کنور سنگھ کے مسلم اتحادی: متحدہ ہندوستان کی کہانی

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 25-04-2022
کنور سنگھ کے مسلم اتحادی: متحدہ ہندوستان کی کہانی
کنور سنگھ کے مسلم اتحادی: متحدہ ہندوستان کی کہانی

 


awazthevoice

 ثاقب سلیم،نئی دہلی

 پٹنہ کے کمشنر نے جون 1857 میں اعلیٰ حکام کو لکھا کہ مستقبل میں پولیس فورس میں'کسی راجپوت، برہمن یا مسلمان کو داخل نہیں کیا جائے گا۔

یہ تحریر اس بات کا ثبوت ہے کہ 1857 میں لڑی جانے والی پہلی جنگ آزادی میں ان تینوں سماجی گروہوں کی مشترکہ کوشش پنہاں تھی جہاں آپس میں کوئی تصادم نہیں تھا۔ وہیں اس زمانے میں اس پالیسی کا بھی آغاز ہوا جہاں برطانوی حکومت نے ہندوستانیوں کو ذاتوں اور مذاہب میں تقسیم کرنا شروع کیا۔ پچھلی درجہ بندیوں کو واٹر ٹائٹ کمپارٹمنٹس میں تبدیل کر دیا گیا تھا جس کے نتیجے میں بین مذہبی، بین ذات یا بین لسانی تشدد برپا ہوا تھا۔انگریزوں نے 1947 میں ملک چھوڑ دیا لیکن یہ تقسیم باقی رہی اور مختلف سیاسی گروہوں نے ان کو تقویت پہنچائی۔

آج جب حکومت آزادی کے امرت مہوتسو کے ایک حصے کے طور پر کنور سنگھ جینتی منا رہی ہے، اسی نوآبادیاتی ہینگ اوور(hangover) کے تحت صحافی اور تبصرہ نگار ’بہار کا ہیرو‘ یا ’راجپوت لیڈر‘ جیسی اصطلاحات استعمال کر رہے ہیں۔ کنور سنگھ یا اس معاملے میں 1857 میں لڑنے والے دیگرآزادی پسن اپنے قومی ہیرو کوہمیں مختلف زاویہ نگاہ نہیں دیکھنا چاہیے۔

پچھلے مضمون میں، میں نے نشاندہی کی تھی کہ کنور سنگھ 1857 سے بہت پہلے برطانوی حکومت کا تختہ الٹنے کا منصوبہ بنا رہے تھے اور کئی مسلمان اس منصوبے کا حصہ تھے۔  10 مئی 1857 کو انگلش ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوج کے سپاہیوں نے میرٹھ میں بغاوت کر کے دہلی پر قبضہ کر لیا۔ یہ ہندوستان کو غیر ملکی راج سے آزاد کرنے کا سوچا سمجھا منصوبہ تھا۔

بہادر شاہ ظفر، نانا صاحب، عظیم اللہ، تانتیا ٹوپے، مولوی احمد اللہ شاہ، ویرکنور سنگھ، بیگم حضرت محل، مولانا فضل حق خیرآبادی اس کی منصوبہ بندی کرنے والے نمایاں رہنما تھے۔ اس منصوبے میں جگدیش پور کے کنور سنگھ کی مدد ان کے مشیرایک مسلمان ذوالفقار نے کی تھی۔ انہوں نےاگست 1856 میں ذوالفقار کو لکھے گئے خط میں میرٹھ کی طرف مارچ کرنے کے منصوبے کی بات کی ہے۔ان خطوط سے پتہ چلتا ہے کہ فوج کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا جہاں ایک کنور سنگھ کی کمان میں تھا اور دوسرا ذوالفقار کے پاس تھا۔ آرہ میں لڑائی جولائی1857 کےآخری ہفتے میں شروع ہوئی۔ جون1857میں دہلی کے آزاد ہونے کے بعد پٹنہ کے کمشنر نے شاہ محمد حسین، مولوی احمد اللہ اور مولوی واعظ الحق کو گرفتار کر لیا۔ انہیں رات کے کھانے پر مدعو کیا گیا تھا اور انہیں گرفتار کرلیا گیا۔ اس کے فوراً بعد کنور سنگھ کو بھی ایسا ہی دعوت نامہ بھیجا گیا کیونکہ وہ پٹنہ کے ان لیڈروں کا اتحادی مانا جاتا تھا۔

تاہم کنور سنگھ نے ان کی دعوت قبول نہیں کی۔ برطانوی انٹیلی جنس کو پتہ چلا کہ اس سے ایک ہفتہ قبل پٹنہ سے تعلق رکھنے والے 1857 کے ایک بااثر رہنما علی کریم نے 25 جولائی کو دانا پور چھاؤنی میں بغاوت کی حکمت عملی بنانے کے لیے کنور سنگھ کا دورہ کیا۔ لڑائی شروع ہونے کے بعد علی کریم اور مشرف خان نے اپنی اپنی فوجوں کی قیادت کی جو کنور سنگھ کی فوج کے ساتھ مل کر لڑیں۔اتنی وسیع حمایت اور قوم پرستانہ احساس کے ساتھ جلد ہی آراہ کو آزاد کرلیا گیا۔ کنور سنگھ نے مجسٹریٹ شیخ غلام یحییٰ کے ساتھ  مقامی سطح پر سول حکومت قائم کی۔

شیخ محمد عظیم الدین آرہ کے قصبے میں دودھی ٹولہ کے رہنے والے تھے۔ ان کو مشرقی تھانے کا جمعدار (خزانچی) مقرر کیا گیا: دیوان شیخ افضل کے بیٹے طراب علی اور خادم علی کو کوتوال (شہر کا انچارج پولیس آفیسر) بنایا گیا۔ 

یہ تاریخ کی ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہندوستانی غداروں کی مدد سے انگریز ہندوستانی افواج کو شکست دینے میں کامیاب ہوئے اور آرہ، دہلی، لکھنؤ، جھانسی وغیرہ پر دوبارہ قبضہ کرلیا۔ تاہم ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ آزادی کی یہ عظیم جنگ ہمیں ہندو مسلم اتحاد کے بارے میں سکھاتی ہے اور یہ بھی بتاتی ہے کہ خوفزدہ نوآبادیاتی حکومت نے ان دونوں برادریوں کو ایک دوسرے کا دشمن بنانے کے لیے تفرقہ انگیز پالیسیاں اپنائی تھیں۔

اسی طرح کی تفرقہ انگیز سیاست کرنے والے ان غیر ملکی حکمرانوں کے روحانی جانشین ہیں۔