نئی تعلیمی پالیسی اورمولانا سید ابو الحسن علی حسنی ندویؒ کا نظریہ نصاب تعلیم

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 31-08-2021
نئی تعلیمی پالیسی پر بحث
نئی تعلیمی پالیسی پر بحث

 

 

ڈاکٹر عبید الرحمن ندوی، استاد دار العلوم ندوۃ العلماء، لکھنؤ

نئی تعلیمی پالیسی وزارت برائے فروغ وسائل انسانی، حکومت ہند جس کا نام بدل کر رکھاگیاہے کی جانب سے پدم وبھوشن ڈاکٹر کستوری رنجن کی سربراہی میں آٹھ ماہرین تعلیم ممبران پر مشتمل ایک کمیٹی کے ذریعہ تیارکی گئی ہے۔ یہ مسودہ اصلًا انگریزی زبان میں ۷۷۴ صفحات اور چار ابواب پر مشتمل ہے۔

awazurdu

اس مسودہ کو تیار کرنے کا عمل ۷۱۰۲ء؁ میں شروع کیاگیا اور اس کو دو سال کے عرصہ میں پوراکیاگیا اور اس سلسلہ میں ملک کے مختلف تعلیمی سرکاری وغیر سرکاری اداروں اور ا ن کے سربراہوں یا ذمہ داروں سے تبادلہ خیال کیاگیا۔ پالیسی نہایت باریک بینی، دور اندیشی اور بصیرت کے ساتھ تیار کی گئی ہے جو تعلیم کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتے ہوئے تہذیب، ثقافت اور تعلیم کے فروغ کے لئے بہتر امکانات کی تلاش پر بظاہر مبنی نظرآتی ہے۔ اس سے قبل ۶۸۹۱ء؁ میں قومی تعلیمی پالیسی تیار کی گئی اور ۲۹۹۱ء؁ میں اس میں ترمیم کی گئی۔ ۹۱۰۲ء؁ کی نئی تعلیمی پالیسی میں صرف ترمیم ہی نہیں کی گئی بلکہ یہ ایک باضابطہ نئی تعلیمی پالیسی کی شکل میں پیش کی گئی ہے۔

awazurdu

سابقہ قومی تعلیمی پالیسی ۸۶۹۱ء (10+2) کی میعاد تعلیم

اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نئی تعلیمی پالیسی کے تحت کسی بھی بچے کی ابتدائی تعلیم تین سال کی عمر سے شروع ہوکر مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے اٹھارہ سال کی عمر تک ۲۱ویں تک کی تعلیم مکمل ہوجائے گی۔اس بات میں ای سی سی ای یعنی ارلی چائلڈ ہوڈ کیئر پر بہت زور دیاگیاہے۔ اسی لئے اب بجائے 6سال کے بچہ کو تین سال ہی کی عمر میں اسکول میں داخل کیاجائے گا۔ تاکہ بچے اسکول کے ماحول میں اساتذہ کی نگرانی میں کھیل کھیل میں سیکھیں اور اسکول جانے سے نہ گھبرائیں جیسا کہ گزشتہ تجربات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ بچے پڑھائی کی طرف راغب نہیں ہوتے تھے۔ اس لئے کہ اسکول میں اس عمر میں ان کے لئے کھیل کود کے مواقع فراہم نہیں کئے جاتے تھے۔

 نیورو سائنس کے مطابق بچہ کا مجموعی طورپر ۵۸%ذہن ۳سال سے ۶سال کی عمر تک نشوونما پاتاہے اور زیادہ سے زیادہ اخذ کرنے کی صلاحیت پیداہوجاتی ہے۔ اس بات کی بھی یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ ۵۲۰۲ء؁ تک گریڈ ۵ اوراس سے آگے ہربچہ بنیادی خواندگی اور ہندسوں کی پہچان فاونڈیشن لٹریسی اینڈ نیومیریسی کرلے گا۔ بنیادی خواندگی اور ہندسوں کی پہچان کے مشن کو جلد از جلد قومی مشن کے طور پر لایا جائے گا۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے طلبہ کو اپنے اسکول کے ساتھ ساتھ اساتذہ، والدین اور معاشرہ کا بھی تعاون حاصل ہو۔ بلاشبہ یہی فاونڈیشن لٹریسی ہی وہ بنیاد ہے جس پر نئی تعلیمی پالیسی کا ڈھانچہ قائم ہے۔ اس کو اگر نظرانداز کیاگیا تو مذکورہ پالیسی شرمندہئ تعبیر نہ ہوسکے گی۔

نئی تعلیمی پالیسی میں محلِ نظر اور غور طلب بات یہ ہے کہ اس میں متعدد بار قدیم ہندوستانی ثقافت کے فروغ اور اس کی ترویج کے بارے میں کہاگیاہے۔ دراصل یہ پرانی ہندو تہذیب وتمدن کے دوسرے مظاہر ہیں۔ جیسے ناچ، گانا، باجا، سوریہ نمسکار، وندے ماترم وغیرہ۔ اگر اس کو سب کے لئے نافذ کیاجائے تو یہ ملک کے جمہوری اور سیکولر اقدار کے منافی ہوگا۔ اور پھر وہی بات پیش آئے گی جو حضرت مولانا سید ابو الحسن علی حسنی ندویؒ کے دور میں پیش آئی تھی یعنی مسلمان اپنے بچوں کو سرکاری اسکولوں سے واپس لینے پر مجبور ہوں گے۔ اس وقت تو صرف یوپی کا مسئلہ تھا لیکن یہ نئی تعلیمی پالیسی پورے ملک کے لئے ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تعلیم کا تعلق صرف پڑھائی سے نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق تربیتی، اخلاقی، سماجی، عقیدہ کی اصلاح جیسے تمام اہم امور سے ہے۔ آپ یہ سن کر یقینا تعجب کریں گے کہ یہود ایک بہت اعلیٰ تعلیم یافتہ قوم ہے اوراس کی چہاردانگ عالم میں دھوم مچی ہوئی ہے۔ اس کے اعلیٰ تعلیم کا اصل منشا یہودی عقائد کو غذا پہنچانا ہے اور یہودی عقائد واصول کو پوری دنیا میں فروغ دیناہے۔

’’نظام تعلیم حال کو ماضی سے اور پھر ان دونوں کو مستقبل سے مربوط کرنے کا مؤثر اور پائیدار ذریعہ ہے، اور اس کا اصل مقصد ان عقائد او رحقائق پر اس نسل کے عقیدے اور رابطہ کو نہ صرف مضبوط کرنا ہے، بلکہ ان کے لئے علمی بنیادیں اور دلائل فراہم کرنا اور ان کو صالح اور افضل ثابت کرناہے، جن سے اس ملت کا قوام اٹھایاگیاہے، اور اس کو ان کا علمبردار بنایاگیاہے، یا اس کو وہ بہرحال وہ عزیز ہیں، اور جو نظام تعلیم اس مقصد کی نہ صرف یہ کہ تکمیل نہیں کرتا بلکہ اس کو نقصان پہونچاتاہے(اور اس سے بھی زیادہ سنگین صورت یہ ہے کہ ان کے خلاف باغی بناتاہے) وہ نظام تعلیم اس ملت ونسل کا سب سے بڑا دشمن، اس کی متاع عزیز کا رہزن، اور سیاسی فتوحات اور غلبے سے بھی زیادہ اس ملت کے حق میں سَمِّ قاتل ہے۔ میں اس موضوع پر مختلف اوقات میں تحریری وتقریری طورپر اظہار خیال کرتارہا،میرے نزدیک ممالک اسلامیہ میں سیاسی وفوجی انقلابات، حکومتوں اور عوام کے درمیان وسیع خلیج اور ان میں عدم استقرار کا بڑا سبب یہی ہے کہ ملت کے عقائد، جذبات، احساسات اور ضروریات اور ہیں، اور ان حکومتوں کاباہر سے درآمد کیاہوا نظام تعلیم نہ صرف یہ کہ ان عقائد وجذبات سے کوئی دلچسپی نہیں رکھتا، بلکہ ان کی بیخ کنی کرنا چاہتاہے، اور پھر اس ملبہ پر ایک نئی عمارت تعمیر کرنا چاہتاہے، اسی طرح مسلم ممالک کی کیفیت اس سوار کی طرح ہوگئی ہے، جس میں دو مخالف سمتوں میں گھوڑے جوت دئیے گئے ہیں، یا انجن فِٹ کردئیے گئے ہیں۔

- میں نے اپنے ان خیالات کا اظہار بڑی صفائی اور طاقت کے ساتھ اپنے اس خطبہ میں کیاجو میں نے سعودی وزیر تعلیم معالی الشیخ حسن عبد اللہ آل الشیخ کی دعوت پر ۲۲/شعبان ۸۸۳۱ھ (۳۱/نومبر ۸۶۹۱؁) کو ریاض یونیورسٹی کے وسیع ہال میں دیاتھا، اور جس میں میں نے مغربی ماہرین تعلیم کے اقوال سے ثابت کیاتھا کہ نظام تعلیم اس تیار کردہ سامان، لباس اور سہولتوں کی طرح نہیں ہے، جو کسی ملک سے برآمد کی جاتی ہیں، اور جب کبھی ایساہوتاہے تو وہ قوم اپنے پورے قدیم ورثہ اور اپنی ملّی تشخصات سے محروم ہوجاتی ہے، یا سخت ذہنی کشمکش میں مبتلا ہوتی ہے، پھر میں نے عربوں کے احساسات اور ماحول کو سامنے رکھتے ہوئے بتایاکہ اسرائیل میں دینی تعلیم اور اپنی ملّی تشخصات کی حفاظت کا کس قدر اہتمام ہے، اور وہ اس بارے میں کتنا غیور اور ذکی الحس واقع ہواہے، میں نے”اسرائیل میں اعلیٰ تعلیم“ کے ایک مضمون سے (جو ایک تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ میں آیاتھا) ایک اقتباس پڑھ کر سنایا کہ اسرائیل میں اعلیٰ تعلیم کا سب سے بڑا مقصد یہودی عقائد کو غذا پہونچانا اور اس کے نشو ونما اور ارتقاء کے لئے کوشش کرنا اور نئی نسل کو عمر بھر کا وفادار رہنا سکھاناہے، پھر میں نے ثابت کیا کہ کثیر التعداد جامعات کا قیام اور اعلیٰ تعلیم مرض کی دوانہیں ہے، وہ کبھی اعلیٰ تعلیم یافتہ انسان کو اخلاقی پستی اور نفس پرستی سے اور اعلیٰ تعلیم یافتہ قوموں کو قوم پرستی، نسل پرستی اور عالمگیر جنگوں سے روک نہیں سکی، پھر میں نے اخیر میں صفائی کے ساتھ کہاکہ یاد رکھنا چاہئے کہ جزیرۃ العرب کی یہ سرزمین اور یہ تمدن وترقی اور اس سرزمین پر قائم ہونے والی حکومتیں بعثت محمدیؐ کا صدقہ اور اس کی دین ہے، اور اس سرزمین پر اسلام کو ابدی طورپر مالکانہ اور قائدانہ حقوق واختیارات حاصل ہیں، اوریہ اپنے پورے طول وعرض کے ساتھ اس کا حرم اور اس کا قلعہ ہے، اس لئے یہاں کسی کو باہر سے درآمد کئے ہوئے فلسفوں کی تبلیغ یا ترسیخ کی اجازت نہیں دی جاسکتی، اور ان بنیادوں پر تیشہ چلانے کی جو صحابہ کرامؓ وداعیان ومجاہدین اسلام نے تعمیر کیں، جس ”دانشور“”مُعلّم“ ”مفکّر“ اور مصنف کو اس سے اتفاق نہ ہو وہ اس سرزمین کو خیرباد کہے، اس کے لئے اپنے خیالات کی اشاعت کے لئے پوری دنیا پڑی ہے، یہاں اس کو اس تخریبی اور انتشار انگیز عمل کی اجازت نہیں دی جاسکتی،

کہ بقول اقبال: ۔

نہیں وجود حدود و ثغور سے اس کا

محمدؐ عربی سے ہے عَالم عربی

(کاروان زندگی جلد دوم از مولانا سید ابو الحسن علی حسنی ندوی، صفحہ ۹۳-۱۴)

اپنی کتاب پاجا سراغِ زندگی کے صفحہ نمبر ۸۶۱ پربھی مولاناسید ابوالحسن علی حسنی ندویؒ رقمطراز ہیں: ”میں آپ سے ایک بات اور بھی کہہ دوں کہ میری زبان سے آپ اس کو سننے کے بالکل متوقع نہیں ہوں گے، آپ کو معلوم ہے کہ ہماری درسگاہ ندوۃ العلماء کی بنیاد ہی اصلاح نصاب پر ہے، حضرت مولانا محمد علی صاحب مونگیری رحمۃ اللہ علیہ جیسا قدیم نظامِ تعلیم کا ساختہ پرداختہ اور اس کا بہترین نمونہ، وہ اس کا داعی، اور ہم بھی اس کے داعی، اورمولانا منت اللہ صاحب بھی اس کے موید-ل

لیکن میں آپ سے کہتاہوں کہ زیادہ مسئلہ نصاب کا بھی نہیں، زیادہ مسئلہ محنت کاہے، اور اساتذہ کے پڑھانے کا ہے، قدیم نصاب سے وہ لوگ تیار ہوئے جو آج جدید نصاب سے تیار نہیں ہوتے ہیں،کیابات ہے،حالانکہ یقینی بات ہے کہ قدیم نصاب سے جدید نصاب کی بعض چیزیں یقینا بہتر ہیں، مثال کے طورپر جس زمانہ میں ”نفحۃ الیمن“ اور ”مقامات حریری“ پڑھائی جاتی تھی، اور نثر کی کوئی ڈھنگ کی کتاب نہ تھی، جس سے زبان وادب کا صحیح ذوق اور اظہار خیال کی صلاحیت پیداہو، اس وقت تو ایسے لوگ پیداہوگئے، جنہوں نے بڑے بڑے کارنامے انجام دئیے، علامہ زبیدی پیداہوئے، مولانا غلام علی آزاد بلگرامی پیداہوئے، شیخ محسن بن یحیٰی ترہتی پیداہوئے، اور نواب صدیق حسن خاں پیداہوئے اور مولانا صدر الدین آرزو پیداہوئے، اور اب جب کہ نثر کی اچھی اچھی کتابیں پڑھائی جارہی ہیں، اور اس میں عربی زبان کے بہترین نمونے جمع کردئیے گئے ہیں، آج ایسے لوگ نہیں پیداہورہے ہیں، اگر نصاب اس کا ضامن ہوتا تو اب یہ پیدا ہونا چاہئے، اور ہمیں لوگوں کو دیکھ لیجئے، مولانا مسعود عالم صاحب ندوی ہمارے رفیق تھے، اور ہمارے بڑے دوستوں میں تھے، انہوں نے عربی لکھنے میں بڑا کمال پیداکیا، اور انہوں نے پڑھا کیاتھا یہی حریری وغیرہ پڑھی تھی، میرے زمانے میں بھی ”مختارات“ وغیرہ نہیں لکھی گئی تھی، اپنی طالب علمی کے زمانے میں میں نے بھی حریری پڑھی اور دوسری کتابیں پڑھیں، تو اس میں بہت کچھ انحصار اساتذہ کی محنت اور ذوق آفرینی اور طلبہ کی محنت اورجدوجہد پرہے، نصاب معاون ہے، میں اب بھی نصاب کے تغیر کا داعی ہوں، لیکن تنہا اس پر انحصار نہیں“۔