تحریک آزادی پر ان مٹ نقوش چھوڑنے والے مولانا حسرت موہانی

Story by  عمیر منظر | Posted by  [email protected] | Date 18-05-2025
تحریک آزادی پر ان مٹ نقوش چھوڑنے والے مولانا حسرت موہانی
تحریک آزادی پر ان مٹ نقوش چھوڑنے والے مولانا حسرت موہانی

 



                                                                                                               ڈاکٹر عمیر منظر

                                                                       شعبہ اردو

                                              مولانا آزاد نیشنل اردو یونی ورسٹی لکھنؤ کیمپس۔لکھنؤ

حسرت موہانی ممتاز مجاہد آزادی،بے باک صحافی اور ایک بے مثال شاعرو ادیب تھے۔ان کی شخصیت کے برگ و بار لانے میں علی گڑھ کا اہم حصہ ہے۔ حسرت موہانی کی پہلے پہل وضع قطع اور لباس و مزاج کو دیکھ کر علی گڑھ والوں نے ”خالہ جان“کی پھبتی کسی تھی۔وہ علی گڑھ حسرت اس انداز میں پہنچے تھے کہ ان کے ایک ہاتھ میں پاندان بھی تھا۔مگر حسرت بہت جلد اپنی سرگرمیوں سے طالب علموں میں نہ صرف مقبول ہوگئے بلکہ وہ خالہ جان سے ”مولانا“بن گئے اور پھر اسی نام سے جانے گئے۔حسرت نے علی گڑھ کی علمی وادبی زندگی سے نہ صرف فیض اٹھایا بلکہ وہاں کی ثقافتی سرگرمیوں کاایک اہم بن گئے۔انھوں نے شاعری کے ذوق کو ابھارا۔یہی وہ زمانہ ہے جب علی گڑھ میں سجاد حیدر یلدرم اور ”علی گڑھ منتھلی‘’والے چودھری خوشی محمد بھی تھے۔حسرت کی طباعی اور ذہانت کو ان لوگوں نے بہت پہلے پہچان لیا تھا۔کالج کی مختلف سرگرمیوں سے لے کر یونین کی سیاست میں بھی حسرت کی دلچسپی بڑھتی جارہی تھی یہاں تک کہ انتخاب میں آزاد امید وار ہوگئے۔علی گڑھ سے فراغت کے بعد وہ دنیا وی عزت اور آرام و آسائش کے دروازے اپنے لیے کھول سکتے تھے مگر ان کے مزاج میں یہ تھانہیں انھوں نے اپنی زندگی کو ہندستان کی آزادی کے عظیم مقصد کے لیے قربان کردیا۔وہ مختلف آزمائشوں سے گذرے مگر ہر حال میں ثابت قدم رہے۔وہ آہنی عزم کے مالک تھے۔بڑی سے بڑی آزمائش بھی انھیں جھکا نہیں سکی۔

حسرت بڑی دلچسپ شخصیت کے مالک تھے جس طرح ان کا شمار اہم سیاسی رہنماؤں میں کیا جاتا تھا اسی طرح ترقی پسند تحریک میں بھی ان کو غیر معمولی اہمیت حاصل تھی۔حسرت کے سوانح نگاروں کا عام خیال ہے کہ وہ مخالف رائے پیش کرکے لطف اندوز ہوتے تھے۔کہا جاتاہے کہ جب تک وہ کانگریس میں رہے مہاتما گاندھی کی مخالفت کرتے رہے۔مسلم لیگ میں جب آئے تو جناح کا ناطقہ بند کیے رکھا۔دستور ساز اسمبلی کے رکن ہوئے تو وہاں بھی وہ اسی روش پر گامزن رہے۔ عام طورپروہ کسی ترمیم یا آرٹیکل کے خلاف ہی بولتے تھے۔ان کے خلوص اور ایمان داری سے کسی کو انکار نہیں تھا مگر یہ عجیب بات ہے کہ ان مواقع پر اکثر ان کا رویہ منفی ہی رہتا۔ان کی دلچسپ شخصیت کا یہ بھی ایک حصہ تھا کہ وہ اپنی رائے کو نہایت پرقوت انداز میں پیش کرتے تھے۔اور جسے درست سمجھتے اس کے اظہار میں کبھی ہچکچاہٹ سے کام نہیں لیا۔ جب تقریر کرتے تو کبھی یہ نہیں دیکھتے کہ کون سن رہا ہے،کون ہنس رہا ہے۔ تصنع یا تکلف کبھی ان کی شخصیت کا حصہ نہیں رہا۔مولانا آزاد جیسے اہم اور سرکردہ سیاسی رہنماؤں کی رائے سے بھی انھوں نے اختلاف کیا اور خوب کیا۔ آزادی کے بعد مولانا ابوالکلام آزاد کا خیال تھا کہ مسلمانان ہند اگر کسی ایک سیاسی پارٹی سے وابستہ ہوجائیں تو یہ ان کے وزن و وقار کے لیے مناسب رہے گا۔وہ کانگریس کے حق میں تھے۔انھوں نے کوشش اور تیاری کی یہاں تک کہ لکھنؤ میں ایک جلسہ کا اہتمام کیا۔مولانا آزاد اور حسرت موہانی دونوں کے عمدہ تعلقات سے کس کو انکار ہوسکتا ہے۔مولانا آزاد نے پریشانی کے دنوں میں حسرت کا خاص خیال رکھا تھا۔لیکن جب دسمبر 1947میں لکھنو میں مسلم رہنماؤں کا جلسہ ہوا تو حسرت نے مولانا آزاد کی رائے سے اختلاف کیا۔اس اہم واقعہ کو حسرت نے اپنی ڈائری میں بھی لکھا۔وہ لکھتے ہیں

...دوران گفتگو میں چلتے چلتے میں نے ایک فقرہ ابو الکلام کے متعلق چست کردیا جس سے ان کی ساری کارستانیوں پر پانی پھر گیااور جس سے وہ انتہا درجہ بھنائے۔میں نے کہا کہ 1857میں برٹش گورنمنٹ کی بدگیمانیاں رفع کرنے کی غرض سے جس طرح سرسید نے مسلمانوں کو صرف تعلیمی اور سماجی امور پر زور دینے اور سیاسی وفاداری برطانیہ کی تلقین کی تھی بالکل اسی طرح 1947میں آپ کانگریس کے ساتھ مسلمانوں کو بلا شرط وفاداری سکھاتے ہیں اور اسلامی اداروں کو سماجی امور کے لیے محدود کردینے کے درپے ہیں۔لاحول ولا قوۃ الا باللہ۔

حسرت بہت نیک اور مذہبی آدمی تھے۔وہ ہر طرح کی بناوٹ سے پاک تھے۔ان کا صوفیانہ مزاج ہی ان کی پہچان تھا۔نماز و روزہ کے پابند تھے۔ان خوبیوں کے ساتھ ساتھ وہ ترقی پسند ادبی تحریک سے بھی سرگرم رشتہ تھا۔پہلی کل ہند کانفرنس کے آخری اجلاس میں حسرت موہانی نے بھی تقریر کی تھی۔یہاں ان کی شخصیت کے جس پہلو پر روشنی ڈالی ہے وہ حیدر آباد کی کانفرس سے متعلق ہے جو اکتوبر 1945میں منعقد ہوئی تھی۔ہندستان بھر کے سربرآوردہ ادیب جمع تھے۔اس کانفرنس کا اہم واقعہ فحاشی کے خلاف قراردادسے ہے۔ڈاکٹر عبدالعلیم نے قرار پیش کی اور کہاکہ ”ادب میں اس وقت فحاشی کے جو رجحانات پروان چڑھ رہے ہیں ان کا ترقی پسند تحریک اورترقی پسند ادب کے نظریے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ترقی پسند ادیب فحاشی کے خلاف ہیں۔“اس کے جواب میں حسرت موہانی کھڑے ہوئے اور اور سجاد ظہیر کے بقول:

مولانا حسرت موہانی نے یہ تجویز پیش کی کہ اس جملے کے آگے یہ جملہ بڑھا دیا جائے ”لیکن وہ لطیف ہوسناکی کے اظہار میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے۔مولانا کی اس ترمیم پر سارے حاضرین ہنس پڑے لیکن مولا نا پر استہزا کا کوئی اثر نہیں ہوااور وہ پوری متانت اور سنجیدگی سے اپنی ترمیم منظور کروانے کے لیے تقریرکرنے لگے۔ان کا کہنا یہ تھا کہ فحاشی کی تعریف بہت مشکل ہے۔ہر شخص اس کے اپنے ہی مطلب نکالتا ہے۔(روشنائی ص 369)

قاضی عبدالغفار اور ڈ اکٹر عبدالعلیم نے کوشش کی کہ مولانا اپنی ترمیم واپس لے لیں لیکن مولانا تیار نہیں ہوئے۔باہمی مشورے سے اصلی قرار داد واپس لے لی گئی لیکن لطیف ہوس ناکی والا فقرہ سب کی زبان پر تھا بقول سجاد ظہیر اجلاس کی نشست قہقہوں پر ختم ہوئی۔

حسرت نے اپنی درویشانہ زندگی کو ہی معیار بنایا اور اس کے لیے کبھی کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔پوری زندگی تیسرے درجے میں سفر کرتے رہے۔دستور ساز پارلیمنٹ کے رکن ہونے کے باوجود تھرڈ کلاس کا کرایہ ہی وصول کیا۔اکثر وبیشتر پید ل چلتے۔راجہ مہاراجہ کے یہاں بھی شان سے جاتے۔اگر کسی نے کبھی کوشش بھی کی تو وہ اپنی روش سے بازنہ آئے۔1925لکھنؤ میں حجاز کانفرنس کے نام سے ایک بڑا اجتماع ہوا۔جس کی صدارت مولانا حسرت موہانی نے فرمائی تھی۔منتظمین نے ازراہ احتیاط کانفرنس سے پہلے خطبہ صدارت کی اشاعت اور سفر خرج کے لیے حسرت کو سو روپے روانہ کردیے۔مولانا نے خرچ کے نام پر 23روپے وضع کرکے بقیہ رقم منتظمین کو لوٹا دی۔رشید احمد صدیقی نے مولانا کے اس رویے کا ایک دلچسپ واقعہ لکھا ہے۔

اردو پی ایچ ڈ ی کا زبانی امتحان لینے حسرت علی گڑھ تشریف لائے اسی سج دھج سے جس کا ذکر اوپر آچکا ہے۔سفر خرچ کابل فارم دستخط کے لیے پیش کیا گیاتو بولے یہ فرسٹ کلاس کا کرایہ کیسا۔میں تو تھرڈ کلاس میں سفر کیا کرتا ہوں اوردراصل میں دہلی جارہا ہوں پروگرام ایسا رکھا تھا کہ یہاں اتر پڑوں اورامتحان لے کر آگے بڑھ جاؤں۔پھر یہ کیسا کرایہ اور ٹھہرنے کا الاونس کیسے۔طعام وقیام تو آپ کے یہاں رہے۔بڑی دیر تک بڑے مزے کی رد و قدح اور علی گڑھ سے اپنی الفت کا اظہار کرتے رہے۔

اردو شاعری اور تحریک آزادی سے حسرت کا چولی دامن کا ساتھ رہا ہے۔حسرت نے ایک دستور ہند بھی تیار کیا تھا۔آزادی کامل کی تجویز سب سے پہلے انھوں نے ہی رکھی تھی۔آزدای کا نظریہ ان کا اس قدر پختہ اور یقینی تھا کہ وہ اس میں کسی لچک کے قائل ہی نہیں تھے اور اسی لیے وہ متعدد بار جیل گئے اور سخت آزمائشوں سے گزرنا پڑا۔حسرت موہانی کی پہلی گرفتاری 1908میں ہوئی مصرمیں انگریزوں کی تعلیمی پالیسی کے عنوان سے ”اردو ئے معلی“ میں ایک مضمون چھاپا۔مضمون نگار کا نام نہیں تھا۔مضمون کو باغیانہ قرار دے کر حسرت کو گرفتار کرلیا گیا۔کسی بڑے سیاسی مسلم رہنما کی یہ پہلی گرفتاری تھی۔تقریباً ایک برس جیل میں رہے۔سخت جسما نی اذیتوں کی وجہ سے خیال تھا کہ شاید اب آزادی کا نام نہ لیں۔دوسری گرفتاری اپریل 1916میں اور رہائی مئی 1918میں عمل میں آئی۔تیسری بار خلافت کانفرنس کے سالانہ جلسے (دسمبر 1921)میں تقریر کرنے کی پاداش میں اپریل 1922میں کان پور سے گرفتار کرکے سامبرمتی جیل میں رکھا گیا۔اگست 1924کو رہائی ہوئی۔قید و بند کی وجہ سے ان کی صحت پر برا اثر پڑا۔لیکن اس کے باوجود ان کے نظریے میں کسی طرح کی لچک نہیں پیدا ہوئی۔ انگریزوں کی سخت سے سخت آزمائشوں کو وطن عزیز سے بے پناہ محبت کی خاطر وہ برداشت کرتے رہے۔مشاہدات زنداں کے مطالعہ سے ان آزمائشوں اور مصبیتوں کا خاطر خواہ اندازہ ہوتا ہے۔اس سلسلے میں ان کا بہت مشہور شعرہے۔

ہے مشق سخن جاری چکی کی مشقت بھی

اک طرفہ تماشاہے حسرت کی طبیعت بھی

حسرت موہانی لکھنؤ کے قریب اناؤ کے قصبہ موہان میں پیدا ہوئے۔مگر حسرت کس تاریخ کو پیدا ہوئے اس کے بارے میں کوئی حتمی رائے نہیں دی جاسکتی۔اپنی تاریخ پیدائش کے سلسلے میں خود حسرت کے بیانات مختلف اور متضاد ہیں۔ان کے کاغذات سے بھی کوئی حتمی تاریخ نہیں طے کی جاسکتی۔اس موضوع پر باضابطہ تحقیق کرنے کے بعد بھی کوئی نتیجہ نہیں نکل سکا۔البتہ ان کا انتقال لکھنؤ میں 13مئی 1951کو ہوا۔اور یہیں مدفون ہیں۔اسہال کے مریض تھے اور آخر میں بہت کمزور ہوگئے تھے۔علاج و معالجہ سے بھی دلچسپی نہیں تھی۔انھوں نے خود کہا ہے۔

جہان شوق میں ماتم بپا ہے مرگ حسرت کا

وہ وضع پارسا اس کی وہ عشق پاکباز اس کا