ہندوستاں میں دھوم ہماری زبان کی ہے

Story by  عمیر منظر | Posted by  [email protected] | Date 09-11-2025
 ہندوستاں میں دھوم ہماری زبان کی ہے
ہندوستاں میں دھوم ہماری زبان کی ہے

 



یوم اردو کے حوالے سے خصوصی تحریر

 

ڈاکٹر عمیر منظر

ایسوسی ایٹ پروفیسر

مانو لکھنؤ کیمپس

گزشتہ تقریباً تین دہائیوں سے یوم اردو منانے کا جوسلسلہ شروع ہوا تھا اب وہ نہایت اہتمام اور شان و شوکت کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ اس کا مقصد اردو زبان کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے اور اسی کے ساتھ اردو کے فروغ، بقا اور تحفظ کا نئی نسل میں شعور پیدا کرنا بھی ہے۔ آج کے دن کے حوالے سے اردو زبان کے بارے میں گفتگوکرنے کے متعدد پہلو ہیں۔واضح رہے کہ اردوزبان ایک سماجی ضرورت ہے کیونکہ اس کے بے شمار الفاظ ایسے ہیں جو ہماری زندگی میں ایک متحرک پیکر کی صورت رکھتے ہیں اسکے بغیر ہمیں کچھ ادھورا محسوس ہوتا ہے۔

لسانی سطح پر اردو زبان اپنی تمام تر خصوصیات کی وجہ سے بڑی، زندہ اور نمایاں زبانوں میں شمار کی جاتی ہے۔ہمیں یہ بات معلوم ہے کہ اردو نے فارسی، عربی، ترکی، سنسکرت، پشتو، ہندی، مراٹھی، پنجابی اور دیگر زبانوں کے بہت سے الفاظ کو اپنا لیا ہے۔اردو کی بنیاد کھڑی بولی اور پراکرتوں پر ہے جبکہ فارسی اور عربی کے اثرات نے اس کی صوتیات اور املا کو اس قدر متاثر کیا کہ اردو ایک بین الاقوامی مزاج کی حامل زبان بن گئی۔اردو میں عربی، فارسی اور سنسکرت کی بہت سی آوازیں شامل ہیں، جیسے ق، غ، خ، ژوغیرہ۔اردوکا نستعلیق رسم الخط دنیا کی دیگر زبانوں کے مقابلے میں لکھنے اور پڑھنے کے حوالے سے آسان تسلیم کیا جاتا ہے۔اس میں ایک جمالیاتی آرٹ بھی پایا جاتا ہے۔جو لوگ زبان کے سائنسی حوالوں پر نظر رکھتے ہیں انھیں انداز ہ ہے کہ اردو میں فعل، فاعل، مفعول، جمع، مذکر و مونث کے ضابطوں میں ایک سائنسی نظم و ضبط ہے۔اسی طرح جملوں کے اجزائے ترکیبی، محاورے، ضرب الامثال، اضافت اور ترکیب وغیرہ اردو کی نحوی صفات کو واضح کرتے ہیں۔اس نوع کی بہت سی اہم اردو کی لسانی خصوصیات ہیں۔ایک اہم خصوصیت یہ بھی ہے کہ دیگر زبانوں کے الفاظ کو اردو اپنے مزاج کے مطابق ڈھال لیتی ہے۔زبان کے عام اصولوں کے مطابق اردو میں جب کسی دوسری زبان سے کوئی لفظ داخل ہوتا ہے کہ تو وہ اردوکے مزاج سے ہم آہنگ ہوجاتاہے۔ اردو کے لچکداررویے کو اس زبان کی ایک بڑی خصوصیت کے طورپردیکھا جاتا ہے۔ یہی خصوصیت اسے ادبی، علمی اور تہذیبی سطح پر ایک اہم مقام عطا کرتی ہیں۔ اس کی مخلوط ساخت، معنوی کشادگی اور صوتی انفرادیت اسے عالمی زبانوں میں ممتاز بناتی ہیں۔دنیا کی اہم علمی زبانوں میں یہ ایک علمی زبان کا درجہ رکھتی ہے کیونکہ اس زبان میں بہت سی ایسی کتابیں لکھی گئی ہیں جن کا شمار عالمی سطح کی اہم کتابوں میں کیا جاتا ہے۔اسی طرح اس زبان کے بہت سے ادیب وشاعر ایسے ہیں جن کا شمار بھی عالمی سطح پر کیا جاتا ہے۔ان کی تحریروں کو ترجمے کی صورت میں دوسری زبانوں میں منتقل کیا جارہاہے اور حالیہ دنوں میں اس نوع کی بعض کوششوں کے نتیجے میں اردو کے ادیبوں کو ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔

داستان گوئی،مشاعرہ اور قوالی کو اردو کے ایک ثقافتی ورثے کی حیثیت حاصل ہے۔اردو زبان کے جمہوری کردار کی یہ ایک بڑی پہچان ہے اور اس حوالے سے اردو زبان کے چاہنے والوں کی بہت بڑی تعداد ہے۔واقعہ یہ ہے کہ اردو کو عالمی پہچان عطاکرنے، غیر اردو داں افراد کو اردو سے قریب کرنے اور اس زبان کا گرویدہ بنانے میں ان ثقافتی اداروں کا نمایاں کردار ہے۔اردو زبان اور رسم الخط نہ جاننے والے بھی میر وغالب اور فیض و فراق کو نہ صرف جانتے ہیں بلکہ ان کے اشعار بھی انھیں یاد ہیں۔اور موقع بہ موقع انھیں وہ سناتے بھی ہیں۔واقعہ یہ ہے کہ برصغیر کی تہذیب،ثقافت اور جمالیات پر اس کے گہرے اثرات رہے ہیں۔یہ ثقافتی ادارے معاشرتی ہم آہنگی کی علامت کے طور پر بھی اپنی مثال آپ ہیں۔ ان ثقافتی اداروں کے بارے میں یہ کہنا درست قرار پائے گا کہ اردو زبان اور ادب کے ارتقامیں ان کے بنیادی کردار کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ اور آج بھی سماجی میل جول اور روحانی تسکین کا اہم ذریعہ ہیں۔

داستانوں کے توسط سے اردوکا ایک خلاق ذہن ہمارے سامنے آتا ہے جس نے لوگوں کے تخئیل کو پرواز عطا کی اور اس کے توسط سے اخلاق و تہذیب اور تاریخ کے بہت سے پہلوؤں کو تمام تر ادبی جمالیات کے ساتھ منتقل کیا گیاہے۔داستان امیر حمزہ، طلسم ہوشربا اور دیگر داستانیں اردو کا غیر معمولی ثقافتی ورثہ ہیں۔ داستانوں نے خیر کو فروغ دیا ہے اور شر کو شکست سے دوچارکرنے کے اسباب پیداکیے ہیں۔سماجی اخلاقیات کے تربیتی ادارے کے طورپر بھی داستانوں کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔ہماری ذہنی بصیرت کا بہت سارا سامان اس میں پوشیدہ ہے ہمیں اس پر فخر کرنا چاہیے۔ محمود فاروقی سے لے کر ہمانشو باجپئی تک داستان گوئی کی محفلوں کا احیا کرنے والے دراصل عصر حاضر میں اسی ثقافتی ورثے کے نمائندہ کے طورپر دیکھے جاتے ہیں۔ان کو سن کر غیر اردو داں طبقہ بھی سمجھ سکتا ہے کہ داستان گوئی زبان کے اظہار کا غیر معمولی ذریعہ ہے۔اسے سماجی اقدار کا سب سے موثر ادارہ قرار دینے والوں کی کمی نہیں ہے۔ ہم نے ان افراد کے ذریعہ ایک بار پھر اپنی داستانوں پر فخر کرنا شروع کردیاہے جو قابل فخر بات ہے۔

مشاعرہ تفریحِ محض نہیں بلکہ تہذیب و ثقافت کے گہرے شعوراور سماجی ہم آہنگی کی آماجگاہ ہے۔یہ عوامی مذاق کی تہذیب اورلسانی ارتباط کی سبیل پیدا کرتاہے۔ اردو زبان کے فروغ اور اس کی توسیع میں اس کے بنیادی کردار کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ خانقاہوں سے لے کر درباروں تک اور خواص سے لے کر بازاروں تک کو اس نے تہذیبی اور ثقافتی روابط کو ایک بنیادی اساس فراہم کی ہے۔ یہ ایک ثقافتی ادارے کے طورپر کام کرتا ہے یعنی یہ مجلس کے آداب بھی سکھاتا ہے اور زبان کی لطافت کے متعدد پہلوؤں سے روشناس کراتا ہے۔ میل جول کا ایک ماحول بھی فراہم کرتا ہے کہ جہاں سماج کے مختلف طبقات ایک ساتھ بیٹھ کر اس سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔

مشاعروں سے جہاں شعری مزاج کی تربیت ہوتی ہے وہیں دیگر اصناف سخن سے دلچسپی بھی پیدا ہوتی ہے۔ نئی نسل زبان و ادب سے نہ صرف قریب ہوتی ہے بلکہ اس میں ادب فہمی اورشاعری کی پہچان و پرکھ کے ساتھ ساتھ شعری ذوق کی تربیت بھی ہوتی ہے۔اس حوالے سے مشاعرہ سننے والوں میں سماجی اور معاشرتی شعور بھی پروان چڑھتا جاتا ہے۔اس کی افادیت ہر دور میں مسلم رہی ہے۔اور آج بھی ہے۔

برصغیر کی اہم عوامی روایت کے طور پر قوالی کو مقبولیت حاصل ہے وہ بہ مشکل ہی کسی دوسری صنف کو حاصل ہوسکی۔ خانقاہوں اور صوفیا کی محفلوں سے اس کاآغاز ہوا۔ابتدا میں سماع کی محفلوں نے اس کو مقبول بنانے میں اہم کردار نبھایا جہاں حمد و منقبت قوال پڑھتے تھے اور لوگوں کے اندر روحانیت کے پیغام کو عام کرتے تھے۔دراصل اس کے توسط سے انھوں نے سماج کو اخوت و محبت کا پیغام دیا۔قوالوں نے فن کاری کے بہت سے نادر نمونے بھی قائم کیے۔فارسی، عربی، ہندی اور اردو کے الفاظ اپنی قوالیوں میں استعمال کرکے روحانی وجد کی کیفیت پیدا کرنا ان کا ایک تجربہ قرار دیا جاسکتاہے۔ قوال الفاظ کے زیر و بم اورموسیقی کو شاعری میں اس طرح ہم آہنگ کردیتے ہیں کہ بسااوقات سننے والوں پر وجد کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔ قوالی کی یہ شان آج بھی برقرار ہے۔بقول منوررانا

ہمارے جیسے کتنے سرپھروں نے جان تک دے دی

مگر اردو غزل پر آج تک ڈھولک کا قبضہ ہے

یوم اردو کے موقع پر ہمیں اس بات کا عہد کرنا چاہیے کہ ہم نہ صرف زبان بلکہ اس کے ثقافتی اداروں کی بقا اور فروغ کے لیے کام کریں گے۔واضح رہے کہ اس اداروں کے توسط سے انسانیت کی فلاح اور رواداری کا پیغام ہمیشہ سے عام کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور زبان کا عصری تقاصا بھی یہی ہے۔

مناسب معلوم ہوتا ہے کہ کچھ دیر اردو کے علمی ورثے پر بھی بات کی جائے۔اردو ہمیشہ سے ایک علمی زبان رہی ہے اور آج بھی ہے۔ہمارے بزرگوں نے مختلف مواقع پر اردو کی نصابی اور درسی کتابوں کی تیار ی کو اولیت کا درجہ دیا۔ایک زندہ زبان ہونے کی حیثیت سے یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔زبان کی توسیع و اشاعت کا یہ ایک اہم ذریعہ ہے۔قومی تعلیمی پالیسی 2020میں مادری زبان میں تعلیم کوخاص اہمیت دی گئی ہے۔اور اس کے لیے موثر تجاویز بھی پیش کی گئیں۔اس میں کہا گیا ہے کہ ”بچے اپنی گھریلوں زبان میں سب سے بہتر سیکھتے ہیں۔اور اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ اعلی معیار کی درسی کتب بشمول سائنسی مضامین ان زبانوں میں دستیاب ہوں۔“اس میں ”مادری زبان میں ابتدائی خواندگی اور تحریر پر زور دیا گیا ہے“۔آج سے تقریباً تین دہائی پہلے مولانا آزاد نیشنل اردو یونی ورسٹی کی شکل میں اس کا عملی قدم اٹھا لیا گیا تھا۔یہاں مختلف علوم مادری زبان میں سکھائے اور پڑھا ئے جارہے ہیں جوہمارے لیے فخر کی بات ہے۔واضح رہے کہ یونی ورسٹی کے مختلف پروگراموں کے لیے جو داخلہ ٹسٹ ہوتے ہیں وہ بھی اردو میں ہی ہوتے ہیں۔

یہ ذکر بھی ضروری ہے کہ ہمارے یہاں عصری اور دینی دونوں تعلیم رائج ہے۔مدارس کا عام ذریعہ تعلیم اردو ہے۔اب اگر قومی تعلیمی پالیسی کے اس نکتے پر غور کیا جائے کہ جس میں مادری زبان میں تعلیم دیے جانے پر زور دیا گیا ہے۔ تو یہ بات سمجھی جاسکتی ہے کہ دینی وعصری علوم کے درمیان جو ایک خلیج تھی مولانا آزاد نیشنل اردو یونیو رسٹی نے اسے گرا کر ایک پل تعمیر کردیا ہے اور مادری زبان میں تعلیم کے نام پر طلبہ کے لیے ایک وسیع میدان فراہم کردیا ہے۔مانوکی منفرد حیثیت اس لیے بھی ہے کہ اردو طبقہ کو مین اسٹریم میں لانے کا کام کررہی ہے جنھیں ایک خاص سیکشن تک محدود کردیا گیا ہے۔اس میں بنیادی کردار اردو زبان کا ہے۔

اس تناظر میں مانو کے سینٹر فار ٹرانسلیشن اسٹڈیز کا ذکر ناگزیر ہے۔یہ مرکز کئی سال پہلے قائم ہوا ہے اور اس وقت یہ مرکز ترجمے کے ایک بڑے پروجیکٹ پر کام کررہاہے جس میں پورے ملک کے لیے مختلف علوم کی کتابوں کے تراجم شامل ہیں جو نصابی ضرورتوں کے لیے تیار کیے گئے ہیں۔یونی ورسٹی کی یہ کوششیں اردوزبان کوجدیدتعلیمی تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے اور اس کے نصابی و علمی سرمایے کو ثروت مند بنانے کی طرف ایک اہم قدم سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔

مولانا آزاد نیشنل اردو یونی ورسٹی کا فاصلاتی طرز تعلیم بھی علمی ورثے کے فروغ کا ایک اہم ذریعہ ہے۔گھر بیٹھے طلبہ و طالبات مختلف مضامین میں اعلا تعلیم پاتے ہیں بلکہ انھیں اسٹڈی میٹریل بھی مل رہا ہے۔ پورے ملک میں تقریبا 175 اسٹڈی سینٹر قائم ہیں۔اس سال پورے ملک میں تقریباً پندرہ ہزار سے زائد طلبہ و طالبات نے داخلہ لیا ہے۔یہ انتہائی مختصر سے اعداد و شمار ہیں جس سے صورت حال کا کسی قدر اندازہ کیا جاسکتا ہے۔

صباحبو ماضی پر فخر کرنا اور اس سے واقف و آگاہ رہنا جتنا ضروری ہے وہیں آج کل کیا ہورہا ہے اور اردو کے لیے کس قدر مواقع ہیں اس سے باخبر رہنا بھی ضروری ہے۔میری اس گفتگو کو اسی تناظر میں دیکھنا چاہیے۔یہ واضح کرنا بھی ضروری ہے کہ میڈیا اور سوشل میڈیا کے توسط سے فی زمانہ اردو اور اردو والوں کی پذیرائی کے بے شمار مواقع ہیں۔ہمیں چیزوں کو دیکھنے،ان سے واقف ہونے اور اپنے لیے کس طرح انھیں سود مند بناناجاسکتا ہے اس طورسے بھی دیکھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔ یہ دور جس قدر مایوسی اور انتشار پیداکررہا ہے وہیں مواقع بھی پیدا کررہا ہے۔ میڈیا کا میدان تو خالص زبان اور اس کی نزاکتوں سے واقفیت رکھنے والوں کے لیے بڑے مواقع لیے کھڑا ہے۔ایسے میں نئی نسل اپنی مادری زبان کے ساتھ معاصر زبان میں خود کو صیقل کریں، مثبت اور تعمیری سوچ رکھیں اور حوصلہ کے ساتھ آگے بڑھیں تو نئی بلندیاں ان کے استقبال کے لیے کھڑی ملیں گی۔حوصلہ مند قوم کے افراد حالات کے جبر میں اپنی صلاحیت سے اپنے لیے جہان نو پیدا کرتی ہے۔

پُردم ہے اگر تو تو نہیں خطرۂ افتاد