مسلمان اور ہندوستان کا موجودہ منظر نامہ

Story by  پروفیسراختر الواسیع | Posted by  Shah Imran Hasan | 1 Years ago
 مسلمان اور ہندوستان کا موجودہ منظر نامہ
مسلمان اور ہندوستان کا موجودہ منظر نامہ

 


پروفیسر اخترالواسع

گزشتہ چند دنوں میں ایسا لگ رہا ہے جیسے کہ مسلمان گہری آزمائش سے دو چار ہیں۔ مدارس و مکاتیب کا سروے ہو یا حجاب کو لے کر سپریم کورٹ میں بحث یا پھر مسجد و مندر کے جھگڑے اور یا پھر سرِعام نماز کی ادائیگی کو لے کر فتنہ و فساد کا ماحول پیدا کرنا۔

مدارس و مکاتیب کے سروے پر اگرچہ ہم پہلے بھی اپنا موقف واضح کر چکے ہیں اور آج پھر اس بات کو دوہرانا چاہتے ہیں کہ ہمیں سرکار کی نیتی سے اختلاف نہ ہو لیکن نیت پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا کیوں کہ وہ مدارس جو آپ سے کوئی مدد نہیں لیتے ہیں، ان سے کسی طرح کی جواب دہی طلب کرنا کہاں کا انصاف ہے؟ ہم نے پہلے بھی کہا ہے اور پھر کہتے ہیں کہ سرکار کی بے توجہی اور لاپرواہی کی وجہ سے ہمارے بوریا نشین لیکن اولوالعزم اکابرین نے اپنی کمیونٹی کے بچوں میں خواندگی پیدا کرنے کے لئے تمام غربت و افلاس کے ہوتے ہوئے بھی مدارس و مکاتیب قائم کئے اور یہاں ایک بات واضح رہنی چاہیے کہ مدرسوں کا قیام اور وہاں کی تعلیم کا بنیادی مقصد مسلمانوں کی مذہبی ضروریات کی کفالت کرنا ہے۔ امام، مؤذن، قاضی، مفتی، مفسر، محدث، فقیہ اور متکلم تیار اور فراہم کرنا ان کا فریضہ رہا ہے۔

اب مدرسے کے جو فارغین جدید تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں ان کے لئے جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، جامعہ ہمدرد نئی دہلی، مدرسہ عالیہ یونیورسٹی کولکاتا، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد اور انتہا یہ کہ جواہر لال نہرو یونیورسٹی نئی دہلی تک نے اپنے دروازے کھول رکھے ہیں اور اگر سرکار کو اس پر کوئی شبہ ہے تو ان یونیورسٹیوں میں فاضلینِ مدرسہ کا سروے کرانا چاہیے۔ حضرت مولانا ارشد مدنی، حضرت مولانا محمود مدنی، بیرسٹر اسدالدین اویسی صاحب، ملّی کونسل کے بانی جنرل سکریٹری ڈاکٹر منظور عالم صاحب، مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب اور اسی طرح بہت سے مسلم زعماء نے مدارس کے سروے کو لے کر سرکار کے اعلان، نیت اور طریقہ کار پر تنقیدیں کی ہیں اور بجا طور پر یہ سوال اٹھایا ہے کہ سروے صرف مدرسوں کا کیوں ہو رہا ہے دوسرے تعلیمی اداروں کا کیوں نہیں؟

سپریم کورٹ میں حجاب کو لے کر تادمِ تحریر بحث جاری ہے۔ سوال یہ ہے کہ مسلمان لڑکیاں اسکول اور کالج یونیفارم کو لے کر اعتراض نہیں کر رہی ہیں، وہ صرف اسکارف یا حجاب کے استعمال کا مطالبہ کر رہی ہیں جو کہ قرآن کی سورۂ نور کے مطابق ہر مسلمان خاتون کے لئے لازم کر دیا گیا ہے اور اس طرح یہ ان کے عقیدے کا حصہ ہے۔ اور کس کا کیا عقیدہ ہے؟ ایک جمہوری ملک میں اس کو اس کا فیصلہ کرنے کا پورا اختیار ہے۔ اس میں کسی کو غیر ضروری مداخلت کا حق نہیں دیا جا سکتا۔ افسوس تو یہ ہے کہ حقائق سے زیادہ جذباتیت اور اپنے انتہا پسندانہ طرزِ فکروعمل سے ایک اقلیت کو خوفزدہ کرنا مقصود ہے اور بیٹیاں بچاؤ اور بیٹیاں پڑھاؤ کے نعرے کی نفی مقصود ہے۔ کچھ لوگوں کو شاید اس بات کی تکلیف ہے کہ مسلمان بچیاں اتنی بڑی تعداد میں ذوق و شوق کے ساتھ نہ صرف تعلیم کے لئے آگے آ رہی ہیں بلکہ زندگی کے ہر میدان میں ملک و ملت کے لیے فخر کا باعث بن رہی ہیں۔

اسی طرح لگتا ہے کہ ہندوستان بھر میں اکثر مساجد اور عیدگاہیں مندروں کو منہدم کرکے تعمیر کی گئی ہیں اور اس لئے ان کے خلاف عدالتوں میں پٹیشن ڈالے جا رہے ہیں اور اس کی وجہ سے ملک بھر میں ایک ہیجانی فضا پیدا ہو رہی ہے جو کہ ملک کی سماجی ہم آہنگی اور معاشی ترقی دونوں کے لئے نقصان دہ ہے۔ ہمیں یاد ہے کہ آر ایس ایس کے سربراہ شری موہن بھاگوت نے کچھ دنوں پہلے کہا تھا کہ مخصوص حالات و وجوہات کی بِنا پر سنگھ پریوار بابری مسجد کے تنازعہ میں ایک فریق کی حیثیت سے شامل ہوا تھا لیکن اب ایسے کسی قضیہ میں ہمارا حصہ دار بننے کا سوال نہیں اٹھتا۔ انہوں نے اسی موقعے پر یہ بھی کہا تھا کہ یہ ہر جگہ کیا شیولنگ تلاش کرتے پھر رہے ہو؟

سَنگھ کے سربراہ کے اس قدر واضح اور واشگاف انداز سے سب کچھ کہہ دینے کے باوجود ایسا لگتا ہے کہ کسی پر کوئی اثر نہیں ہوا ہے۔ سب سے زیادہ تعجب اور افسوس کی بات مرکزی حکومت کے ذمہ داروں کی خاموشی کی ہے۔ 1991 کے عبادت گاہوں کے تحفظ کے قانون کی جس طرح نفی کی جا رہی ہے اس سے آنے والے دنوں میں جو صورتحال پیدا ہوسکتی ہے وہ اس ملک کی مذہبی رواداری، جمہوری عمل کی پاسداری اور پارلیمانی نظام کی ناقدری کا سبب بنے گی اور اگر خدا نخواستہ ایسا ہوتا ہے تو یہ کسی کے حق میں اچھا نہیں ہوگا۔

 آج سے کوئی ایک صدی سے زیادہ پہلے اکبر الہ آبادی نے کہا تھا کہ:

رقیبوں نے رپٹ لکھوائی ہے جا جا کے تھانے میں

کہ اکبرؔ نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں

  اب تک اکبرؔ کے اس شعر کو تفنن طبع کا اظہار سمجھا جاتا تھا لیکن کچھ دنوں سے یہ شعر جگہ جگہ حقیقتِ حال کا مظہر بنتا جا رہا ہے۔ اگر ایک طرف کسی شاپنگ مال، ریلوے اسٹیشن، بس اسٹینڈ یا سڑک کے کسی کونے میں نماز کے وقت نکلنے اور قضا ہو جانے کے ڈر کے مارے کچھ لوگ اپنے اس مذہبی فرضِ عین کو ادا کر لیتے ہیں تو فوراً بجرنگ دل اور وی۔ ایچ۔ پی۔ اور ان جیسی تنظیموں کے لوگ اسے موضوع بنا کر ایک سماجی فساد پیدا کر دیتے ہیں اور افسوس یہ ہے کہ نظم و نسق کو نافذ کرنے والی مقامی ایجنسیاں بھی ان کی بھرپور مدد کرتی ہیں۔

ایک ایسے ملک میں جہاں کی پہچان ہی مذہبی رنگا رنگی سے ہوتی ہو، جہاں ہوائی اڈّوں پر بھی عبادتوں کے لئے گوشے فراہم کئے جاتے ہوں، وہاں ایسی کسی صورتحال کو پیدا کئے بغیر کہ جب عام زندگی اس سے متاثر ہوتی ہو، جب لوگوں کے آمد و رفت میں کوئی رکاوٹ پیش آتی ہو، نماز کی ادائیگی کس طرح سے پریشانی کا سبب ہو سکتی ہے؟ اور آزادی کے 75 برسوں میں اگر پریشانی کا سبب 70 سال سے زیادہ عرصے تک نہیں ہوا تو آج اچانک یہ سب کچھ کیوں آنکھوں میں کھٹک رہا ہے اور ایک مخصوص سوچ کے ماننے والے اس پر مرنے مارنے کو کیوں تیار ہوئے جا رہے ہیں اور اکثر حکومتیں بھی ان کا ہی ساتھ دیتی نظر آ رہی ہیں۔

  اس ساری صورت حال میں ہمارا مسلمانوں کو یہی مشورہ ہوگا کہ وہ صبر و تحمل کا مظاہرہ کریں۔ اللہ رب العزت سے مدد چاہیں کہ وہ ہندوستان جنت نشان کو ہر طرح کے عناد و فساد اور تعصب و نفرت سے محفوظ رکھے۔ ساتھ ہی ہم مرکزی اور ریاستی حکومتوں سے بھی یہ استدعا کریں گے کہ وہ مسلمانوں سے ایک بامعنی اور ایماندارانہ مکالمے کا آغاز کریں کیوں کہ کسی بھی سماجی گروہ کا اندر ہی اندر گھٹتے رہنا اور خوف کا شکار ہونا نہ اس طبقے کے لئے اچھا ہے اور نہ ملک کے لیے۔ اگر ملک کو سچ مچ آگے بڑھنا ہے اور جس طرح اس نے اپنی خارجہ پالیسی میں امتیاز حاصل کیا ہے اسی طرح داخلی سطح پر بھی اسے سب کے ساتھ یکساں سلوک اپنا کر ایسا ماحول پیدا کرنا چاہیے کہ ہر ہندوستانی ایک بار پھر یہ کہہ اٹھے کہ:

ہے رنگِ لالہ و گل نسریں جدا جدا

ہر رنگ میں بہار کا اثبات چاہیے

(مضمون نگار جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پروفیسر ایمریٹس (اسلامک اسٹڈیز) ہیں۔)