستقبل کی بات اس لیے تذکرہ میں آ رہی ہے کیوں کہ 20 نومبر 2022کو کلکتہ میں انجمن ترقی اردو (ہند) کی مغربی بنگال شاخ کے اجلاس میں اس کے فاضل، جواں عمر اور جواں حوصلہ جنرل سیکریٹری ڈاکٹر اطہر فاروقی نے مغربی بنگال سرکار سے یہ مطالبہ کر دیا اور اس کی مقامی شاخ کے تمام ذمہ داروں اور شرکاء اجلاس نے بھرپور تائید کی کہ مغربی بنگال کے تمام اردو میڈیم اسکولوں میں بنگلہ زبان کی تعلیم کو لازمی بنایا جائے۔

مغربی بنگال لسانی اور ثقافتی اعتبار سے ایک نہایت حساس ریاست ہے۔ بنگلہ قومیت کی تشکیل میں بنگلہ زبان نے مرکزی رول ادا کیا ہے۔ بنگال کا نشاۃِ ثانیہ بنگالی ثقافت کی وجہ سے ہی وجود میں آسکا جس میں بنگلہ زبان نے فیصلہ کُن رول ادا کیا تھا۔ اب اہلِ بنگال اپنی زبان اور ثقافت پر دنیا کی ہر چیز کو ترجیح دیتے ہیں۔

                انجمن ترقی اُردو (ہند) جو اُردو زبان کے فروغ کا سب سے پرانا، مقتدر اور محتشم ادارہ ہے۔ اس کا قیام سرسیّد نے 1882 میں اُردو ہندی تنازعے کے درمیان لسانی آگ کو بجھانے کے لیے کیا تھا اور پھر برطانوی حکومت سے اس مقصد کے لیے ہنٹرکمیشن جسے ایجوکیشن کمیشن بھی کہا جاتا ہے، بنوایا تھا۔ 1980 تک مرکزی اور صوبائی حکومتوں کا اُردو کے تعلق سے سب سے اہم ایسا مشاورتی ادارہ انجمن ترقی اُردو (ہند) ہی تھی جس نے اس نازک وقت میں بڑے سے بڑے مسائل حکومت کے ساتھ افہام و تفہیم کے ساتھ سلجھائے۔

اب انجمن کے پلیٹ فارم سے حال ہی میں بنگلہ ثقافت سے جو رشتے استوار کرنے کی بات کی گئی ہے وہ ہمارے زمانے میں اردو زبان کی تاریخ کا ایک انقلابی باب بن سکتی ہے اور بنگلہ کے ساتھ اس کے نئے رشتے اسے ہندوستان کی دیگر علاقائی زبانوں کے ساتھ تہذیب و ثقافت کے عباد سے بھی متعارف کرائیں گے۔

                قومی لسانی اقلیتی کمشنر کے منصب پر فائز رہتے ہوئے راقم الحروف نے خود بھی یہ تجربہ کیا اور ریاستی حکومتوں کے ذمہ داروں کو بھی اکثر جگہوں پر یہ کہتے پایا کہ اردو والے جو اب غالب ترین اکثریت میں مسلمان ہی رہ گئے ہیں، ریاستی زبانوں سے وہ خوشگوار، مثبت اور کارآمد رشتے استوار کرنے کو تیار نہیں ہیں جو کہ ان کے لیے ریاست میں ان کی معاشی مفاد کے لیے ناگزیر ہے اور ریاست کے ساتھ ان کے بہتر رشتوں کے لیے بھی۔ ان سطور کے لکھنے والے کو خوب یاد ہے کہ چنّئی میں تامل ناڈو کی ایک ممتاز ترین خاتون افسرِ اعلیٰ نے جو تعلیم اور لسانی امور کو دیکھ رہی تھیں، مجھ سے کہا کہ ہماری ریاست کے اردو والوں کو جو انگریزی سے پیار ہے وہ تامل سے نہیں۔

ہو سکتا ہے کہ کچھ اردو والے اس سے متفق نہ ہوں لیکن تو بھی یہ حقیقت ہے کہ اردو کا رشتہ ہر علاقائی زبان سے چاہے وہ جو بھی ہو، حریف کا نہیں حلیف کا ہونا چاہیے۔ اگر اردو مسلمانوں کی زبان بھی ہے تو انہیں اردو کے فروغ و ارتقا کے لئے ہر ممکن کوششیں کرنی چاہئیں۔ آج تک کسی سرکار نے ایسا کوئی نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا ہے جس میں آپ اپنی دکان پر اردو میں کوئی سائن بورڈ نہ لگا سکیں، اپنے گھر کے دروازے پر اردو میں اپنے نام کی تختی نہ لگا سکیں، یا پھر قبرستان میں اپنے پیاروں کے مزار پر اردو میں لوحِ مزار نہ نصب کرا سکیں۔

اپنے بچوں کو اردو میڈیم اسکولوں میں نہ سہی تو کم سے کم کسی بھی ایسے اسکول میں جہاں اردو تیسری زبان کی حیثیت سے پڑھائی جا تی ہو، انہیں ان اسکولوں میں ترجیحی طور پر داخلہ دلا کر اردو کو بحیثیت مضمون ضرور حاصل کریں۔ اپنے گھروں میں اردو کا اخبار ضرور منگائیں۔ اپنے بچوں کو اردو میں رسالے اور کتابیں تحفوں میں دینے اور دلانے کی عادت ڈالیں۔ اردو رسمِ خط کی حفاظت کو یقینی بنائیں کیوں کہ بڑا افسوس ہے کہ اب اکثر اردو کے نام پر ہونے والے مشاعروں اور ثقافتی پروگراموں کے بینر بھی ہندی میں لگائے جاتے ہیں۔

ہمیں ہندی کے بینروں سے کوئی بیر نہیں لیکن اتنا تو کہنے کی اجازت ہونی ہی چاہیے کہ اردو پروگراموں کا تشہیری مواد اور بینر اگر اردو میں نہیں ہوں گے تو پھر کس میں ہوں گے؟اردو میڈیم اسکولوں اور دیگر اردو اداروں میں اساتذہ اور غیرتدریسی عملہ اردو ضرور جانتا ہو اس کے لیے ہر ممکن کوششیں کرنی چاہئیں۔ اردو زبان میں ہر کلاس کا نصاب بچوں کو اسکول کھلتے ہی دستیاب ہونا چاہیے، اس کو بھی یقینی بنانے کی کوششیں ہونی چاہئیں۔

                اردو والوں کو ایک حقیقت کا احساس ضرورت سے زیادہ ہے اور وہ یہ کہ وہ ایک لسانی و مذہبی اقلیت سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہمیں بھی اس سے بالکل انکار نہیں، اقلیت میں ہونا کوئی جرم نہیں بلکہ اس ملک کے دستور میں اقلیتوں کو بنیادی حقوق میں غیرمعمولی استحقاق فراہم کئے گئے ہیں لیکن ان پر عمل درآمد ہو، سرکار یا سرکاریں اس میں کانٹ چھانٹ نہ کریں اس کے لیے ہمیں ہمیشہ ہوشیار رہنا چاہیے اور اپنے کسی دستوری حق کی پامالی کی کسی کو اجازت نہیں دینی چاہیے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی انتہائی ضروری بات ہے کہ اردو کا رشتہ ہمیں دوسری زبانوں سے بہتر بنانا چاہیے۔

                ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہم اگر اقلیت میں ہیں تو اکثریت کے برابر کھڑے ہونے یا اس سے بھی آگے نکلنے کے لیے کچھ اضافی اقدامات کرنے پڑیں گے ۔ ان میں سب سے پہلا یہ ہوگا کہ ہم جس ریاست میں رہتے ہیں اس ریاست کی جو سرکاری زبان ہے اس میں غیرمعمولی استعداد حاصل کریں۔ اس کے علاوہ ہندی جو مرکزی سرکاری زبان ہے اور انگریزی جو رابطے کی قومی ہی نہیں بلکہ عالمی زبان ہے، اس میں بھی مہارت حاصل کرنی چاہیے۔

اس طرح اگر ایک غیر اردو والا سہ لسانی طور پر ماہر ہونا چاہتا ہے یا کوشش کرتا ہے یا بن جاتا ہے تو ہمیں چہار لسانی ماہر فرد کے طور پر اپنے معاشی، معاشرتی اور تہذیبی مستقبل کو درخشاں بنانا چاہیے۔ یاد رکھیے جو شخص ایک زبان جانتا ہے وہ فردِ واحد کی طرح ہے اور جو شخص چار زبانیں جانتا ہے وہ مردِ کامل کی طرح ہے اور آج کی دنیا میں پوچھ فردِ واحدکی نہیں بلکہ مردِ کامل کی ہے۔ وہ شخص جو مختلف میدانوں میں مہارت رکھتا ہے اس کی قدر کی جاتی ہے۔

اردو والوں کو بھی اس حقیقت کو سمجھنا چاہیے اور اپنے بچے اور بچیوں کو آنے والے کل کے لیے اس طرح تیار کرنا چاہیے کہ دنیا یہ سمجھ لے کہ اردو والے زبانوں کو تنازعہ کا نہیں بلکہ مکالمے کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ ہمیں خوشی ہے کہ انجمن ترقی اردو (ہند) کی مغربی بنگال شاخ نے جو پہل کی ہے وہ ہر ریاست میں اردو والوں کے لیے مشعلِ راہ ثابت ہوگی اور پروفیسر صدیق الرحمن قداوئی، صدر انجمن جیسے اردو شناس دانشور اور ان کے جواں سال جنرل سیکریٹری ڈاکٹر اطہر فاروقی کی رہنمائی میں اردو کے لیے ایک بہتر مستقبل کی نئی نوید ثابت ہوگی۔

(مضمون نگار جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پروفیسر ایمریٹس (اسلامک اسٹڈیز) ہیں۔)